عبادت و نماز

کیا اس سے بھی بالاتر کوئی درجہ ہے؟ ہاں، انسان (کم از کم اپنے بارے میں) مستجاب الدعوۃ ہو جاتا ہےحتیٰ عبودیت کے نتیجے میں اپنے بدن پر اثر انداز ہو سکتا ہے، معجزہ کر سکتا ہے، کرامت کر سکتا ہے، (اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ) اس کا نتیجہ تسلط ہے۔

کیا اِس سے بڑھ کر بھی ہے؟

جی ہاں، لیکن یہ بڑھ کر اور بالاتر درجہ ہمارے فہم اور ہماری فکر کے لئے بہت زیادہ ہےبہت سے افراد یہ باور نہیں کر سکتے کہ کوئی انسان عبودیت کے اثر سے، خدا کی بندگی اور تذلل کے اثر سے، صراطِ عبودیت کو طے کرنے کی وجہ سے، اس مقام پر جا پہنچتا ہے کہ کائنات میں بھی تصرف کر سکتا ہےیعنی ایک بیمار کا روحی راستے سے علاج کر سکتا ہے، ایک پیدائشی اندھے کو شفا دے سکتا ہے، ایک مبروص (leper) کو شفا دے سکتا ہے (جیسا کہ قرآنِ کریم حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں بیان کرتا ہے) البتہ اذنِ الٰہی سےخدا نے انہیں یہ قدرت دی ہوئی ہےاذنِ خدا وہی قدرت ہے جو خدا عطاکرتا ہے: وَ تُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ۔ (۱) یا ایک دوسری آیت میں: وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اﷲِ(۲) یہ ایک بلند تر درجہ ہے جس کے بارے میں ہم فی الحال گفتگو کرنانہیں چاہتے، بعد کی نشست میں انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں ”قرب“ کے بارے میں کچھ نکات عرض کریں گےیہ جو ہم عبادت میں کہتے ہیں کہ ”قربۃً اِلَی اﷲ“ اس کے کیا معنی ہیں؟ تقربِ خدا سے کیا مراد ہے؟ اس بات کی انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں وضاحت کریں گے۔

حضرت علی علیہ السلام اُن بندوں اور عابدوں میں سے ہیں جو اِس خداوند گاری پر پہنچے ہوئے ہیں البتہ غلط فہمی پیدانہ ہو جائے، آپ یہ تصور نہ کیجئے گا کہ یہ عبودیت جس کا نتیجہ خداوند گاری اور تسلط ہے اس کا نتیجہ خود پسندی بھی ہےہرگز نہیں، خود پسندی کا عبودیت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیںکیااس کا نتیجہ غرور اور انانیت ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

وہ بندہ جو ربوبیت کے لئے بندگی کرتاہے، اسے اپنے عمل کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتاعبودیت تذلل اور خاکساری کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنی مناجات میں عرض کرتے ہیں: خدایا ! کَفیٰ لی فَخراً اَنْ اَکونَ لَکَ عَبْداً وَکَفیٰ لی عِزّاً اَنْ تَکونَ لی رَبّاًبارِالٰہا! میرے لئے یہ افتخار کافی ہے کہ میں تیرا بندہ رہوں اور میرے لئے یہ عزو شرف بہت ہے کہ تو میرا رب، خداوندگار، اور پروردگار ہے۔

