عبادت اور تربیت
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ۔ (۱)
اسلام میں عبادات اصل اور بنیاد کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی تربیتی اسکیم کا حصہ بھی ہیں اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ :عبادات کے اصل اور بنیاد کے حامل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ہر پہلو سے قطع نظر، انسانی زندگی کے مسائل سے قطع نظر خود عبادت مقاصدِ خلقت میں سے ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔
اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے(سورۂ ذاریات ۵۱آیت ۵۶)
عبادت انسان کے حقیقی کمال اور تقربِ الٰہی کا ایک وسیلہ ہے۔
ایسی چیز جو خود انسان کے کمال کا مظہر، اورخود ہدف اور غایت ہے اسکے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسری چیز کا مقدمہ اور وسیلہ ہولیکن اسکے باوجود، عبادات اس اصالت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری چیز کا مقدمہ بھی ہیںیعنی جیسا کہ ہم نے عرض کیا (عبادات) اسلام کی تربیتی اسکیم کا حصہ ہیںیعنی اسلام، جو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے افراد کی تربیت کرنا چاہتا ہے، وہ اس مقصد کے لئے جو وسائل اختیار کرتا ہے ان میں سے ایک وسیلہ عبادت ہے اور اتفاق سے یہ وسیلہ انسان کے اخلاق اور روح پر ہر دوسرے وسیلے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہےایسا کس طرح ہے؟ ہم آئندہ سطور میں اس کی وضاحت کریں گے۔
اخلاقی مسائل کا محور ”ایثار و فدا کاری“ اور اپنے فائدے اور مفاد کوپس پشت رکھنا ہےجس طرح ”حمیہ“ یعنی پر خوری سے اجتناب، جسمانی سلامتی کا ایک اصول ہے، جو (جسمانی صحت سے متعلق) تمام خوبیوں کی اسا س اوربنیاد ہے، اسی طرح اخلاق میں بھی ایک چیز ہے، جو تمام اخلاقی مسائل کی اصلِ اساس ہے، اور وہ ہے اپنی ذات سے گزر جانا، اپنی ذات کوبھلا دینا، ”انانیت“ کی اسیری سے آزاد ہو جانا اور ”میں“ کو ترک کر دینا۔
اجتماعی مسائل میں عدالت کا اصول تمام اصولوں کی ماں ہےعدالت، یعنی دوسرے افرادکے حق کوملحوظ رکھنا، ان کے حقوق کی رعایت کرنا۔
وہ مشکل جس سے انسانیت اخلاقی مسائل میں بھی دوچار ہے اور اجتماعی مسائل میں بھی اس کا سامنا کر رہی ہے، وہ ان اصولوں کو روبہ عمل لانے کا مسئلہ ہےیعنی کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو اخلاق سے ناواقف ہو، یا اس بات کا علم نہ رکھتا ہو کہ عدالت کس درجہ ضروری ہےلیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ان اصولوں پر عمل کا مرحلہ آتا ہے۔
جس وقت انسان کسی اخلاقی اصول کی پابندی کرنا چاہتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ اسکا مفاد اور منفعت ایک طرف ہے اوراس اخلاقی اصول کی پابندی دوسری طرفوہ دیکھتا ہے کہ راست گوئی ایک طرف ہے اور منفعت اور فائدہ دوسری طرفیا تو وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے اور نفع حاصل کر لے، یا پھرسچ بولے، امانت داری کا ثبوت دے اور اپنے منافع کو پس پشت ڈال دےیہ وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عدل و اخلاق کا دم بھرنے والا انسان بھی عمل کے موقع پر اخلاق اور عدالت کی مخالف راہ اختیار کرتا ہے۔
۱بے شک نماز ہر برائی اور بد کاری سے روکنے والی ہے اور اﷲ کا ذکر بہت بڑی شے ہے(سورۂ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)