عبادت و نماز

نماز کے دوسرے حصے بھی اسی طرح ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک درس ہے، تذکر اور یاد دہانی ہے۔

مثلاً آ پ ”اﷲ اکبر“ کے لفظ پر غور کیجئےآخر وہ کونسا انسان ہے جو کسی عظیم شے کا سامنا ہونے پر اس سے مرعوب نہ ہو؟ انسان میں خوف پایا جاتا ہے۔ ۔ جب وہ کسی پہاڑ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے یااسکی چوٹی پر کھڑے ہو کر نیچے نگاہ ڈالتا ہے، تو اس پرخوف طاری ہو جاتا ہےسمندر کی بپھری ہوئی موجیں دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا ہےجب کسی صاحبِ قدرت و ہیبت ہستی کو دیکھتا ہے، دبدبے اور جاہ و حشم کی مالک کسی ہستی کا سامنا کرتا ہے، یا اسکی خدمت میں جاتا ہے، تو ممکن ہے اسکے حواس باختہ ہوجائیں، اسکی زبان میں لکنت آ جائے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس لئے کہ وہ اس کی عظمت و ہیبت سے مرعوب ہو جاتا ہےیہ انسان کے لئے ایک طبیعی بات ہے۔

لیکن اﷲ اکبر کہنے والا شخص، ایسا شخص جو اپنے آپ کو خدا کی کبریائی کی تلقین کرتا ہے، اسے کسی چیز یا کسی ہستی کی عظمت مرعوب نہیں کرتیکیوں؟ کیو نکہ ”اﷲ اکبر“ یعنی ہر چیز سے بڑی بلکہ ہر توصیف سے بڑی ذات، ذاتِ اقدسِ الٰہی ہے، یعنی اس بات کا اظہار کہ میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں، اور جب میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ میرے سامنے اس کائنات کی تمام اشیا حقیر ہیں اللہ اکبر کا الفظ انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے، انسان کی روح کو بزرگی اور بلندی عطا کرتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عَظُمَ الْخالِقَ فِی اَنْفَسِھِمْ فَصَغَرَ ما دَونِہَ فی اَعیَنِھِمْ (خالق ان کی نگاہ میں اس قدر عظیم ہے کہ ساری دنیا ان کی نگاہوں سے گر گئی ہےنہج البلاغہخطبہ ۱۹۱) یعنی خدا اہل حق کی روح میں جلوہ افروز ہے لہٰذا ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیزپست اور معمولی ہے۔

اس مقام پر آپ کے لئے ایک وضاحت عرض ہے :

چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبی (Relative) امر ہےمثلاً آپ حضرات جو اس ہال میں تشریف فرما ہیں، اگر یہاں آنے سے پہلے، اس سے ایک چھوٹے ہال میں (مثلاً اس سے ایک تہائی چھوٹے ہال میں) بیٹھے ہوئے تھے، تو یہ ہال آپ کوبہت بڑا محسوس ہو گا، لیکن اگر اسکے برعکس، پہلے آپ ایک ایسے ہال میں بیٹھے ہوں جو اس ہال سے تین گناہ بڑا تھا توجب وہاں سے یہاں آئیں گے تو آپ کویہ ہال بہت چھوٹا معلوم دے گا۔

انسان جب کبھی مختلف چیزوں کی چھوٹائی اور بڑائی کا موازنہ کرتا ہے تو ان میں چھوٹی دکھائی دینے والی چیزوں کو چھوٹا اور بڑی نظر آنے والی چیزوں کو بڑا قرار دیتا ہےلہٰذا ایسے افراد جو اپنے پروردگار کی عظمت و بزرگی سے آشنا ہیں اور اسکی عظمت کو محسوس کرتے ہیں، ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیز حقیر اور چھوٹی ہے، بڑی نہیں ہو سکتیسعدی نے بوستان میں بہت عالی بات کی ہے :

بر عارفان جز خدا ہیچ نسیت
رہ عقل جز پیچ در یچ نسیت

سعدی کہتے ہیں: اہل عرفان، خداکے سوا کسی چیز کی حیثیت کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی اور چیز کا سرے سے وجود ہی نہیں۔

”وحدت الوجود“ کے ایک معنی یہی ہیں کہ جب عارف کے سامنے خداکی عظمت اور بزرگی واضح ہوجاتی تووہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسکے سوا کسی اور چیز کا بھی وجود ہےوہ کہتا ہے کہ اگر ”وہ“ وجود ہے تو ”اس“ کے سوا جوکچھ ہے وہ عدم ہےسعدی نے بھی وجود کے یہی معنی بیان کئے ہیںبعد میں کہتے ہیں:

توان گفتن این باحقایق شناس
ولی خردہ گیرند، اہل قیاس

حقیقت شناس لوگ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، لیکن وہ لوگ جو (ان کے خیال میں) اہلِ قیاس ہیں وہ ان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کس شئے کا نام ہے؟

