ابن سینا کا کلام
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
عظیم اسلامی فلسفی، بو علی سینا نے، اسلام کی روشنی میں کچھ مسائل کا ذکر کیا ہے، اس سے پہلے کسی یونانی اور غیر یونانی فلسفی نے ان مسائل کاذکر نہیں کیا تھاانہی میں سے ایک مسئلہ وہ یہ چھیڑتے ہیں کہ انسان مدنی بالطبع ہےاسکے بعد عبادت کے مسئلے میں داخل ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اجتماعی نکتۂ نظر سے (وہ اجتماعی نکتۂ نظر سے بھی گفتگو کرتے ہیں اور غیر اجتماعی نکتۂ نظر سے بھی) اور انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کو پہچانتا ہو اور اسے پہچاننے کے بعد متوجہ ہو کہ اس خدا کی جانب سے انسانی زندگی کے لئے ایک عادلانہ قانون موجود ہے اور پھر واجب اور لازم ہے کہ عبادت کا وجود ہوعبادت کو بھی مکرر ہونا چاہئے، تاکہ ہمیشہ انسان کو یاد رہے کہ وہ بندہ ہے اور اُس کا ایک خدا ہےجب اسکی روح میں یہ یاد دہانی اور تلقین موجود ہو گی، تویہ اسکے گناہ اور معصیت کا شکار ہونے میں مانع ہو گیوہ ظلم کرنا چاہے گا، تو نماز آ کر اسکی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جائے گی، اور کہے گی کہ تو نے تو عبودیت کا اقرار کیا ہے، تو نے تو کہا ہے کہ میں آزاد نہیں ہوں، (پس کیوں ظلم کرنا چاہتا ہے؟ )(۱) یہاں کونسا قانون پایا جاتا ہے؟ کہتے ہیں: وفُرضت علیہم العبادۃ المفروضۃ بالتکریر، عبادت اس لئے واجب کی گئی ہے، تاکہ انسان کی روح میں ایک ایسی قوت پیدا ہو، کہ اس قوت کے اثرسے جو ایمان سے تجدیدِ عہد ہے مسلسل اس کے ایمان کی تجدید ہوتی رہے اور یہ ایمان گناہ کرنے میں مانع ہوجائے۔
یہ اس تسلط کا اوّلین درجہ ہے جو اپنے اوپر انسان عبادت کے ذریعے حاصل کرتا ہےاس مرحلے کو ہم نے گزشتہ نشست میں ایک حد تک آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا، کہ عبادت کی ایک قطعی خاصیت انسان کا خود اپنے نفس پر تسلط ہےیعنی انسان کا اپنی شہوات پر تسلط، انسان کا اپنی جاہ طلبی پر تسلط، انسان کا اپنی جبلّتوں پر تسلط، انسان کا اپنے اعضا وجوارح پر تسلط، انسان کا اپنی آنکھ پر تسلط، انسان کا اپنی زبان پر تسلط، انسان کا اپنے کان پر تسلط، انسان کا اپنے ہاتھ پر تسلط، انسان کا اپنے پیرپر تسلط، الغرض انسان کا اپنے پورے وجود پر تسلطاگر (یہ خاصیت) نہ ہو (تو ایسی عبادت) عبادت نہیںقرآنِ کریم کی نص کے مطابق: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِاَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُکے ذریعے (ہمیں پتا چل چکا ہے کہ) خداوند گاری، قدرت و تسلط کا اوّلین مرحلہ، اورلا متناہی قدرت کے مرکز (خدا) سے قربت کی اوّلین علامت، اپنے قوہ، جبلّتوں، شہوات، نفسانی خواہشات پر تسلط اور اپنے اعضا پر غلبہ ہے، ہم خود اپنے آپ پر مسلط ہوں۔
یہ مرحلہ، عام افراد کا مرحلہ ہےعام افراد اگر عبادت کریں بھی تو ضروری نہیں کہ انہوں نے انتہائی مشق کی ہو، وہ اس مرحلے پر پہنچتے ہیںیہ جو ہم عرض کر رہے ہیں کہ ”عام افراد“ تو اس سے یہ تصور نہ کیجئے گا کہ پس ہماری اور آپ کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، نہیں ہماری بہت اہم ذمے داری ہے۔
۱۔ یہاں کیسٹ میں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