عبادت و نماز

معنویات کو خفیف نہ سمجھئے

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ہمیں صد در صد اعتراف ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے، اسکے احکام و فرامین اسکے اجتماعی ہونے کے عکاس ہیںلیکن یہ حقیقت اس بات کا سبب نہیں ہو سکتی کہ ہم عبادت، دعا اور خدا سے ارتباط کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں، انہیں معمولی سمجھنے لگیں، نماز کو بے اہمیت سمجھیں۔

نماز کوخفیف اور معمولی سمجھنا بھی ایک گناہ ہےنماز نہ پڑھنا ایک بڑا گناہ ہے لیکن نماز پڑھنا مگر اسے خفیف سمجھنا، اسے بے اہمیت قراردینا بھی ایک گناہ ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد (آپ کے ایک صحابی) ابو بصیر تعزیت کی غرض سے ام حمیدہ کے یہاں حاضر ہوئےام حمیدہ رونے لگیںابو بصیر، جو نا بینا تھے وہ بھی رونے لگےاسکے بعد ام حمیدہ نے ابو بصیر سے کہا: اے ابو بصیر! تم نہ تھے، تم نے اپنے امام کے آخر لمحات کو نہ دیکھا، اس وقت ایک عجیب قصہ ہواامام قریب قریب عالم غشی میں تھے، اسی اثنا میں آپ نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا: میرے تمام نزدیکی رشتے داروں کو بلاؤ، سب کو میرے سرہانے جمع کرو۔ ہم نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب لوگوں کو اکھٹا کیاجب سب لوگ جمع ہو گئے تو امام نے اسی عالم غشی میں، جبکہ آپ اپنی حیاتِ مبارک کے آخری لمحات طے کر رہے تھے، اپنی آنکھوں کو کھولا، ارد گرد جمع ہونے والوں کی طرف رخ کیا اور صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا: اِنَّ شَفا عَتَنا لاٰ تَنٰالُ مُسْتَخِفُّا بِالصَّلوٰۃِ (ہماری شفاعت کسی بھی صورت میں ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی سمجھتے ہیںوسائل الشیعہج۳ص۱۷۔ ح ۱۱) امام نے صرف اتنا کہا اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

امام نے یہ نہیں فرمایا کہ ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز نہیں پڑھتےان لوگوں کا معاملہ تو بالکل واضح ((clearہےبلکہ فرمایا کہ ایسے لوگ جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ ہماری شفاعت نہ پا سکیں گے۔

کون لوگ ہیں جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں؟
نمازکو معمولی چیز اور بے اہمیت سمجھنے والے لوگ وہ ہیں جنہیں وقت اور فرصت میسر ہوتی ہے، وہ اطمینان کے ساتھ ایک اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کرتےظہر عصر کی نماز اس وقت پڑھتے ہیں جب سورج غروب ہونے کو ہوتا ہےجب دیکھتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کو ہے تو بھاگم بھاگ وضو کرتے ہیں، جھٹ پٹ نماز پڑھتے ہیں اور تیزی کے ساتھ سجدہ گاہ ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ایسی نماز پڑھتے ہیں جس کا نہ مقدمہ ہوتا ہے نہ موخرہ، نہ جس میں اطمیان ہوتا ہے نہ حضورِ قلبایسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، جیسے نماز بھی دوسرے معمولی کاموں کی طرح کا ایک کام ہے۔

یہ ہے نماز کو خفیف سمجھناایسی نماز، اس نمازسے بہت زیادہ مختلف ہے جس کی طرف انسان ذوق وشوق کے ساتھ جاتا ہےجوں ہی ظہر کا اول وقت آتا ہے وہ مکمل اطمینان کے ساتھ جا کر وضو کرتا ہے، ایسا وضو جس میں تمام آداب کو ملحوظ رکھا گیا ہوتا ہےاسکے بعد جا نماز پر آ کر اذان و اقامت کہتا ہے اورسکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز پڑھتا ہےسلام کہہ کر فوراً ہی کھڑا نہیں ہوجاتابلکہ اطمینانِ قلب کے ساتھ کچھ دیر تعقیباتِ نماز پڑھتا ہے، ذکرِ خدا کرتا ہےیہ اس بات کی علامت ہے کہ (اس گھر میں) اس کی نظر میں نماز کو احترام حاصل ہے۔

