عبادت و نماز

قربِ الٰہی کے معنی

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

لیکن وہ علما جو گہری نظر رکھتے ہیں اور زیادہ معرفت کے حامل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہیں، بات اس طرح نہیں ہےخدا سے نزدیک ہونا، حقیقی طور پر نزدیک ہونا ہے، مجازی اور تعبیری طور پر نزدیک ہونا نہیںانسان واقعاً خدا سے نزدیک ترہو جاتا ہےلیکن یہ تصور نہ کیجئے گا کہ اس نزدیک ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی فاصلے کو کم کرتے ہیںفاصلے کی بات نہیں ہے۔

پس پھر کیا بات ہے؟ کہتے ہیں کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کمالِ مطلق ہے، وجودِ بے حد ہے، ہستی کا لامتناہی مرکز ہے، وہ علمِ محض ہے، عین علم ہے}مشہور فلسفی عالم{میر داماد کے الفاظ میں: عِلْمٌ کُلُّہُ وَکُلُّہُ الْعِلْمُ، قُدْرَۃُ کُلُّہُ وَکُلُّہُ الْقُدْرَۃُ، حیاۃٌ کُلُّہُ وَکُلُّہُ الْحَیاۃُ، اِرادَۃٌ کُلُّہُ وَکُلُّہُ الْاِرادَۃُ، وہ کمالِ مطلق ہےموجودات جو ں جوں اپنے وجود کے واقعی کمالات حاصل کرتے جاتے ہیں اسی قدر ہستی کے مرکز، محور اور حقیقت سے واقعاً نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیںیہ نزدیک ہوناواقعی نزدیک ہونا ہے، جسمانی نزدیکی نہیں لیکن واقعی اور حقیقی نزدیکی ہے، مجاز اور تعبیر نہیں ہے}یہ تقرب{ایک انسان کے کسی معاشرتی مقام کے حامل شخص کے مقرب ہو جانے یا ایک بچے کے اپنے باپ کے مقرب ہونے کی قسم سے نہیں ہے، جو اس معنی میں ہے کہ اسکے لطف کے آثار زیادہ ہیںنہیں، واقعاً پیغمبر ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، حقیقتاً امیر المومنین ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، اور یہ قرب واقعی قرب ہےنتیجے میں جہاں ہم عبادت کرتے ہیں، عبودیت انجام دیتے ہیں، اگر واقعاً ہماری عبودیت عبودیت ہو، تو ہم قدم بقدم خدا کی طرف (حرکت کرتے ہیں) یہاں جو ہم ”قدم“ کہہ رہے ہیں، تو یہ بھی ایک تعبیر ہے، کیونکہ اس مقام پر یہ کلمات درست نہیں ہیں، ہم ”سیر“ کہتے ہیںکیونکہ علی ابن الحسین علیہما السلام جیسے اشخاص نے یہی تعبیر کی ہے، لہٰذا ہم بھی تعبیر کر رہے ہیں امام علی ا بن الحسین فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَجِدُ سُبُلَ الْمَطالِبِ اِلَیْکَ مُشْرَعَۃٌ وَ مَناھِلَ الرَّجاءِ لَدَیْکَ مُتْرَعَۃٌ وَاَعْلَمُ اَنَّکَ لِلرّاجین بِمَوْضِعِ اِجابَۃٍ وَلِلْمَلْھوفینَ بِمَرْصَدِاِغاثَۃٍیہاں تک کہ فرماتے ہیں: وَاَنَّ الرّاحِلَ اِلَیْکَ قَریبُ الْمُسافَۃِ۔ بارِالٰہا! جو مسافر تیری طرف حرکت اور کوچ کرتا ہے، اُس کا فاصلہ نزدیک ہے، اسے بہت دور کا راستہ طے نہیں کرناہوتا، اسکی مسافت نزدیک ہے۔

دنیا ئے تشیع میں عظیم خزانے موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ دعائیں ہیں، خدا کی قسم یہ معرفت کے خزانے ہیں، اگر ہم اپنے پاس موجود ان دعاؤں کے سوا کوئی اور دلیل نہ بھی رکھتے ہوں، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی صحیفۂ علویہ، امام زین العابدین علیہ السلام کی صحیفۂ سجادیہ، یا صحیفۂ سجادیہ کے علاوہ اور دعائیں، اگر ہمارے پاس علی ابن ابیطالب کی دعائے کمیل اور علی ابن الحسین کی دعائے ابوحمزہ ثمالی کے سوا کوئی اوردعا نہ ہو، اور اسلام کے پاس چودہ صدیوں میں کوئی اور چیز نہ ہو، تو اسلام کے ان دو شاگردوں کے توسط سے، اس بدویت اور جاہلیت سے پر دنیا میں ان دو آثار کا ظاہر ہونا ہی کافی ہےیہ اس قدر اوج و رفعت کے حامل ہیں کہ اصلاً معجزہ اسکے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔

بہر حال کہتے ہیں کہ، تقرب، تقربِ واقعی ہے، اورحقیقت ہے اور انسان سچ مچ خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے۔
خدا سے اس طرح نزدیک ہونے کے کیا معنی ہیں؟

یعنی خدا جو کمالِ مطلق ہے، ہم مسلسل زیادہ سے زیادہ کمال حاصل کریںخدا علمِ علیٰ الاطلاق ہے، ہمارے علم، ایمان اور بصیرت میں اضافہ ہوتا چلا جائےخدا قدرت علیٰ الاطلاق ہے، ہماری قدرت میں اضافہ ہو تا چلا جائےخدا حیات علیٰ الاطلاق ہے، ہماری حیات اور ارادے میں اضافہ ہوتا چلا جائےپس مسلۂ عبودیت (اور یہ کہ) بندگی کرو (ایک شاعر کے بقول: بندگی کن تا کہ سلطانت کنند، یا امام جعفر صادق علیہ السلام کے الفاظ میں : اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْھَرَۃٌ کُنْہُھَا الرُّبوبِیَّۃُعبودیت کے راستے پر جس قدر آگے بڑھو گے، اتنا ہی تمہاری ربوبیت او خداوند گاری (نعوذ باللہ خدائی نہیں) کے مالک ہونے اورتمہارے تسلط اور قدرت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گاعبادت قدرت اور تسلط کے حصول کا راستہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ تسلط کس قسم کا ہے؟
اس تسلط کو ہم پانچ مرحلوں (یا ایک اعتبا سے چھے مرحلوں) میں آپ کی خدمت میں واضح کریں گے۔ اگرچہ اس کے وہ آخری مراحل اس قسم کی نشستوں کی حدود سے زیادہ ہیںلیکن کیونکہ ہم نے اوّلین مراحل کو تو عرض کرنا ہی ہے، لہٰذا آخری مرحلے کی جانب اشارہ کرنے پر بھی مجبورہیںگزشتہ نشست میں ہم نے اسکے کچھ حصوں کو عرض کیا تھا۔