عبادت و نماز

حالتِ نماز میں امام سجاد ؑ کا حضورِ قلب

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

امام سجاد علیہ السلام عبادت میں مشغول تھےآپ کا ایک بچہ چھت سے نیچے گرا اور اس کا ہاتھ ٹوٹ گیاعورتیں جمع ہوگئیں اور چیخنے چلّانے لگیں کہ بچے کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہےجا کر بازوجوڑنے والے کو لاؤ، لوگ گئے اور اعضا جوڑنے والے کو بلا لائے اور بچے کا ہاتھ باندھ دیابچہ رویا، عورتوں نے آہ وفغاں کی، دوسرے افراد نے بھی چیخ پکار مچائی، بات ختم ہوگئی، قصہ گزر گیاعبادت سے فارغ ہونے کے بعدامام صحن میں تشریف لائے، اُن کی نگاہ اپنے بچے پر پڑی، دیکھا اُس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، آپ نے پوچھایہ کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا :بچہ چھت سے گر گیاتھا، اِس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، ہم اعضاجوڑنے والے کو لائے، اُس نے اِس کا ہاتھ باندھ دیا، اُس وقت آپ نماز اور عبادت میں مشغول تھےامام نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے بالکل پتا نہیں چلا۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ وہ امام زین العابدین علیہ السلام تھے، ہر آدمی تو ان کی مانند نہیں ہو سکتاخود ہم نے اپنی زندگی میں ایسے افراد کو دیکھا ہے (البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس حد اور اس درجے تک ) ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نماز شروع کرنے کے وقت سے لے کر اسکے اختتام تک ذکرِ خدا اور یادِ خدا میں اس طرح ڈب جاتے، اور نماز میں اس طرح غرق ہو جاتے کہ اپنے ارد گردسے یکسر بے خبر ہوجاتے تھے! ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے ”اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ“ عبودیت اور بندگی کا نتیجہ اور اس کا اوّلین اثر یہ غلبہ اور تسلط ہے۔

ہم نے اِس نشست میں تسلط کے دو مرحلوں کے بارے میں عرض کیا ہے۔ تسلط کا ایک درجہ، جو تسلط کا کم سے کم درجہ ہے، اور اگر یہ انسان میں پیدا نہ ہو، تو انسان کو یقین رکھنا چاہئے کہ اسکی عبادتیں درگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہیں }اور یہ درجہ{ اپنے نفس پر تسلط ہےیہ وہی چیز ہے کہ قرآن نماز کے بارے میں کہتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ(۱) نمازبے حیائی اوربُرے کاموں سے روکتی ہے۔

نماز کس طرح بے حیائی اور بُرے کاموں کا راستہ روکتی ہے؟

کیا نماز پولیس ہے، کہ جب آپ کسی بُرے کام کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو وہ ڈنڈا لئے آکر آپ کا راستہ روک لیتی ہے؟ نہیں، نماز عبودیت اور بندگی ہےاس عبودیت کا نتیجہ ربوبیت اور تسلط ہے، اور تسلط اور غلبے کا کم از کم درجہ نفس پر تسلط اور غلبہ ہے۔

۱۔ نماز ہر بُرائی اور بد کاری سے روکتی ہے۔ (سورۂ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)