ایسے نمازی جو نماز کو خفیف قرار دیتے ہیں، یعنی حقیر اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ فجرکی نماز عین طلوعِ آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں اور ظہر و عصر کی نماز غروبِ آفتاب کے وقت ادا کرتے ہیں، مغرب اور عشاء کی نماز انہیں رات کے چار گھنٹے گزرجانے کے بعد یاد آتی ہےیہ لوگ برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیںتجربہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے بچے سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں۔

آپ اگر حقیقی نمازگزار بننا چاہتے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی نماز کے پابند بنیں تو آپ کو نماز کا احترام کرنا چاہئےہم آپ سے صرف یہ تقاضا نہیں کر رہے کہ نماز پڑھئے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ چاہتے ہیں کہ نماز کا احترام کیجئےاس مقصد کیلئے پہلے توخود اپنے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ بنایئے (یہ مستحب بھی ہے)یعنی گھر میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جو آپ کی عبادت گاہ ہو، مصلا نما ایک چیز اپنے لئے بنایئے۔

جیسے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لئے ایک جگہ معین کی ہوئی تھی اگر ممکن ہو تو آپ بھی ایک کمرے کو نماز پڑھنے کی جگہ کے طور پرمقرر کرلیجئےاگر گھر میں کمرے زیادہ نہ ہوں تو خود اپنے کمرے میں نمازکے لئے ایک خاص جگہ معین کر لیجئےایک پاک صاف جا نماز وہاں رکھئے، نماز کے لئے کھڑے ہونے سے قبل اسے بچھایئےآپ کے پاس ایک مسواک بھی ہو، ذکر پڑھنے کے لئے تسبیح بھی ہو۔

جب وضو کر رہے ہوں تو اسے بھی جلدی جلدی اور عجلت میں نہ کیجئےہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی کے شیعہ ہیںبرادرِ عزیز !نام رکھ لینے سے علی کاشیعہ نہیں ہوا جاسکتا، جس شخص نے حضرت علی کے وضو کو بیان کیا ہے وہ کہتا ہے: علی ابن ابی طالب جب وضو کے لئے تشریف لاتے اور ہاتھوں کو پانی میں ڈالتے (وضو کا پہلا مستحب عمل یہ ہے کہ انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے) تو فرماتے :

بِسْمِ ﷲِ وَ بِاﷲِ اَللَّھُمَّ اجعَّلَنْٖی مِنَ التَّوّٰابِینَ وَاجْعَلْنی مِنَ الْمُتَطَھِّریِنَ

اﷲ کے نام اور اﷲ ہی کے سہارے سےخدایا ! مجھے توبہ کرنے والوں میں قرار دے، مجھے پاکیزہ رہنے والوں میں قرار دے

دو دن پہلے ہم نے توبہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ توبہ کے معنی خود کو پاکیزہ کرنا ہیںپانی رمزطہارت ہےیہی وجہ ہے کہ جب علی پانی کا رخ کرتے ہیں تو، توبہ کو یاد کر کے، اپنے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے، اپنی روح کی طہارت کی جانب متوجہ ہو کے، ہم سے کہتے ہیں کہ جب اس پانی، جب اس طہور، جب اس مادے کا سامنا کرو جسے خدا نے پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا ہے، جب اس مادّے کی طرف جاؤ اور تمہاری نگاہ اس پر پڑے اور اپنے ہاتھوں کو اس سے دھوؤ اور پاک کرو تو یہ بات ذہن میں رکھو کہ ایک اور پاکیزگی بھی ہے، ایک اور پانی بھی ہے، وہ پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے اور وہ پانی، توبہ کا پانی ہے۔

