عبادت و نماز

اہل خانہ کے حوالے سے ذمے داری

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

ایک اور نکتے کا ذکر کر کے اپنے عرائض ختم کروں گا :
میرا دل بہت چاہتا ہے کہ نماز جو دین کا ستون ہے، ہم اسکی اہمیت کو جان لیں، سمجھ لیںسب جانتے ہیں کہ ہم اپنے اہل خانہ کی نماز کے ذمے دار ہیںیعنی اپنے بیوی بچوں کی نماز کے ذمے دار ہیںہم میں سے ہر فرد خود اپنی نماز کا بھی ذمے دار ہے اوراپنے اہل خانہ کی نمازوں کا بھی، یعنی اپنے بیوی بچوں کی نمازوں کا بھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے: وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا(۱)اے پیغمبر! اپنے اہل خانہ کو نماز کی تاکید کیجئے اور خود بھی نماز کے بارے میں صابر رہئےیہ (حکم) صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم سب اس بارے میں ذمے دار ہیں۔

بچوں (کو نماز کا عادی بنانے کے لئے ان) کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟

اس سلسلے میں بچوں کو بچپنے ہی سے نماز کی مشق کرانی چاہئےشریعت کا حکم ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی مشق کراؤظاہر ہے کہ سات سالہ بچہ صحیح طور سے نماز نہیں پڑھ سکتاالبتہ وہ نماز کی حرکات و سکنات ادا کر سکتا ہے، اسی عمر سے نماز کا عادی ہو سکتا ہے(خواہ لڑکا ہو یالڑکی)یعنی جوں ہی بچہ پرائمری کلاسوں میں آئے تو اسے اسکول میں نماز سکھانی چاہئے۔ گھر میں بھی اسے نماز سکھانا چاہئےالبتہ ایک بات پر توجہ رہے، اور وہ یہ کہ بچے کو بالجبر اور زبردستی نماز سکھانا، اسے اس طرح نماز پر آمادہ کرنا، نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔

کوشش کیجئے کہ آپ کے بچے ابتداء ہی سے شوق اور رغبت کے ساتھ نماز پڑھیں آپ ان کے اندر نماز سے لگاؤ پیدا کریں، جس طرح بھی ممکن ہو بچوں کے لئے شوق کے اسباب فراہم کریں تاکہ وہ ذوق و شوق سے نماز پڑھیںاس سلسلے میں ان کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کیجئے، انہیں انعام دیجئے، ان سے محبت کا اظہار کیجئے، یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگیں کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کے دل میں ان کے لئے محبت بڑھ جاتی ہے۔

مزید یہ کہ بچے کو ایسے ماحول میں لے جایئے جس میں اس کے اندر نماز پڑھنے کا شوق پیدا ہوتجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر بچہ مسجد نہ جائے، اگر اجتماع میں نہ جائے اور لوگوں کو اجتماعی طور پر نماز پڑھتے نہ دیکھے، تو اس میں نماز کا شوق پیدا نہیں ہوتاکیونکہ درحقیقت اجتماع میں حاضری انسان میں شوق پیدا کرتی ہے۔ بڑی عمر کا انسان بھی جب اپنے آپ کو عبادت گزار لوگوں کے مجمع میں پاتا ہے تو اس میں بھی عبادت کی روح بڑھتی ہے، بچہ تو بڑے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

افسوس کہ مساجد، عبادت گاہوں اور دینی محافل میں ہمارے کم جانے اور بچوں کے بہت کم دینی اجتماعات میں شرکت کرنے کی باعث، ان میں ابتداء ہی سے عبادت کی جانب رغبت پیدا نہیں ہوتییہ رغبت پیدا کرنا آپ کی ذمے داریوں میں سے ہے۔

اسلام جو یہ کہتا ہے کہ اپنے بچوں کو نماز کی تلقین کرو، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ آقاؤں کے سے انداز میں انہیں حکم دیں، ڈرائیں، دھمکائیں، ان کے سر پر سوار ہو جائیںنہیں، بلکہ ہر اس ذریعے سے استفادہ کیجئے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہوں کہ آپ کے بچوں کو نماز کی جانب راغب کرنے اورانہیں اس کاشوق دلانے کے سلسلے میں مفید واقع ہو گا۔

ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ مسجد جانے کا اہتمام کرنا چاہئے، تاکہ وہ مساجد اور عبادت گاہوں سے آشنا ہوںخودہم لوگ جو اپنے بچپنے ہی سے مساجد اور معابدسے آشنا تھے، اب آج کے ان حالات میں کس قدر مسجد جاتے ہیں؟ ہمارے بچے سات برس کی عمر سے اسکول جاتے ہیں، اسکول کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی لیکن کبھی انہوں نے مسجد میں قدم نہیں رکھا ہوتا، ایسی صورت میں کیا وہ مسجد جائیں گے؟ جی ہاں ! یہ بچے لازماً مسجد سے دور رہیں گےاس صورتحال میں کیا آپ یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ مساجد کے حالات اچھے نہیں، یا مثلاً (مذہبی اجتماعات میں) خطیب حضرات نامناسب باتیں کرتے ہیں (اس لئے ہم اپنے بچوں کو ان جگہوں سے دور رکھتے ہیں)ان چیزوں (مسجدوں اور منبروں) کو درست کرنا بھی ہمارا فریضہ ہےفریضہ کسی مقام پرختم نہیں ہوجاتااپنی مساجد کی اصلاح بھی ہماری ذمے داری ہے۔

