عبادت و نماز

مردِ مسلمان کی بعض نمایاں صفات

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

سورۂ مبارکہ ”انا فتحنا“ میں ارشاد الٰہی ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ، ٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی مہربان ہیںسورۂ فتح ۴۸آیت ۲۹)

اس آیت میں ایک اسلامی معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہےسب سے پہلے جس مسئلے کاذکر کیا گیا ہے وہ پیغمبر کی معیت اور ان پر ایمان ہے، اسکے بعد اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابلے میں سخت ترین، قوی اور طاقتور ہونے کا ذکر ہے۔

پس وہ خشک مقدس نما لوگ جو مسجد میں ڈیرہ جمائے رہتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باجود صرف ایک سپاہی کی للکار پر دم سادھ لیتے ہیں اور چوں بھی نہیں کرتے، وہ مسلمان نہیں۔

قرآن کریم نے مسلمان کی ایک خصوصیت، بلکہ اولین خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ دشمن کے بالمقابل سخت، پائیدار اور ثابت قدم ہوتا ہےاسلام سست اور کمزور مسلمان کوپسند نہیں کرتا: وَلاَ تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا، اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سر بلندی تمہارے ہی لئے ہےسورۂ آل عمران ۳آیت ۱۳۹)۔

اسلام میں سستی اور کمزوری کی کوئی گنجائش نہیںویل ڈیورنٹ کتاب ”تاریخ تمدن“ میں کہتا ہے: کسی اور دین نے اپنے ماننے والوں کو قوت و طاقت کے حصول کی ایسی دعوت نہیں دی، جتنی اس سلسلے میں اسلام نے دعوت دی ہے۔ ۔

گرد ن ڈالے رکھنا، گوشۂ لب سے رال ٹپکنا، گریبان (collar) کا ایک طرف ڈھلکا ہونا، اسکا گندہ ہونا، خود کو غریب و لاچار ظاہر کرنا، زمین پر پیر گھسیٹ کر چلنا، عبا سر پر ڈال لینا، یہ سب چیزیں اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیںیوں ہی بلا وجہ آہیں بھرنا اسلام کے خلاف ہے۔

وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث (اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو مسلسل بیان کرتے رہناسورۂ ضحٰی ۹۳آیت ۱۱)

خدا نے آپ کو صحت دی ہے، جسمانی سلامتی دی ہے، قوت عطا کی ہے، طاقت و توانائی سے نوازا ہےآپ اپنی کمر سیدھی رکھ سکتے ہیں تو کیوں بلاوجہ اسے جھکاتے ہیں؟ آپ اپنی گردن سیدھی رکھ سکتے ہیں، کیوں بغیر کسی وجہ کے اسے ایک جانب لٹکائے رکھتے ہیں؟ کیوں بے وجہ آہ و نالہ بلند کرتے ہیں؟ آہ و نالہ تو انسا ن تکلیف کی حالت میں بلند کرتا ہےخدا نے آپ کو کسی درد اور تکلیف میں مبتلا نہیں کیا ہے، توپھر کیوں آپ آہیں بھرتے ہیں؟ یہ تو نعماتِ الٰہی کا کفران ہےکیا حضرت علی علیہ السلام بھی اسی طرح راستہ چلتے تھے جیسے ہم اور آپ چلتے ہیں؟ کیا علی اسی طرح عبا سر پر ڈالتے تھے اور اسی طرح ٹیڑھے ٹیڑھے چلتے ہوئے راستہ طے کرتے تھے؟ (۱)ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابل سخت ترین، پکے اور مضبوط، جیسے سدِ سکندری۔
(ایک مردِ مسلم کو) حلقۂ یاراں میں، مسلمانوں کے ساتھ، کس طرح ہوناچاہئے؟ رحماء بینھم یعنی آپس میں مہربان، گہرے دوست(ایک دوسرے کے ساتھ ریشم کی طرح نرم ہونا چاہئے)۔

(اسکے بر خلاف) جب ہم اپنے بعض مقدس نما لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے یہاں جاتے ہیں تو جو چیز ہمیں ان میں نظرنہیں آتی وہ یہی اخلاص اور مہربانی ہےہمیشہ ان کی تیوریوں پر بل پڑے رہتے ہیں، بداخلاق اور ترش رو ہیںکسی کے ساتھ گرم جوشی سے پیش نہیں آتے، کسی سے ہنس کے نہیں ملتے، دنیا کے ہر انسان پراحسان رکھتے ہیں ایسے لوگ مسلمان نہیں، یہ لوگ خود کو اسلام سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں۔

یہ تھی (ایک مسلمان میں پائی جانے والی) دوسری خصوصیتکیا یہی کافی ہے؟

کیا مسلمان ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ انسان کفار کے ساتھ سختی سے پیش آئے اوراہل اسلام سے مہربانی اور پیارو محبت کا برتاؤکرے؟ ۔ ۔ جی نہیں: تَرٰھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَاناً (تم انہیں دیکھو گے کہ بارگاہِ احدیت میں سر جھکائے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہیںسورۂ فتح ۴۸آیت ۲۹)

