روحِ عباد ت یادِ خدا
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
یادِ خدا، روحِ عبادت ہےعبادت کی روح یہ ہے کہ جب انسان عبادت کر رہا ہو، کوئی نماز پڑھ رہا ہو، کوئی دعا کر رہا ہو الغرض کوئی بھی عمل انجام دے رہا ہو، تو اس کا دل اپنے خدا کی یادمیں زندہ ہو: وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (۱) قرآن کہتا ہے نماز قائم کروکس لئے؟ اس لئے کہ میری یاد میں رہوایک دوسری جگہ قرآنِ کریم فرماتا ہے : اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ(۲) اس آیت میں نماز کی خاصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ وہ نماز جو حقیقی ہو، جو واقعی نماز ہو، ایسی نماز ہو جو صحیح شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی گئی ہوفرماتا ہے: اگر انسان حقیقتاً نماز پڑھنے والا ہو اور صحیح نماز پڑھے، تو خود نماز انسان کو نازیبا کاموں اور منکرات سے روکتی ہےمحال ہے کہ انسان درست اور مقبول نماز پڑھے اور جھوٹا ہومحال ہے کہ انسان صحیح اور درست نماز پڑھے اور اس کا دل غیبت کرنے کو چاہے۔ محال ہے کہ انسان درست اور صحیح نماز پڑھنے والا ہو اور اس کی شرافت اسے شراب خوری کی طرف جانے کی اجازت دے، وہ بے حیائی کی طرف جائے، کسی بھی دوسرے نازیبا کام کی طرف قدم اٹھائے نماز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو عالمِ نورانیت کی طرف لے جاتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت ہے، جو معروف کتاب ”مصباح الشریعہ“ میں نقل ہوئی ہےہمارے پاس ”مصباح الشریعہ“ نامی ایک کتاب ہے، جسے بہت سے بزرگ علما معتبر سمجھتے ہیں، جبکہ بعض علما، جیسے مرحوم (علامہ) مجلسی، اس کتاب کو خاص معتبر نہیں سمجھتے، اس اعتبار سے کہ اسکے مضامین کچھ عرفانی مضامین پر مشتمل ہیں۔ البتہ یہ ایک معروف کتاب ہےحاجی نوری، سید بن طاؤوس اور ان جیسے دوسرے حضرات اس کتاب سے نقل کرتے ہیں اس کتاب میں بکثرت احادیث ہیں۔
فضیل بن عیاض نام کا ایک شخص ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کا معاصر ہے، اُس کا شمار معروف لوگوں میں ہوتاہے، ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنی عمر کا ایک حصہ گناہ، فسق و فجور، چوری، ڈاکے اور اسی قسم کے دوسرے مشاغل میں بسر کیا ہےبعد میں اس میں ایک عجیب روحانی انقلاب پیدا ہوتا ہے اوروہ اپنی بقیہ عمر (اپنی آدھی عمر) تقویٰ، زہد، عبادت اور معرفت و حقیقت کی تلاش میں بسر کرتا ہے۔ اسکی داستان معروف ہےوہ ایک مشہور چور تھا، نقب زن، وہ خود اپنی داستان کچھ یوں بیان کرتا ہےکہتا ہے: ایک رات میں نے ایک گھر کو نظر میں رکھا ہوا تھا، کہ آج رات اس گھر میں چوری کروں گااس گھر کی دیوار بلند تھیآدھی رات گزر چکی تھی۔ میں دیوار کے اوپر چڑھا، جب میں دیوار کے اوپر پہنچا اور چاہا کہ نیچے اتروں، تو ہمسائے کے کسی گھر میں (یا اسی گھر کے اوپر) ایک عابد، زاہد اور متقی شخص، ایسے لوگوں میں سے ایک شخص جو اپنی راتوں کو بیداری کے عالم میں بسر کرتے ہیں، قرآن پڑھنے میں مشغول تھا، بہت اچھے انداز اور انتہائی خوبصورت لحن کے ساتھ(۳) جب میں دیوار کے اوپر پہنچا تواتفاقاً قرآن کا وہ قاری اور عابدشخص اس آیت پر تھا:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ(۴) ظاہر ہے فضیل عرب تھا، معنی سمجھتا تھااس آیت کے معنی یہ ہیں کہ :کیا وہ وقت نہیں آیا جب با ایمان لوگوں کے دل، ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے دل، خدا کی یاد قبول کرنے کے لئے نرم ہوجائیں؟ کب تک قساوتِ قلبی رہے گی؟ کب تک غفلت و بے خبری رہے گی؟ کب تک نیندکی حالت طاری رہے گی؟ کب تک حرام خوری میں مبتلا رہیں گے؟ کب تک دروغ گوئی اور غیبت کریں گے؟ کب تک شراب خوری اور قمار بازی کے مرتکب رہیں گے؟ کب تک نافرمانی میں مصروف رہیں گے؟
یہ خدا کی آواز ہے، اسکے مخاطب بھی ہم تمام لوگ ہیںخدا ہم سے بات کر رہا ہےاے میرے بندے، اے مسلمان! وہ وقت کب آئے گا جب یادِ خدا کے لئے تیرا دل نرم ہو جائے، جب توخدا کی یاد کے لئے خاضع اور خاشع ہو جائے؟
اس عابد شخص نے اس انداز سے اس آیت کو پڑھا کہ فضیل، جو دیوار پر چڑھا ہوا تھا، اُسے یوں محسوس ہوا کہ خود خدا اپنے بندے فضیل سے مخاطب ہےوہ کہتا ہے: اے فضیل! تو کب تک چوری اورڈاکا زنی اور لوٹ مار کرے گا؟