کہتے ہیں کہ ہاتھوں کو دھونے کے بعد علی، اپنے چہرے پر پانی ڈالتے اور فرماتے: اَللَّھُمَّ بَیَّضْ وَجْھِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیہ الْوُجُوہُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْھی یَوْمَ تَبْیَض فیہِ الْوُجُوہُ۔

آپ اپنے چہرے کو دھوتے ہیں اور حسب ظاہر صاف کرتے ہیںخوب! جب اپنے چہرے کوپانی سے دھوتے ہیں تووہ سفید براق ہو جاتا ہےلیکن علی اسی پر اکتفا نہیں کرتے، اسلام بھی اسی پر اکتفا کا قائل نہیںیہ عمل درست ہے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہئے لیکن ایک اور پاکیزگی کے ساتھ اور ایک اور نورانیت کے ہمراہ، چہرے پر ایک اور سفیدی ہونی چاہئےفرماتے ہیں:

اَللَّھُمَّ بَیَّضْ وَجْھِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیہ الْوُجُوہُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْھی یَوْمَ تَبْیَض فیہِ الْوُجُوہُ۔

خدایا میرے چہرے کو اس دن روشن کر دینا جس دن چہرے سیاہ ہو جائیں (روزِقیامت) اور اس دن چہرے کو سیاہ نہ کرنا جس دن چہرے روشن ہو جائیں۔

اس کے بعد دائیں ہاتھ پر پانی ڈال کے فرماتے ہیں :

اَللَّھُمَّ اَعْطِنی کِتٰابی بِیَمِینی واَلْخُلَد فیِ الْجَنَانِ بِیَسَاریِ وَ حٰاسِبْنی حِسٰاباً یسراً

خدایا! قیامت میں میرانامۂ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دینا (کیونکہ کامیاب اور نجات یافتہ لوگوں کا نامۂ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا) اور جنت مجھے آسانی سے عنایت فرما دینا، اور حساب میں بھی آسانی فرمانا۔

اس طرح آپ آخرت کے حساب کو یاد کرتے ہیں اس کے بعد بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَللَّھُمَ لاٰ تَعْطِنی کِتٰابی بِشِمٰالیِ وَلاٰ مِنْ وَراءِ ظَہری وَلاَ تَجْعَلْھَا مَغَلولَۃَ اِلیٰ عُنْقی وَاَعُوذُبِکَ مِنْ مُقطَّعٰات النِیران

خدایا! میرے نامۂ اعمال کو بائیں ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے نہ دینا(کچھ لوگوں کا نامۂ اعمال انہیں پیچھے سے پکڑایا جائے گا اور یہ بھی ایک رمز ہے) اور نہ میرے ہاتھوں کو میری گردن سے باندھ دینامیں جہنم کی آگ کے قطعات سے تیری پناہ چاہتا ہوں

کہتے ہیں: اسکے بعد آپ نے سر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اَللَّھُمَّ غَشَنی بِرَحْمَتِکَ وَ بَرَکاتِک

خدایا ! مجھے اپنی رحمت اور برکتوں میں ڈبو دے

پھر آپ نے پیر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اللَّھُمَّ ثَبَّتْ قَدَمی عَلیٰ الصِّراطِ یَوْمَ یَزِلُّ فٖیہِ الْاَقْدَامُ

خدایا ! میرے ان قدموں کوصراط پر اس دن ثابت رکھنا جس دن سارے قدم پھسل رہے ہوں گے

وَاجْعَلْ سَعْیی فیما یَرضِکَ عَنّی

میرے عمل اور کد و کاوش کو ان کاموں میں قرار دینا جو تجھے راضی کر سکیں

ایسا وضو جو اس قدر عشق و اشتیاق اورتوجہ و اہتمام کے ساتھ کیا جائے گا، وہ (بارگاہِ الٰہی میں) ایک علیحدہ ہی انداز سے قبول کیا جائے گا، اور وہ وضو جو ہم اورآپ کرتے ہیں اسکی قبولیت کسی اور طرح کی ہو گی۔

