عبادت و نماز

آپ نے سنا ہوا ہے کہ انبیا اور ائمۂ معصوم ہوتے ہیں اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انبیا اور ائمہ کے معصوم ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ اسکا جواب دیں گے کہ وہ کبھی کسی بھی صورت میں گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔

ٹھیک ہے(عصمت کے) معنی یہی ہیںلیکن اگر اسکے بعد آ پ سے سوال کیا جائے کہ (یہ لوگ) کیوں گناہ نہیں کرتے؟ تو ممکن ہے آپ اس سوال کادو طرح سے جواب دیںایک یہ کہ انبیا اور ائمہ اس وجہ سے معصوم ہیں اور گناہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم ان کے ارتکابِ گناہ میں رکاوٹ ہے، اس نے انہیں بالجبر گناہ اور معصیت سے روکا ہوا ہےیعنی جب کبھی وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں، خدا رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے اور ان کا راستہ روک دیتا ہے۔

اگر عصمت کے معنی یہ ہیں تو یہ (انبیا اور ائمہ کے لئے) کوئی فضیلت اور کمال نہیںاگر میرے اور آپ کے ساتھ بھی اسی طرح ہونے لگے کہ جوں ہی ہم گناہ کرنا چاہیں، خدا کی نافرمانی کرنا چاہیں تو ایک خارجی طاقت ہمارے راستے میں حائل ہو جائے، ہمارے مانع و مزاحم ہو جائے اور ہمارے اور گناہ کے درمیان رکاوٹ بن جائےایسی صورت میں بحالتِ مجبوری ہم بھی گناہ سے محفوظ رہیں گے۔

پس، ایسی صورت میں انہیں (انبیا اور ائمہ کو) ہم پر کیا فضیلت ہوئی؟ اس صورت میں ان کے اور ہمارے درمیان صرف یہ فرق ہو گا کہ وہ خدا کے ایسے بندے ہیں جنہیں اس نے خاص امتیاز دیا ہوا ہے، جب وہ خدا کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، توخدا ان کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے لیکن (ہمیں یہ امتیاز حاصل نہیں) جب ہم نافرمانی کا ارادہ کرتے ہیں، تو خدا ہمارا راستہ نہیں روکتا۔

نہیں، یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔
ان (انبیا اور ائمہ) کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ گناہ کرنا چاہتے اورخدا ان کے مانع ہو جاتا ہے !

پس پھرحقیقت کیا ہے؟
عصمت کے معنی، ایمان کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونا ہےجتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنا ہی انسان کو خدا زیادہ یاد رہے گامثلاً ایک بے ایمان انسان ایک روز گزارتا ہے ایک ہفتہ گزارتا ہے، ایک مہینہ گزارتا ہے، جو چیز اسکے ذہن میں پھٹکتی تک نہیں، وہ خدا ہےایسا شخص یکسر غافل ہے۔

بعض لوگوں کو کبھی کبھی خدا یاد آتا ہےاس موقع پر انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہمارا ایک خدا ہے، خدا ہمارے سروں پر ہے اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہےلیکن خدا اسی ایک لمحے کے لئے ان کے ذہن میں آتا ہے، اسکے بعد وہ اسے ایسے بھلا بیٹھتے ہیں جیسے سرے سے کسی خدا کا وجود ہی نہیں۔

لیکن کچھ افراد جن کا ایمان (مذکورہ بالا لوگوں سے کچھ) زیادہ ہوتا ہے، کبھی غفلت میں ہوتے ہیں، کبھی بیدارجب غافل ہوتے ہیں تو ان سے گناہ صادر ہوتے ہیں لیکن جب بیدار ہوتے ہیں تو اس بیداری کے نتیجے میں ان سے گناہ صادر نہیں ہوتےکیونکہ جب وہ خدا کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو ان سے گناہ کے صدور کا امکان ختم ہو جاتا ہےلایزنی الزانی وھو مو من (کوئی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کر سکتاوسائل الشیعہج ۱ص ۲۴ح ۱۴)