یہ آیت سُن کر فضیل لرز کر رہ گیا اور یکلخت پکار اٹھا: خدایا! بس اب وہ وقت آن پہنچا ہےپھر وہ اُسی وقت دیوار سے اتر آیااور توبہ کی، سچی توبہ، ایسی توبہ جس نے اُس شخص کو اوّل درجے کا عُبّاد بنا ڈالااس حد تک کہ تمام لوگ اُس کااحترام کرنے لگے۔
وہ ایسا شخص نہ تھا جو ہارون الرشید کے دربار میں حاضری دےہارون الرشید کو فضیل بن عیاض سے ملاقات کی بڑی آرزو تھی، لیکن کہتے ہیں کہ فضیل کبھی ہارون کے دربار میں نہیں آتے تھے۔ ہارون کہتا ہے کہ اگر فضیل نہیں آتے، تو میں چلا جاتا ہوںایک مرتبہ وہ فضیل کے پاس گیاوہ ہارون ہے، ایک مقتدر خلیفہ ہے، دنیا میں بہت کم بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کی مملکت کی وسعت اس کی مملکت کے برابر ہو، وہ دنیا کے مقتدر ترین سلاطین میں سے ایک ہےایک فاسق اور فاجر شخص ہےایک ایسا شخص ہے جو رات رات بھر شراب نوشی، رقص و سرود اور اسی قسم کی باتوں میں مشغول رہا کرتا ہےوہ فضیل کے پاس آتا ہے۔ وہی فضیل اپنی گفتگو کے چند جملوں سے (اسے منقلب کر دیتے ہیں) وہاں موجود تمام لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ فضیل کے سامنے ہارون انتہائی چھوٹا دکھائی دے رہا تھا، اور اسکی آنکھوں سے آنسو برسات کی طرح جاری تھے۔ فضیل اُسے وعظ و نصیحت کر رہے تھے، اسکے سامنے اسکے ایک ایک گناہ کو گنوا رہے تھے۔ فضیل بن عیاض اس قسم کے شخص تھےوہ اس حالت میں، جو انہوں نے اس دور میں پیدا کی، تقویٰ اور معرفت کے اس درجے پر پہنچ گئے، امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر تھے اور انہوں نے ہارون یعنی امام موسیٰ ابن جعفر (الکاظم) کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔
کتاب ”مصباح الشریعہ“ ایک ایسی کتاب ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور امام سے چند مسائل کے بارے میں سوال کیا اور امام نے مجھے یہ جوابات دیئےظاہر بات ہے کہ جب اس قسم کا عارف، با معرفت، متقی اور زاہد انسان امام کی خدمت میں حاضر ہو گا، تو یہ کسی ایسے ساربان کے آپ کی خدمت میں جانے سے بہت مختلف ہو گا جو مثلاًشکیات (نماز) کا کوئی مسئلہ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوقدرتی طور پر اسکے سوالات، ایک درجہ بلند تر ہوں گے اور امام کے جواب بھی دوسروں کو دیئے جانے والے جوابات سے ایک درجہ بلند سطح کے ہوں گےقدرتی طور پر یہ کتاب ایک بلند درجہ کتاب ہےمثلاً امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کتاب میں اسرارِ وضو بیان کئے ہیں، اسرارِ نماز بیان کئے ہیں۔
۱۔ اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (سورۂ طہ ۲۰آیت ۱۴)
۲۔ نماز ہر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے، اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ہے۔ (سورۂ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)
۳آپ جانتے ہیں کہ قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنا(تجوید یعنی خوبصورت بنانا) یعنی حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا، اچھے انداز میں پڑھنا، ایسا انداز جو الحانِ اہلِ فسق نہ ہو، ایک ایسے اندازسے پڑھنا جو قرآن سے تناسب رکھتا ہو قرآنی سنتوں میں سے ہے اور ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام خود اس میدان میں دوسروں سے آگے تھےہماری روایات میں ہے کہ امام محمد باقرعلیہ السلام اور امام سجادعلیہ السلام، انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن پڑھا کرتے تھےجب گھر کے اندرسے آپ کے قرآن پڑھنے کی آواز بلند ہوتی، تویہ آواز سن کر گلی سے گزرنے والوں کے قدم وہیں جم کے رہ جاتے (اس زمانے میں مدینہ میں سقے گھروں میں پانی پہنچایا کرتے تھے) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سقے پانی کی مشکیں اٹھائے ہوئے، باوجود یہ کہ انہیں زحمت کے ساتھ اٹھائے ہوتے تھے، جب وہاں پہنچتے تو یہ بھاری بوجھ اُٹھائے ہونے کے باوجود قرآن کی یہ دلنشیں تلاوت سننے کے لئے کھڑے ہو جاتےوہ عابد شخص اس قرآنی سنت کے ساتھ مطابق آدھی رات کے وقت قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا اور اپنے کمرے میں خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔
۴۔ کیا صاحبانِ ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکرِ خدا اور اُس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہوجائیں۔ (سورۂ حدید ۵۷آیت ۱۶)