پس نماز کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، سبک نہیں شمار کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ انسان دورانِ نماز صرف اسکے واجبات کی ادائیگی پر اکتفا کی کوشش کرے(اور جب کوئی اسے اس جانب متوجہ کرے تو کہے کہ) آؤ، دیکھیں، مرجع تقلید کا فتویٰ کیا ہے، کیا وہ کہتے ہیں کہ (دوسری اورتیسری رکعت میں) تین مرتبہ سبحان اﷲ، والحمد اﷲ، ولا الہ الا اﷲ، واﷲ اکبر کہنا چاہئے، یا اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی قرار دیتے ہیں؟

جی ہاں (درست ہے کہ)، مجتہد فتویٰ دیتے ہیں کہ اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی ہےالبتہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ احتیاطِ مستحب یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ کہا جائےلہٰذاہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ جب مجتہد نے ایک مرتبہ کہنا کافی قرار دیا ہے تو ہم بھی صرف ایک ہی مرتبہ کہیں گےیہ دراصل نماز سے جی چرانا ہےہمیں ایسا ہونا چاہئے کہ اگر مجتہد ایک مرتبہ کہنا واجب قرار دے اور مزید دو مرتبہ کہنا مستحب سمجھے، تو ہم بہترسمجھتے ہوئے اس مستحب کو بھی انجام دیں ہے۔

روزے کو بھی معمولی اور خفیف نہیں بنادینا چاہئےبعض لوگوں کا روزہ رکھنے کا ایک خاص انداز ہے (یہ میں ازراہِ مذاق کہہ رہا ہوں) کہ نعوذ باﷲ اگر میں خدا کی جگہ ہوں تو کسی صورت ان کایہ روزہ قبول نہ کروں۔

میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ماہِ رمضان میں رات بھر نہیں سوتےالبتہ ان کی یہ شب بیداری عبادت کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے جاگتے ہیں کہ ان کی نیند پوری نہ ہو سکےصبح تک چائے پینے اور سگریٹ نوشی میں وقت گزارتے ہیںصبح طلوع ہونے کے بعد اول وقت نمازِفجر پڑھ کے سو جاتے ہیں اور (سارے دن سو کر) اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ظہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کاانتہائی قلیل وقت باقی رہ جاتا ہےاور پھر برق رفتاری سے یہ نمازیں پڑھنے کے بعد افطار کے سامنے آ بیٹھتے ہیں۔

آخر یہ کس قسم کا روزہ ہے؟
انسان رات بھر صرف اس لئے نہ سوئے کہ دن میں روزہ رکھ کر سوتا رہے، تاکہ روزے کی سختی اورمشقت محسوس نہ کرے۔

کیا یہ روزے کو معمولی سمجھنا نہیں؟
میرے خیال میں تو یہ روزے کو گالی دینے کے مترادف ہے، یعنی یہ تو زبانِ حال سے یہ کہنا ہے کہ اے روزے! میں تجھ سے اس قدر نفرت کرتا ہوں کہ تیرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا!!

ہم حج کرتے ہیں لیکن حقارت کے ساتھ، روزہ رکھتے ہیں لیکن معمولی بنا کے، نماز پڑھتے ہیں لیکن سبک کر کے، اذان کہتے ہیں لیکن بے حیثیت انداز میں۔

دیکھئے، ہم اذان کو کیسے بے حیثیت کرتے ہیں؟
موذن کا ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہونا مستحب ہےاسی طرح جیسے قرآنِ مجید کی قرأت کے لئے تجوید یعنی حروفِ قرآن کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی، خوبصورت آواز میں قرآن پڑھنا سنت ہے، جو روح پر بھی بہت زیادہ اثر اندا ز ہوتا ہےاسی طرح اذان میں بھی مستحب یہ ہے کہ موذن ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہو، اس انداز سے اذان کہے کہ سننے والوں پروجد طاری کر دے، ان میں خدا کی یاد تازہ کر دے۔