پس اس بات کو بھی کبھی فراموش نہ کیجئے گاکہ ہم پرخود اپنی نمازکی ادائیگی بھی فرض ہے اور اپنے اہلِ خانہ کو نماز کا عادی بنانا بھی ہمارا فریضہ ہےاس کی صورت یہ ہے کہ ہم ان میں نماز کی جانب رغبت اورلگاؤ پیدا کریں، جس قدر ممکن ہو نماز پڑھنے کے فوائد اور خصوصیات اور نماز کے فلسفے سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں۔

قرآنِ کریم کہتاہے کہ جب بعض اہلِ جہنم کو عذاب دیا جا رہا ہو گا تو ان سے پوچھا جائے گا : مَاسَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ (کس چیز نے تمہیں اس جہنم میں پہنچا یا ہے) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے) وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآ ءِضِیْنَ (لغو باتوں کی جگہ پر جاتے تھےسورۂ مدثر۷۴آیت۴۲تا۴۵) جہاں کہیں بھی دین مخالف باتیں کی جاتی تھیں، وہاں جا کر انہیں سنتے تھے، یا خود ایسی باتیں کرتے تھےاور یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

یہاں سے سمجھ لیجئے کہ اسلام میں نماز کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے؟ کیوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اس خیمے کا ستون ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر نماز قائم ہو اور اسکا صحیح صحیح اجرا ہو تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی آخری وصیتوں میں، جنہیں آپ نے بارہا سنا ہو گا اور جو اﷲ اﷲ سے شروع ہو تی ہیں (یہ وصیتیں کر نے کے چند ہی لمحے بعد آپ نے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی تھی) انہی وصیتوں میں آپ نے نماز کے بارے میں فرمایا: اﷲَ اﷲَ بِالصَّلاۃَ فَاِنھَّا عَمُودُ دینِکُمْ(نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہےنہج البلاغہمکتوب ۴۷)

روزِ عاشورا کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا اورجانتے ہوں گے کہ زیادہ تر شہادتیں ظہر کی نماز کے بعد واقع ہوئیںیعنی ظہر کے وقت تک حضرت امام حسین علیہ السلام کے اکثر اصحاب، تمام بنی ہاشم اور خود امام حسین (جو سب سے آخر میں شہید ہوئے) زندہ تھےظہر سے پہلے امام حسین کے فقط تیس اصحاب دشمن کی طرف سے ہونے والی ایک تیر اندازی میں شہید ہوئے تھے، وگرنہ امام کے لشکر کے باقی دوسرے افرادظہر کے وقت تک بقیدِ حیات تھے۔

اصحابِ امام حسین میں سے ایک شخص کو خیال آیا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کا اول وقت آ پہنچا ہے۔ وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یا اباعبداﷲ! نماز کاوقت ہوا چاہتا ہے، ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتدا میں آخری نمازِ جماعت ادا کریں، امام نے نظر اٹھا کر(آسمان کی طرف) دیکھا اور نماز کا وقت ہو چکنے کی تصدیق کیکہتے ہیں کہ فرمایا: ذَکَرْتَ الصَّلوٰۃَ یا: ذَکَّرْتَ الصَّلوٰۃَاگر ”ذَکَرْتَ“ کہا ہو تو معنی ہوں گے کہ تمہیں نماز یاد آئی، اور اگر ”ذَکَّرْتَ“ کہاہو تو معنی کئے جائیں گے کہ تم نے مجھے نماز یاد دلائی ذَکَرْتَ الصَّلوٰہَ جَعَلَک اللّٰہُ مِنْ الْمُصَلِّینَ (تم نے نماز یاد دلائی، خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے)

تصور کیجئے کہ ایک ایسا شخص جو سر بکف ہے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہے، ایسے مجاہد کے بارے میں امام دعا فرمارہے ہیں کہ خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دےدیکھا آپ نے حقیقی نماز گزار کتنا عظیم مقام رکھتا ہے۔

