امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
وہ جملہ جس سے ہم استدلال کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں ہےاور آپ نے اس جملے کو کم و بیش عرفانی کتب میں دیکھا ہو گاامام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل سے فرمایا: یا فُضَیلُ اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ (انتہائی عجیب جملہ ہے، اور ایک لحاظ سے ہلا دینے والا جملہ بھی ہے) فضیل! کیا تم جانتے ہو کہ عبودیت کیا ہے؟ کیا جانتے ہو عبودیت کیسا گوہر ہے؟ عبودیت ایک ایسا گوہر ہے کہ اس کا ظاہر عبودیت ہے اور اس کا کنہ، نہایت اور باطن، اسکی آخری منزل اور ہدف ربوبیت ہے۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا امام جعفر صادق علیہ السلام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عبودیت کی ابتدا بندگی ہے اور اسکی انتہا خدائی؟ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ، بندگی کے راستے خدائی تک پہنچ جاتا ہے؟ نہیں، ائمہ علیہم السلام کی تعبیروں میں کسی صورت اس قسم کی کوئی تعبیر نہیں آ سکتیاہلِ عرفان دوسرے لوگوں پر طنز کرنے کے لئے، جو معانی نظر میں رکھتے ہیں، کچھ تعبیریں استعمال کرتے ہیں، تاکہ دوسرے ہل کے رہ جائیں، انہیں جھٹکا لگے، یہ ایک طرح سے لوگوں کوچھیڑناہوتا ہےمثلاً مولانا روم یا شبستری کے یہاں اس قسم کی تعبیریں ملتی ہیں، شبستری کہتے ہیں:
مسلمان گربدانستی کہ بت چیست
بدانستی کی دین در بت پرستی است
یہ انتہائی عجیب بات ہےلیکن اس سے مراد وہ نہیں ہے جو اسکے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ شعرایک صحیح مراد کا حامل ہےایک مقام پر اُس نے کہا ہے کہ بقول خود اُس کے اُس نے زاہد نما افراد کوچھیڑا ہے ایک معروف شعر ہے، جسے مولانا روم سے منسوب کیا جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم یہ مثنوی میں ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں:
از عبادت می توان اﷲ شد
فی توان موسیٰ کلیم اﷲ شد
انتہائی عجیب (کلام) ہےکہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعے موسیٰ کلیم اﷲ نہیں بنا جا سکتا لیکن عبادت کے ذریعے اﷲ بننا ممکن ہے!مراد کیا ہے؟ یہ حدیث جس کے ہم آپ کے لئے معنی کر رہے ہیں، اسکی روشنی میں اس شعر کے معنی بھی واضح ہو جائیں گے۔
دراصل ربوبیت کے معنی ہیں تسلط، خداوندگاری، البتہ خدائی نہیںخدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے خداوند گاری، یعنی مالک ہونا، صاحبِ اختیار ہونااصحاب الفیل کے قصے میں جب ابرھہ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے آیا، تووہ وہاں بیابان میں موجودحضرت عبدالمطلب کے اونٹوں کوپکڑکر اپنے ساتھ لے گیاعبدالمطلب ابرھہ کے پاس گئےحضرت عبدالمطلب کے قیافے، شخصیت اور عظمت نے ابرھہ کو انتہائی متاثر کیا، یہاں تک کہ وہ سوچنے لگا کہ اگر اس مردِ بزرگ نے سفارش کی اور مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کعبہ کے خلاف اقدام نہ کروں، اور اسے نہ ڈھاؤں، تو میں اسے مسمار نہیں کروں گا۔ لیکن اسکی توقع کے برخلاف، جب حضرت عبدالمطلب نے بات کی تو فقط اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کی، کعبہ کے بارے میں ایک لفظ تک نہ کہاابرھہ کو تعجب ہوا، وہ بولا: میں تو آپ کو انتہائی بزرگ انسان سمجھا تھا، میرا خیال تھا کہ آپ کعبہ کی سفارش کرنے کے لئے آئے ہیںلیکن میں نے دیکھا کہ آپ تو اپنے اونٹوں کی سفارش کر رہے ہیںحضرت عبدالمطلب نے بھی اسے ایک خوبصورت جواب دیافرمایا: اَنارَبُّ الْاِبِلْ وَ لِلْبَیْتِ رَبُّ (میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے)
”رب“ یعنی مالکہم جو خدا کو رب کہتے ہیں، تو اس عنوان سے کہ وہ تمام عالم اور تمام عالموں کامالکِ حقیقی ہےہم کہتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَشکر و سپاس اس خدا کے لئے جو مالک ہے، تمام عالموں کا مالک ہےپس ”رب“ کے حقیقی معنی ہیں مالک اور خداوند گار اور ربوبیت یعنی خداوند گاری، خدائی نہیں۔ خدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے۔ جو کوئی جس چیز کا مالک ہے، وہ اس چیز کا رب اور خداوند گار بھی ہے۔
اب اس حدیث کے کیا معنی ہیں، جس میں امام نے فرمایاہے کہ: عبودیت ایک ایسا جوہر ہے جس کی انتہا اور کنہ ربوبیت ہے۔
ایک نہایت خوبصورت نکتہ ہےعبودیت اور خدا کی بندگی کی خاصیت یہ ہے کہ جس قدر انسان خداکی بندگی کے راستے کو زیادہ طے کرتا ہے، اسی قدر اُس کے تسلط، قدرت اور خداوندگاری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کس طرح؟ ہم اس نشست میں فقط ایک انتہائی چھوٹا سا موضوع آپ کی خدمت میں عرض کر رہے ہیں، اس کے بعض دوسرے مسائل کی ایک فہرست عرض کر رہے ہیں لیکن ایک موضوع کو کھول رہے ہیں۔