ہم حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت سے مقامات اوردرجات کے قائل ہیں، اور قائل ہونا بھی چاہئےدراصل مسئلۂ ولایت، جس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بغیر ولایتِ تکوینی کے (ان حدود میں جس کے بارے میں شاید ایک نشست میں آپ کی خدمت میں عرض کریں) دراصل ولایت ہی نہیں ہوتی}وہ لوگ{غلط فہمی کاشکار ہیں، انہوں نے سمجھا نہیں ہے، علم نہیں رکھتے، وہ لوگ جو ولایت تکوینی کے منکر ہو گئے ہیں اور حتیٰ ولایتِ تکوینی کو نہیں سمجھے ہیں کہ وہ کیا ہےانہوں نے ایک اور چیز کو جاہلانہ طور پر فرض اور تصور کر لیا ہے اور اسی کو بار بار لوگوں سے کہا ہے، انہوں نے اسے اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہےکیونکہ ان کا ذہن ان مسائل تک نہیں پہنچتایہ لوگ بنیادی طور پر انسان اور خدا کو نہیں پہچانتےاس قسم کے مسائل کے بارے میں اظہارِ رائے کرنا، دو مسئلوں کی فرع ہے:اوّل خدا کی شناخت، دوّم: انسان کی شناخت اور انسان کی اندرونی صلاحیتوں کی شناخت، اور خدا سے انسان کے تقرب کے معنی اور عبودیت اور عبادت کے معنی۔

حضرت علی علیہ السلام جنہیں اس قدر محبوبیت حاصل ہے، یہ ان کی عبودیت کی وجہ سے ہےکیا خوب کہتے ہیں ابوسعید ابی الخیر (یاخواجہ عبداﷲ انصاری)

آن کس کہ تورا شناخت جان راچہ کند
فرزند و عیال و خانمان راچہ کند

دیوانہ کنی(۳) ھر دوجہانش بخشی(۴)
دیوانۂ توھر دو جھان راچہ کند

ایسا شخص جو تیرا مجذوب ہو جاتا ہے، اُسے ان ربوبیتوں کی کیا پروا جو انانیت، غرور اور تکبر پیدا کرتی ہیں۔
یہ ایام، ایک طرف تو احیا کے دن اور راتیں ہیں، دعا کے دن اور راتیں ہیں، عبودیت اور بندگی کرنے کے دن اور راتیں ہیں اور دوسری طرف مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں اس ہستی کی شہادت کے ایام ہیں جو عظیم ترین بندگانِ خدا میں سے ایک ہےپیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہم ایسی بندگی رکھنے والے کسی اور بندے سے واقف نہیں ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کے ضرب لگنے سے شہادت تک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً پینتالیس گھنٹے ہوں گےیعنی اس لحظے تک جب کہ آپ کی روح نے عالمِ ملکوت کی جانب پرواز کیاور ہمارے خیال میں پینتالیس گھنٹے کی یہ مدت حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے حیرت انگیز ترین ادوار میں سے ہےان پینتالیس گھنٹے میں انسان حضرت علی کی شخصیت کو دیکھتا ہے، ان پینتالیس گھنٹوں میں علی کایقین اور ایمان دوسروں پر نمایاں ہوتا ہےخود اُن کی نظر میں یہ ایسے لحظات اور ساعتیں ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنا انعام حاصل کیا ہےمقابلے کو انتہا تک پہنچایا ہے، انتہائی افتخار کے ساتھ اپنے پروردگار کے پاس جانا چاہتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری ہی شئے ہیںنہج البلاغہ میں ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ :اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّّقُوْلُوْآ ٰامَنَّا وَ ہُمْ لااَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۵) تو میں سمجھ گیا کہ امتِ اسلامیہ میں فتنے پیدا ہوں گےمجھے شہادت کی بڑی تمنا تھی، میری آرزو تھی کہ احد میں شہید ہو جاؤںمسلمانوں کے ستر افراد شہید ہو گئےجب میں شہید نہ ہوا تو میں انتہائی دل گرفتہ تھا، میں رنجیدہ ہو گیا (یہ باتیں ایک جوان کر رہا ہےجنگِ احد کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام ایک تقریباً پچیس برس کے مرد تھے، ان کے دو چھوٹے بچے تھے، امام حسن اور امام حسین، صدیقۂ طاہرہ جیسی ان کی زوجہ تھیں، اسکے باوجود شہادت کی آرزو نے علی کو اس قدر بے تاب کر رکھا تھا کہ جب آپ شہید نہ ہوئے تو رنجیدہ تھے) پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے ہی ان سے وعدہ کیا ہوا تھاشایدخود انہوں نے ہی رسولِ کریم سے سوال کیا تھا کہ اے اﷲ کے رسول! میں کس انداز سے دنیا سے رخصت ہوں گا؟ پیغمبر نے فرمایاتھا کہ تم ایک شہید کی صورت میں دنیا سے جاؤ گےلیکن جب آپ نے دیکھا کہ آپ جنگِ احد میں شہید نہیں ہوئے، تو آپ رنجیدہ ہو گئےرسولِ کریم کی خدمت میں تشریف لے گئے اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ خدا شہادت کو میرا مقدر بنائے گاپس آخر کیوں میں احد میں شہید نہیں ہوا؟ آنحضرت نے فرمایا: علی جان، زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا، آپ یقیناًاس امت کے شہید ہوں گےاسکے بعد پیغمبر نے علی سے ایک سوال کیا: علی جان، بتاؤ جب تم بسترِ شہادت پر ہو گے تو کس طرح صبر کرو گے؟ آپ کیسا شاندارجواب دیتے ہیں}فرماتے ہیں{: اے اﷲ کے رسول! وہ تو صبر کی جگہ نہیں، وہ توخوشی کی جگہ ہے، شکر اور سپاس گزاری کامقام ہےآپ مجھے بتایئے کہ جب میں بسترِشہادت پر ہوں، تو کس طرح خدا کا شکر ادا کروں؟

