عبادت و نماز

اپنے قوۂ خیال پر تسلط

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اس مرحلے سے جب ہم گزرجاتے ہیں، تو ایک بالاتر اور عالی تر مرحلہ ہے، اور وہ اپنے تصورات اور خیالات پر تسلط ہےیعنی ابھی ہم اور آپ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، دن کے وقت اپنے کام کاج اور روزگار کے سلسلے میں مشغول ہوتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تصورات اور خیالات ہمارے اختیار میں ہیں اور ہم اپنے اوپر حاکم ہیںہم اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ ہم پر ہمارے فکر و خیال کا حکم چلتا ہے (یہاں فکر سے مراد قوۂ خیال ہے) یعنی کچھ بکھرے ہوئے افکار ہم پر حاکم ہوتے ہیں آپ ایک جلسے میں بیٹھ جائیں، اگر آپ اپنے ذہن کو ایک گھنٹے کے لئے ایک خاص موضوع پر مرکوز کر سکیںاس انداز سے کہ آپ کی قوۂ خیال آپ کے قابوسے باہر نہ نکل سکے، تب پتا چلے گا کہ آپ اپنے فکر و خیال پر مسلط ہیں۔

نما ز حضورِ قلب کے لئے ہےحضورِ قلب دراصل ہے کیا؟ یہ حضورِ قلب کا مسئلہ ایک انتہائی عجیب تعبیر ہےحضورِ قلب، یعنی دل حاضر ہو، غائب نہ ہویعنی جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ قبلہ رخ ہوں، تو اپنا جائزہ لیں، دیکھیں کہ آپ کا دل نماز میں حاضر ہے یا غائب؟ آپ نماز کی ابتدا میں اپنے دل کودیکھتے ہیں، وہ حاضر ہوجاتا ہےآپ کا دل بھی چاہتا ہے کہ وہ حاضر رہےجب آپ اﷲ اکبر، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو یکایک آپ دیکھتے ہیں کہ جماعت کا یہ طالبِ علم بھاگ گیا ہے، آپ نے اوّل سے آخر تک درس دیا ہے لیکن طالبِ علم کلاس میں نہیں تھاجب ہم نماز پڑھتے ہیں اور الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو ہم اپنے دل کو تفہیم کرنا چاہتے ہیں، اپنی روح کو تلقین کرنا چاہتے ہیں، لیکن جب ہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا جسم، یعنی ہماری زبان اورہمارے اعضا و جوارح ہمارے دل کو درس دینے میں مشغول تھے، اور جماعت کا طالبِ علم یہ دل تھا، لیکن افسوس کہ یہاں صورتحال یہ تھی کہ ہم نے درس دیا، جماعت کے طالبِ علم نے ابتدا میں اپنے حاضر ہونے کا اعلان کیا اور بعد میں بھاگ گیا اور ہم نے درس دیا اور فضول درس دیا۔

ہم سے حضورِ قلب کے لئے کہا گیا ہے، نماز میں تمہارا دل حاضر رہے، غائب نہ ہواس بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیںعلی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی ایک روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے، اورعلما میں سے جس نے سب سے بہتر انداز میں اس نکتے کو بیان کیاہے وہ شیخ الرئیس بو علی سینا ہیں، وہ عارف کی عبادت کے باب میں کہتے ہیں: والعبادۃ عند العارف ریاضۃٌ ما لھممہ و قواہ المتخیلۃ و المتوھمۃ لیجرّھا با لتعو ید عن جناب الغرور الی جناب القدس(یہ مضمون ہو بہو حدیث کا مضمون ہےایک درس ہے جو بو علی نے پیغمبر اور ائمہ سے لیا ہے) کہتے ہیں کہ ایک عارف انسان جو عبادت کرتا ہے، ایک دانااور شناسا انسان جب عبادت کرتا ہے، توعبادت کے دوران ہر چیز سے زیادہ، اپنے قوۂ خیال کے تمرکز کو اہمیت دیتا ہے، تاکہ اسکا ذہن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے اور قوۂ خیال ہمیشہ حاضر ہو اور اس کلاس سے فرار نہ کرے۔