وہ شخص جو بے گانوں کیلئے سخت دل اور اپنوں کے لئے مشفق و مہربان ہے، اسی فرد کو جب محرابِ عبادت میں دیکھو گے تو رکوع و سجود، دعا و عبادت اور مناجات میں مشغول پاؤ گےرکعاً و سجداً اسکی عبادت ہے، یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا اسکی دعا ہے۔

البتہ ہم دعا اور عبادت کے درمیان حد بندی کے قائل نہیں ہیںدعا عبادت ہے اور عبادت بھی دعا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل فقط اور فقط خالص دعا ہوتا ہےیعنی ایک ایسی عبادت ہوتی ہے جو صرف دعا پر مشتمل ہےلیکن کچھ عبادات ایسی ہیں جن میں دعا اور دعا کے علاوہ دوسری چیزیں بھی پائی جاتی ہیں، جیسے نمازاسی طرح اور عبادات ہیں جو بنیادی طور پر دعا نہیں، جیسے روزہ۔

سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے چہروں پر نشان پائے جاتے ہیں)یہ لوگ اتنے زیادہ عبادت گزار ہیں کہ عبادت کے آثار، تقویٰ کے آثار، خدا پرستی کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہیں ان کودیکھنے والا ہر شخص ان کے وجود میں خدا کی معرفت اور خدا کی یاد کا نظارہ کرتا ہے، اور انہیں دیکھ کر یادِ خدا میں ڈوب جاتا ہے۔

شاید رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے سوال کیا : یا روحَ اﷲ ! مَنْ نُجَالِسَ؟ (اے روح اﷲ ! ہم کس قسم کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں؟ )حضرت عیسیٰ نے فرمایا: مَنْ یُذَکِّرُ کُمُ اﷲَ رَؤْیَتَہُ وَیَز یدُ فٖی عِلْمِکُمْ مَنْطِقُہُ وَیر غَبُکُمْ فیِ الْخَیْرِ عَمَلُہُ(۲)(ایسے شخص کے ساتھ میل جول رکھو جسے دیکھ کر خدا کی یاد میں ڈوب جاؤ)، اسکی شکل و صورت پر، اسکے چہرے مہرے پر خدا ترسی کو دیکھوعلاوہ ازایں یزید فی علمکم منطقہ (جب وہ بات کرے تو اسکی باتوں سے استفادہ کرو، اسکی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے) یرغبکم فی الخیر عملہ (اسکا کردار دیکھ کر، تمہارے اندر بھی نیک کاموں کا شوق پیدا ہو)

آگے چل کر آیت کہتی ہے:

:ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التّوِْرٰہ وَ مَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہ، فَاٰزَ رَہ، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ

یہی ان کی مثال توریت میں ہے اور یہی ان کی صفت انجیل میں ہےجیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے، پھر اسے مضبوط بنائے، پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعے کفار کوجلایا جائےسورۂ فتح ۴۸آیت ۲۹

توریت و انجیل میں ان کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، ایک ایسی ملت کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہےان کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے، اس انداز میں توصیف کی گئی ہےان کی مثال ایک زراعت کی مثال ہے، گندم کے ایک دانے کی مانند ہیں جسے زمین میں بویا جاتا ہے اور کیونکہ یہ دانہ زندہ ہوتا ہے اس لئے ایک باریک پتی کی صورت میں اپنا سر زمین سے باہر نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ ایک سخت پتے کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اس میں مضبوطی اور استحکام آ جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک موٹی ڈالی بن جاتا ہےاسکے بعد خود اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہےحالانکہ ابتدا میں وہ زمین پرپڑا ہوا ایک معمولی سا پتا تھا، جسے ثبات و استحکام حاصل نہ تھابعد میںیہ ایسا پھلتا پھولتا ہے کہ انسان شناسی کے تمام ماہرین کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور وہ فکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسی پختہ اور شاندار قوم وجود میں آئی ہےالبتہ حیرت و استعجاب کا باعث ایسی ہی قوم ہوسکتی ہے جو اشداء علی الکفار بھی ہو، رحماء بینھم بھی ہو اور رکعاً سجداً اور یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا بھی ہواس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں۔

اب بتایئےہم مسلمان اس قدرزوال و انحطاط کا شکار کیوں ہیں؟ اس قدر بد بخت اور ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ بتایئے ان مذکورہ خصوصیات میں سے کونسی خصوصیت ہمارے اندر موجود ہے؟ اورہم کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں؟

۱شہید مطہری نے ان سطور میں اپنے دور کے بعض علما نما افراد کی تصویر کشی کی ہے(مترجم)

۲اصول کافیج ۴کتاب فضل العالم، باب مجالس العلماء وصحبتھم۔