علی ہمیشہ اپنے اس گم گشتہ کی تلاش میں رہتے تھےاجمالاً آپ جانتے تھے کہ آپ کا یہ سر راہِ خدا میں ضرب کھائے گاآپ کہا کرتے تھے کہ خدایا! وہ پیارا لمحہ، وہ خوبصورت لحظہ، وہ پر لذت اور شادمانی بھری ساعت کب آئے گی؟ رسولِ مقبول نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ آپ کی شہادت ماہِ رمضان میں واقع ہو گی اور اِس اکتالیس ہجری کے ماہِ رمضان میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علی کے دل کو پتا چل گیا تھا کہ اس ماہِ مبارک میں اس کی تمنا پوری ہو جائے گاعلی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ اُن کے بابا اس ماہِ رمضان میں ایک انتظار، اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں ایسے جیسے کسی بڑی بات کا انتظار کر رہے ہیں۔

رمضان کی تیرہویں تاریخ ہے، آپ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، اُن سے خطاب فرماتے ہیں، خطبے کے درمیان آپ کی نگاہ امام حسن پر پڑتی ہے، اپنی گفتگو روک دیتے ہیںء آواز دیتے ہیں حسن !بتاؤ اس مہینے کے کتنے دن گزر گئے ہیں؟ ایک انتہائی عجیب سوال ہےعلی خود ہر ایک سے بہتر جانتے ہیں کہ کتنے روز گزر چکے ہیںکیوں اپنے اس جوان سے دریافت کر رہے ہیں؟ حسن عرض کرتے ہیں :بابا جان! تیرہ دن گزر چکے ہیں آپ فوراً امام حسین کی طرف رخ کرتے ہیں: بیٹا حسین! اس مہینے کے کتنے دن باقی بچے ہیں؟ (بالکل واضح ہے کہ جب تیرہ دن گزر چکے ہیں تو سترہ دن باقی رہے ہیں) بابا! سترہ روز باقی رہ گئے ہیں}یہ سن کر{ آپ اپنی ریشِ مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں: ا س داڑھی کا اس سر کے خون سے رنگا جانا بہت قریب ہےآپ کو اس ساعت، اور اس دن کا انتظار تھا۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ان پینتالیس گھنٹوں کے دوران جو خوبصورت جملے ارشاد فرمائے ان میں سے ایک یہ ہےدوسرے لوگ انتہائی مضطرب اور رنجیدہ تھےآنسو بہا رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے، لیکن خود علی، بشاشت کا اظہار کر رہے تھےفرمایا: واﷲِ مافَجَأَنی مِنَ الْمَوْتِ وارِدٌ کَرِھْتُہُ وَلا طالِعُ اَنْکَرْتُہُ وماکُنْتُ اِلّاکَقارِبٍ وَرَدَوَطالِبٍ وَجَدَ خدا کی قسم اگر میں مر گیا تو مجھے کوئی کراہت نہیں ہو گی، ذرّہ برابر کراہت نہیںیہ میرے لئے ایک انجانی بات نہیں تھی، ایک انجانا مہمان نہ تھا، ایک جانا پہچانا مہمان تھااسکے بعد فرمایا: تم جانتے ہو کہ میری مثال کیسی مثال ہے؟ اُس عاشق کی سی مثال ہے جو اپنے مطلوب اور معشوق کا پیچھا کرتا ہے، اور اُسے پا لیتا ہےمیری مثال اس پیاسے کی سی مثال ہے جو ایک تاریک رات میں پانی کی تلاش میں ہوتا ہے اور اچانک پانی دریافت کر لیتا ہے، وہ کس قدر خوش ہو تا ہے!