کہ پس آسمان و زمین چیستند
بنی آدم و دیو و دد کیستند

اگر خدا کے سوا کسی اورچیز کا وجود نہیں، تو پھر زمین کیا ہے؟ آسمان کیا ہے؟ بنی آدم کیا ہے؟ دیو اور دو کیا ہے؟

پسندیدہ پرسیدی ای ھوشمند
جو ابت بگویم درایت پسند

کہ خورشید و دریا و کوہ و فلک
پری و آدمیزاد و دیو و ملک

ھمہ ہرچہ ہستنداز آن کمترند
کہ باہستیش نام ہستی برند

کہتے ہیں: میں جب یہ کہتاہوں کہ خدا کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین، انسان اور فرشتے کسی بھی شے کا وجود نہیںتم کہتے ہو کہ میں دوسری اشیا کے وجود کا منکر ہو گیا ہوں، نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس (خدا) کی عظمت کو جان لینے کے بعد میں اسکے سوا جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اسے ہستی قرار دینے سے خود کو عاجز پاتا ہوں۔

کہ جای کہ دریا ست من چیستم
گرادہست حقا کہ من نیستم

جب آپ ”اﷲ اکبر“ کہتے ہیں تو اگر اپنی روح اور دل کی گہرائی سے کہیں گے تو خدا کی عظمت آپ کے سامنے مجسم ہو جائے گی۔ اگر آپ کے دل میں خدا کی عظمت و بزرگی پیدا ہو جائے تو پھر آپ کی نظر میں کسی اور کا عظمت و بزرگی کا حامل ہونامحال ہو گا، محال ہے کہ آپ کسی اور سے خوف کھائیں، کسی اور کے سامنے خضوع و خشوع کا اظہار کریں۔

یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ خدا کی بندگی انسان کو آزادی عطا کرتی ہےاگر انسان خدا کی عظمت اور بزرگی کو جان لے، تو اسکا بندہ بن جاتا ہے اورخدا کی بندگی کا لازمہ خدا کے سوا ہر کسی سے آزادی ہے :

نشوی بندہ تانگردی حر
نتوان کرد ظرف پر را پر

چند گوئی کہ بندگی چہ بود
بندگی جز شکندگی نبود

خدا کی بندگی غیر خدا کی بندگی سے آزادی کے مترادف ہےکیونکہ خداکی عظمت اوربزرگی کے ادراک کا لازمہ غیر خدا کی حقارت اوراسکے بے قیمت ہونے کا ادراک ہےاور جب انسان غیر خدا کو، خواہ وہ کوئی بھی ہو، حقیر اور معمولی سمجھنے لگے تو محال ہے کہ جانتے بوجھتے کسی حقیر کی بندگی کرےحقیر کی بندگی کو انسان غلطِ عظیم سمجھتا ہے۔

نماز کے دوسرے اذکار جیسے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، سبحان ربی العظیم و بحمدہ، سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ اور تشہد وغیرہ، ہر ایک میں ایک رمز اور راز پوشیدہ ہے۔

ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا : ہم (نماز کی ہر رکعت میں)دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ جس طرح ایک مرتبہ رکوع کرتے ہیں اسی طرح ایک مرتبہ سجدہ کر لیں!!؟

البتہ آپ جانتے ہیں کہ سجدے میں، رکوع سے زیادہ خضوع و خشوع اور عاجزی وانکساری کا اظہار پایا جاتا ہےکیونکہ سجدے میں انسان اپنے عزیز ترین عضو (انسان کابلند ترین عضو سر ہے، جس میں انسان کا مغز ہوتا ہے اور سر میں بھی عزیز ترین نقطہ پیشانی ہے) کو عبودیت اوربندگی کے اظہار کے طور پر پست ترین چیز یعنی خاک پر رکھتا ہےاپنی پیشانی خاک پر رگڑتا ہے اور اس طرح اپنے پروردگار کے سامنے اپنے معمولی اورحقیر ہونے کا اظہار کرتا ہے۔

اس شخص نے کہا: ہم نماز کی ہر رکعت میں دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں، خاک میں کیا خصوصیت پائی جاتی ہے؟

امیر المومنین نے(اسکے جواب میں) یہ آیت پڑھی: مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِ جُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی (اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کے لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گےسورۂ طہ ۲۰آیت ۵۵)اور پھر فرمایا: پہلی مرتبہ سجدے میں سر رکھ کر جب اوپر اٹھاتے ہوتو اسکا مطلب اس بات کا اظہار ہے کہ: مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ (ہم سب خاک سے خلق ہوئے ہیں)، ہمارے اس پورے پیکر کی بنیاد خاک ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اس خاک سے وجود میں آئے ہیںجب دوسری مرتبہ اپنا سر خاک پر رکھتے ہو تو تمہارے ذہن میں یہ ہونا چاہئے کہ ایک دن تمہیں مر کر خاک میں واپس جانا ہےاور جب دوبارہ خاک سے اپنا سر اٹھاتے ہو تو تمہارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ ایک مرتبہ پھر اس خاک سے اٹھائے جاؤ گے۔