بہت سے افراد خوش آواز ہیں اور اچھے انداز میں اذان کہہ سکتے ہیںلیکن اگر ان سے کہا جائے کہ جناب آگے بڑھئے، آج آپ اذان کہہ دیجئے تو وہ تیار نہیں ہوتےکیوں؟ اس لئے کہ وہ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ کیا میں اس قدر حقیرشخص ہوں کہ موذن بنوں؟

جناب! موذن ہونے پر تو آپ کو فخر کرناچاہئے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام موذن تھےجس دور میں آپ خلیفہ تھے، اس دور میں بھی اذان کہا کرتے تھےموذن ہونے کو اپنی توہین سمجھنا، یا موذن ہونے کو کسی خاص طبقے سے وابستہ قرار دینا اور یہ کہنا کہ میں جو اشراف و عمائدین میں سے ہوں، رجال و شخصیات میں میرا شمار ہوتا ہے، میں اذان دوں؟ ۔۔۔ یہ سب باتیں اذان کی تحقیر کرنا اور اسے حقیر سمجھناہیں۔

پس ہمیں کسی بھی صورت میں عبادات کی تحقیر نہیں کرنی چاہئےہمیں ایک کامل اور جامع مسلمان ہونا چاہئےاسلام کی حیثیت اور قدر و قیمت اسکی جامعیت میں ہےنہ تو ہمارا کردار یہ ہو کہ صرف عبادات سے چپکے رہیں، اسکے سوا تمام چیزوں کو ترک کر دیں اور نہ ہی ہمیں دورِ حاضر میں پیدا ہونے والے ان لوگوں کی مانند ہونا چاہئے جنہیں اسلام کی صرف اجتماعی تعلیمات ہی نظر آتی ہیں اور عبادات کی تحقیر کرنے لگیں۔

انشاء اﷲ آئندہ شب جب ہم اسی بحث کے تسلسل میں عرائض پیش کریں گے تو دوسرے تمام اسلامی فرائض کی نظر سے عبادت کی اہمیت پر گفتگو کریں گےاور واضح کریں گے کہ خود عبادت خدا کے تقرب کا ایک رکن اورمرکب (سواری) ہونے کے علاوہ، نیز علاوہ اس کے کہ ”وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ لِذِکْرِیْ“(۱) نماز کا مقصد یادِ خدا اور تقربِ الٰہی ہے اور خدا کا تقرب اور اس سے نزدیکی خود اتنا بڑا مقصد ہے کہ اسے اپنے سے بڑھ کرکسی اور مقصد کی ضرورت نہیں (خود یہی اعلی ترین مقصد ہے)ان سب باتوں سے قطع نظر اگر ہم عبادت کی تحقیر کریں تو دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی سے بھی رہ جائیں گےعبادت تمام دوسرے اسلامی احکام و فرامین کی قوۂمجریہ اوران کے اجرا کی ضامن ہے۔
یہیں پر ہم اپنے عرائض ختم کرتے ہیں۔

خدایا! تجھے تیری درگاہ کے عبادت گزار بندوں کے حق کا واسطہ، ان صاحبانِ قرآن کے صدقے، اپنے پاکیزہ اور مخلص مناجات کرنے والوں کے صدقے، ہم سب کو حقیقی عبادت گزاروں میں قرار دے۔
بارِالٰہا! ہمیں دین اسلام کی جامعیت سے آشنا فرما اور ہمیں ایک جامع مسلمان بنادے۔
پروردگار! ہم سب کو خلوصِ نیت کی توفیق کرامت فرما۔
الٰہی! ان محترم شبوں میں ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے مرحومین کی مغرفت فرما۔
رَحِمَ اﷲُ قَرَأَ الْفاتِحَۃَ مَعَ الصَّلَوَات۔

۱۔ اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ ( سورۂ طہ ۲۰ آیت ۱۴)