بیرونی دنیا پر تصرف کی قدرت
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
کیا اس سے بھی بڑھ کر ہے؟ جی ہاں، اگر آپ وحشت کا شکار نہ ہوں، تو اس سے بلند تر بھی ہےوہ بالاتر مرحلہ، وہ قدرت ہے کہ انسان خدا کی بندگی اور عبودیت کے اثر سے اور ذاتِ اقدسِ الٰہی سے قرب کے اثر سے اور ہستی کے لامتناہی مرکز سے نزدیک ہونے کے زیر اثر اپنے سے باہر کی دنیا میں بھی تصرف کر سکتا ہےوہ ایک عصا کو اژدھے میں بدل سکتا ہے، وہ چاند کے گولے کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے، وہ تختِ بلقیس کو پلک جھپکتے میں یمن سے فلسطین لا سکتا ہےجی ہاں، کر سکتا ہےاَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌ کُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ لیکن یہ مراحل ہم سے بہت دور ہیںہم اپنے ہی مرحلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
ہم جو آج رات یہاں جمع ہوئے ہیں، قطع نظر اسکے کہ یہ رات احیا کی راتوں میں سے ایک رات ہے، جسے ہمیں جاگ کر بسر کرنا چاہئےلیکن اس رات کو ایک اعتبار سے ایک برکت و سعادت حاصل ہے، اور ایک اعتبار سے ایک نحوست اور بدشگونی بھینحوست اس اعتبار سے ہے کہ ایسی ہی ایک رات کو ہم علی ابن ابیطالب جیسی ہستی سے محروم ہوئے ہیں، اور برکت و سعادت اس اعتبار سے ہے کہ علی ابن ابیطالب کا جانا، ایک عام جانا نہیں تھاایک ایسا جانا ہے جو واقعاً ”مبارکباد“ کا حامل ہےجیسے کہ ”صعصعۃ بن صوحان عبدی“ امیر المومنین کے دفن کی شب، جب امیر المومنین کی قبر کے سرہانے آیا، کھڑا ہوا (وہ اور گنتی کے چند اور امیر المومنین کے خاص ساتھی تھے جنہیں امام حسن مجتبیٰ سلام اﷲ علیہ نے اس موقع پربلایا تھا) اور کہا کہ کیسی اچھی زندگی بسر کی اور کیسی عالی موت پائی!
آج کی رات احیا کی شب بھی ہے اور وہ رات بھی ہے جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ حضرت علی کو دوسروں کی نسبت کیا خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ آپ علی کے اس قدر شیفتہ ہیں؟ علی کی آپ سے کیا رشتہ داری ہے؟ کوئی نہیںعلی کا آپ سے کیا مادّی تعلق ہے؟ کسی قسم کا مادّی تعلق نہیں ہےعلی کا امتیاز اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟ علی کی خصوصیت عبودیت اور بندگی ہےعلی خدا کے ایک کامل صالح بندے ہیں ایک ایسے بندے ہیں جو بندگی کے سوا کسی اور بات کے بارے میں نہیں سوچتےایک ایسے بندے ہیں کہ ربوبیت اور تسلط کے اُن تمام مراحل کو، جن کے متعلق ہم نے عرض کیا، علی نے اعلیٰ حد تک طے کیا ہےایک ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ خدا کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر سمجھتے ہیں۔
مالک اشتر نخعی کو کیا عالی تحریر کیا ہے! مالک اشتر کو حضرت علی علیہ السلام کا فرمان، جو نہج البلاغہ میں موجود ہے، اسلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہےانسان حیرت زد ہ ہو جاتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے، ایسی گنوار اور وحشی قوم کے درمیان ایک ایسا عظیم الشان اجتماعی دستورِ عمل (صاد ہوتا ہے) کہ انسان کو خیال گزرتا ہے کہ اسے انیسویں اور بیسویں صدی میں کچھ فلاسفہ نے بیٹھ کر تحریرکیا ہےمجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ جو معجزے کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ خیال کرتے ہیں کہ بس معجزہ یہ ہے کہ عصا، اژدھا بن جائےیہ معجزہ عوام کے لئے ہے۔ عالم لوگوں کے لئے دعائے کمیل، دعائے ابوحمزہ ثمالی اور مناجاتِ شعبانیہ معجزہ ہیں، مالکِ اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا فرمان معجزہ ہےاس فرمان میں آپ یوں تحریرفرماتے ہیں: مالک ! خیال نہ کرنا کہ اب جبکہ تم مصر گئے ہو، تو اب ان لوگوں کے والی اور ان سے برتر ہوگئے ہو اور لوگوں کو اپنی رعایا سمجھنے لگولہٰذا ایک درندے بھیڑیئے کی طرح جو دل چاہے کرتے پھرونہیں، ایسا نہیں ہےلوگوں کی تقسیم کرتے ہیں: وہ جو مسلمان ہیں، وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور وہ جو مسلمان نہیں ہیں، وہ تمہارے ہم نوع انسان ہیں اسکے بعد آخر میں (ہماری گفتگو کا شاہد یہی ہے) فرماتے ہیں: مالک! فَاِنَّکَ فَوْقَھُمتم اپنی رعیت پر بالادست بنائے گئے ہووہ محکوم ہیں اور تم حاکملیکن وَاِلی الاَ مْرِعَلَیْکَ فَوْقَکَجس ہستی نے یہ فرمان تمہارے نام تحریر کیا ہے اور اس ابلاغ کو تمہارے لئے صادر کیاہے، اور جو میں ہوں، وہ تمہارے اوپر ہےمیں تم پر نظر رکھے ہوئے ہوںاگر تم نے کوئی غلطی کی، تو تمہیں اسکی سزا دوں گاوَاللّٰہُ فَوْقَ مَنْ وَلّاکَ(۱) اور پروردگارِ اقدس کی ذات اس کے اوپر ہے جس نے تمہیں مصر کے لوگوں کا حاکم بنایا ہےخدا علی کے اوپر ہے اور علی ہمیشہ اپنے خدا سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی خطا سرزد نہ ہوجائے۔
دوسرا مرحلہ، جو خیال اور فکر کے تمرکز کا مرحلہ ہے (اس کے تعلق سے) اب اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ علی نماز میں کھڑے ہوتے ہیں، خدا اور عبادت میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ وہ تیر جو آپ کے پائے مبارک میں پیوست ہے اور اگر عام حالت میں اسے آپ کے پیر سے نکالیں تو بہت تکلیف دے اور شاید بے تاب کر دے، حالتِ نماز میں آپ کے بدن سے باہر نکالتے ہیں اور آپ کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔
حضرت علی علیہ السلام کوجو عظمت ومنزلت حاصل ہے وہ آپ کی شخصیت کے انہی پہلوؤں کی وجہ سے ہےحضرت علی علیہ السلام ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ طی الارض اور اس طرح کے مسائل آپ کے لئے انتہائی آسان ہیںمیں نے سنا ہے کہ ایک جاہل و نادان شخص نے کہا ہے کہ ایک ڈیڑھ میٹر یا دو میٹر کے انسان (یعنی العیاذ باﷲ علی ابن ابیطالب علیہ السلام) کے لئے جواس قدر فضائل اور معجزات بیان کئے جاتے ہیں وہ گھڑے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہےان لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے مسائل کا تعلق انسان کے قد کاٹھ سے ہےلہٰذا ایک ایسا شخص جس کا قد دو میٹر ہو، وہ زیادہ موثر ہوا کرتا ہےاس قسم کے انسانوں کی نظر میں اگر دنیا میں کوئی معجزہ وجود رکھتا ہے تو اسکا تعلق ”اوج بن عُنُق“ سے ہےکیونکہ وہ عظیم الجثہ تھایہ لوگ انسان کو پہچاننا کیوں نہیں چاہتے؟ کیوں خدا کو نہیں پہچاننا چاہتے؟ کیوں تقربِ الٰہی کو نہیں سمجھنا چاہتے؟ کیوں عبودیت کے معنی نہیں سمجھنا چاہتے؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ولایتِ تکوینی، یعنی اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ خدا نے دنیا کے کام کونعوذ باﷲ ایک انسان کے سپرد کر دیا ہے، اور خود ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا ہے، ایسی چیز محال ہےولایتِ تکوینی، یعنی بنیادی طور پر عبودیت کا پہلا قدم ولایت ہےلیکن درجہ بدرجہ (ولایت یعنی تسلط و قدرت) اِس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ اس ہاتھ کا مالک ہو جائے، اس آنکھ کا مالک ہو جائے، اس کان کا مالک ہو جائے، اپنے پیر کا مالک ہو جائے، اپنی جبلّتوں کا مالک ہو جائےدوسرا قدم اپنے فکر و خیال کا مالک ہو جائے، اپنے بدن کے مقابل اپنے نفس کا مالک ہو جائےقدم بقدم (آگے بڑھتا ہے) یہاں تک کہ عالمِ تکوین پر بھی کچھ تسلط حاصل کر لیتا ہےپھر یہ باتیں نہیں کیا کرتا، یہ باتیں بے شعوری اور بے معرفتی کا نتیجہ ہیںہمیں علی اس لئے محبوب ہیں اور ہم اس لئے علی کے شیفتہ ہیں کہ یہ بات انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہےوہ شخص جو خود اپنے آپ سے بے خود ہو گیا ہے، وہ جس کی دنیا میں اب خودی نہیں پائی جاتی، جو کچھ ہے خدا ہے اور خدا کے سوا کوئی اور چیز اسکی بساط میں نہیں۔
۱۔ نہج البلاغہمکتوب۵۳