فرمایا: ہاں، ہم نماز پڑھیں گے، اسی جگہ میدان جنگ میں نماز پڑھیں گے۔

اس موقع پر ایسی نماز پڑھی گئی جسے فقہ میں ”نمازِ خوف“ کہا جاتا ہےنمازِ خوف، مسافر کی نماز کی مانند چار رکعت کی بجائے دو رکعت ہوتی ہےیعنی انسان اگر اپنے وطن میں بھی ہو تو اسے دورکعت ہی پڑھنا چاہئےکیونکہ حالات سازگار نہیں لہٰذا یہاں مختصر نماز پڑھنی چاہئے، اس لئے کہ تمام افراد کے نماز میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے دفاع کی صورتحال خراب ہو جائے گیسپاہیوں کا فرض ہے کہ اس نماز کے دوران آدھے سپاہی دشمن کا مقابلہ کریں اور آدھے امام جماعت کی اقتداء میں نماز پڑھیںامام جماعت ایک رکعت پڑھنے کے بعدٹھہرتا ہے تاکہ مقتدی اپنی دوسری رکعت پڑھ لیںاسکے بعد وہ جا کے اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ لے لیتے ہیںجبکہ امام اسی طرح بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتا ہےپھر دوسرے سپاہی آتے ہیں اور امام کی دوسری رکعت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے اسی طرح نمازِ خوف ادا کیلیکن امام کو ایک خاص صورتحال در پیش تھیکیونکہ آپ دشمن سے زیادہ فاصلے پر نہ تھےلہٰذا آپ کی حفاظت کرنے والا گروہ آپ کے بالکل سامنے کھڑا ہوا تھا، جبکہ بے حیا اور بے شرم دشمن نے انہیں نماز تک سکون سے نہ پڑھنے دیآپ نماز میں مشغول تھے کہ دشمن نے تیر اندازی شروع کر دی، آپ پردو قسم کی تیر اندازی کی گئی، ان میں سے ایک زبان کی تیر اندازی تھیدشمن کے ایک سپاہی نے چیخ کر کہا: حسین ! نماز نہ پڑھو، تمہاری نماز کا کوئی فائدہ نہیں، تم اپنے زمانے کے امام (یزید) کے باغی ہو، لہٰذا تمہاری نماز قبول نہ ہو گی(نعوذ باللہ)جبکہ دوسری تیر اندازی معمول کے مطابق کمانوں سے پھینکے جانے والے تیروں کی تھیامام حسین کے وہ ساتھی جنہوں نے اپنے آپ کو امام کی ڈھال بنایا ہوا تھا ان میں سے ایک دو اصحاب (تیر لگنے کی وجہ سے) خاک پر گر پڑےان میں سے ایک سعید بن عبداﷲ حنفی اس وقت گرے جب امام حسین اپنی نماز تمام کر چکے تھےوہ جانکنی کے عالم میں تھے کہ امام ان کے سرہانے پہنچےانہوں نے امام کو اپنے سرہانے دیکھ کر ایک عجیب جملہ کہا، عرض کیا: یا اباعبدا اﷲ ! اوفیت (اے اباعبداﷲ! کیا میں نے وفاکی؟ ) یعنی، اب اس حال میں بھی ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ امام حسین کا حق اس قدر بلند وبالا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے ایسی گرانقدرفدا کاری بھی شاید کافی نہ ہو۔

صحرائے کربلا میں ابو عبداﷲ الحسین علیہ السلام نے اس انداز سے نماز ادا کی۔
ابا عبداﷲ نے اس نمازمیں تکبیر کہی، ذکر کیا، سبحان اﷲ کہا، بحول اﷲ وقوتہ اقوم واقعد کہا، رکوع و سجود کئےاس نماز کے دو تین گھنٹے بعد امام حسین کے لئے ایک دوسری نماز پیش آئی، دوسرا رکوع پیش آیا، دوسرے سجود پیش آئےایک دوسرے انداز سے آپ نے ذکر کیاآپ کا رکوع اس وقت ہوا جب ایک تیر آپ کے مقدس سینے میں اترا اور آپ اسے اپنی پشت کی طرف سے نکالنے پر مجبور ہوئے۔

کیا آپ کوپتا ہے کہ اباعبداﷲ کے سجود کی کیا صورت تھی؟ آپ نے پیشانی پر سجدے نہیں کئے، کیونکہ آپ بے بس ہو کر گھوڑے سے زمین پر گرے تھے، لہٰذاآپ نے اپنا داہنا رخسار کربلا کی گرم ریت پر رکھا۔

اس موقع پر اباعبداﷲ کا ذکر تھا:

بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُولِ اﷲِ، وَلاحَوْلَ وَلاَ قُوَّہَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعلِی الْعَظِیمِ وَصَلَّی اﷲَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ الطّاھِرینَ۔
بِسِمِکَ الْعَظِیمِ الْاعْظَمِ۔

خدایا ! ہماری عاقبت خیر فرما، ہم سب کو اپنی عبادت، عبودیت اور بندگی کی توفیق کرامت فرما۔

خدایا ! ہمیں حقیقی نماز گزاروں میں سے قرار دے، ہم سب کی نیتوں کو خالص کر دےہمیں شیاطینِ جن و انس کے شر سے محفوظ فرما۔
خدایا ! ہم سب کے مرحومین کی مغفرت فرما۔
رَحِمَ اﷲُ مَنْ قَرَأ اْلفاتِحَۃ مَعَ الصَّلَوات

۱اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں(سورۂ طہ ۲۰آیت ۱۳۲)