جب انسان کی روح میں سچا ایمان موجود ہو اور وہ بیدار ہو تو گناہ میں مبتلا نہیں ہوتااب اگر انسان کا ایمان کمال کی حدوں کو چھو لے، یہاں تک کہ وہ خداکو ہمیشہ حاضر و ناظر سمجھنے لگےیعنی خدا ہمیشہ اس کے دل میں موجود ہو، تواس صورت میں وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوتا، ہر عمل کی انجام دہی کے دوران خدا کی یاد اسکے ساتھ ساتھ ہوتی ہےقرآنِ مجید کہتا ہے :

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ

وہ مرد جنہیں کاروبار یا خرید و فروخت ذکرِ خدا سے غافل نہیں کر سکتی(سورۂ نور ۲۴آیت ۳۷)

(قرآن) یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جوتجارت نہیں کرتےاسلام لوگوں کو تجارت اور کاروبار سے روکنے کے لئے نہیں آیایہ نہیں کہتا کہ تجارت نہ کرواسکے برعکس حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ محنت کرو، کماؤ، کاروبار کرو، تجارت کرووہ لوگ جو خرید و فروخت کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، کماتے ہیں، ملازمت کرتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایک لمحے کے لئے بھی خدا سے غافل نہیں ہوتےدکان کے کاؤنٹر پر کھڑے ہوتے ہیں، چیزیں فروخت کرتے ہیں، تولتے ہیں، بولتے ہیں، پیسے لیتے ہیں اور مال حوالے کرتے ہیں لیکن جس چیز کو وہ ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہیں کرتے وہ ”خدا“ ہےخدا ہمیشہ ان کے ذہن میں رہتا ہے۔

اگر کوئی ہمیشہ بیدارہو، ہمیشہ خدا اسکے ذہن میں ہو، تو قدرتی بات ہے کہ وہ کبھی بھی گناہ کا مرتکب نہیں ہوگاالبتہ ہم ایسی دائمی بیداری معصومین علیہم السلام کے سوا کسی اور میں نہیں پاتے(چنانچہ)معصومین یعنی وہ لوگ جو کسی بھی لمحے خدا کو نہیں بھولتے۔

آپ کی خدمت میں ایک مثال عرض کرتا ہوں: کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ (آپ نے جانتے بوجھتے) اپنا ہاتھ آگ میں ڈال دیا ہو، یا آگ میں کود پڑے ہوں؟ اگر آپ کو معلوم نہ ہو، بے خبری میں ایسا ہو گیا ہو تو دوسری بات ہےپوری زندگی میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کوئی ارادتاً خود کو آگ میں جھونک دےالبتہ اگر ہم خودکشی کرناچاہیں تو (بات دوسری ہے)۔

ایسا کیوں ہے؟ ایسااس لئے ہے کہ ہم بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ آگ کا کام جلانا ہے، یہ جانتے ہیں کہ اگر آگ کے بھڑکتے شعلوں میں گر جائیں تو یقیناً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گےہم قطعی اور یقینی طور پر اس بات کا علم رکھتے ہیں اور جوں ہی ہمیں آگ نظر آتی ہے یہ علم ہمارے ذہن میں حاضر ہو جاتا ہے اور ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوتےلہٰذا ہم اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے سے معصوم ہیںیعنی ہمیں حاصل یہ علم و یقین اور ایمان کہ آگ جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ہمیں آگ میں کود پڑنے سے باز رکھتے ہیں۔

جتنا ہم آگ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں، اتنا ہی اولیائے خدا، گناہ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیںلہٰذا وہ معصوم ہوتے ہیں (کسی گناہ کے قریب نہیں جاتے)۔

اب جبکہ معصوم کے معنی معلوم ہو چکے ہیں، تواس جملے کا مقصد بھی واضح ہو گیا ہو گا کہ ”عبادت اسلام کی تربیتی اسکیم کاحصہ ہے“عبادت اس لئے ہے کہ انسان کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد خدا کی یاد دلائی جائے اور انسان کو جتنا خدا یاد ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ اخلاق، عدالت اور حقوق کا پابند ہو گایہ ایک بالکل واضح (clear)بات ہے۔