آپ کے اصحاب آتے ہیں، }کہتے ہیں{ بے شک اے امیر المومنین! آپ کے لئے ایسا ہی ہےلیکن آپ کے بعد ہم کیا کریں گے؟ انیسویں کی شب، حضرت علی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ آج ایک اور ہی طرح کی رات ہے، کیونکہ اس رات حضرت کی ایک خاص وضع تھیکبھی آپ باہر تشریف لاتے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے اورواپس پلٹ جاتےاس رات بھی علی صبح تک نہ سوئےآپ کے بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھےامیر المومنین کے یہاں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ تھییعنی گھر میں ایک کمرہ تھا جہاں نماز پڑھا کرتے اور عبادت کیا کرتے تھےحسن ابن علی علیہما السلام، جو اپنے گھر چلے گئے تھے، صبح طلوع ہونے سے پہلے اپنے گھر سے لوٹ آئے، اپنے پدرِ بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے نماز پڑھنے کی جگہ گئے، دیکھا کہ علی بیٹھے ہوئے عبادت میں مشغول ہیں اس موقع پر آپ نے وہ قصہ جو اس رات واقع ہوا تھا اپنے فرزند حسن سے بیان کیافرمایا: بیٹا! کل رات میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا (یعنی میں کل رات نہیں سویا تھا، بستر نہیں بچھایا تھا) کہ میری آنکھ لگ گئیایک لمحہ میں، ایک عجیب سرعت کے ساتھ، اسی خواب کے عالم میں، میں نے تمہارے نانا پیغمبر اکرم کو دیکھا ”مَلَکَتْنی عَینی وَاَنا جالِسٌ فَسنَحَ لی رَسولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ“ میری آنکھ لگ گئی، مجھ پر نیند کا غلبہ ہو گیا، میں نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے ایک لمحے کے لئے پیغمبر کو دیکھاجوں ہی پیغمبر پر میری نگاہ پڑی میں نے اُن کی خدمت میں امت کی شکایت کی، میں نے عر ض کیا : یا رسولَ اﷲِ ماذا لَقیتُ مِن اُمَّتِکَ مِنَ الْاَودِ وَاللَّدَدِاے اﷲ کے رسول! میں نے آپ کی امت کے ہاتھوں کیا کیا ستم سہے ہیں، اور اس امت نے میرا کیسا کیسا دل دکھایا ہے! اے اﷲ کے رسول! میں آپ سے اپنے دشمنوں کی۔ ۔ (*)

۱۔ اور تم پیدائشی اندھوں کو اور برص میں مبتلا لوگوں کو ہماری اجازت سے صحیتیاب کردیتے تھے اور ہماری اجازت سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ (سورۂ مائدہ ۵آیت ۱۱۰)

۲۔ اور حکمِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا۔ (سورۂ آل عمران ۳آیت ۴۹)

۳یعنی اسے اپنا شیفتہ اور مجذوب کر لیتا ہے۔

۴اسی ربوبیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں(اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ)

۵۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور اُن کا امتحان نہیں ہوگا۔ بے شک ہم نے اُن سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔ (سورۂ عنکبوت ۲۹۔ آیت ۲ اور ۳)

*آخری چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