علی ؑ ایک جامع الصفات ہستی
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
آپ اگر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حیات پر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈالیں تو پتا چل جاتا ہے کہ آپ ایک عابد بلکہ دنیا کے اوّلین درجے کے عابد ہیںیہاں تک کہ آپ کی عبادت تمام عالم میں ضرب المثل بن جاتی ہےعبادت بھی ایسی کہ فقط خم و راست ہونا نہیں، (بے روح رکوع و سجود نہیں) بلکہ ایسی عبادت جو اوّل سے آخر تک جذبات سے، ولولے سے، عشق سے، گریہ و زاری سے لبریز ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ”ضرار“ نامی ایک شخص کی معاویہ سے ملاقات ہوتی ہےمعاویہ کو معلوم تھا کہ ”ضرار“ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیںچنانچہ فرمائش کی: تم علی کے ساتھ ہوا کرتے تھے، میرے سامنے ان کے فضائل بیان کروخود معاویہ اچھی طرح حضرت علی سے واقف تھےلیکن اسکے باوجود وہ دوسروں سے ان کے بارے میں سننا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں سے حضرت علی کی عظمت کے قائل تھے، حالانکہ یہی تھے جنہوں نے حضرت علی کے خلاف تلوار تک اٹھائی تھی۔
انسان ایسا ہی موجود ہے!! وہ علی کے عقیدتمند بھی تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے حضرت علی کے خلاف نا پسندیدہ اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
”ضرار“ نے معاویہ کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ نقل کیاکہا: میں نے ایک رات علی کو محرابِ عبادت میں دیکھا : یَتَمَلْمَلَ تَمَلْمَلَ السَّلیِم وَیَبْکی بَکاءَ الْحَزینِیعنی آپ محرابِ عبادت میں خوفِ خدا سے، ایک ایسے شخص کی مانند تڑپ رہے تھے جسے سانپ نے کاٹ لیا ہوغم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کی مانند گریہ و زاری میں مشغول تھے، سرد آہیں بھرتے تھے، آتش جہنم سے لرزاں آہ آہ کرتے تھےمولائے کائنات کی یہ کیفیت سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے۔
اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک موقع پر معاویہ اور عدی بن حاتم کی ملاقات ہوئی تو معاویہ نے عدی بن حاتم کو حضرت علی کے خلاف بھڑکانا چاہاعدی سے کہا: این الطرفات؟ طریف، طرفہ اور طارف کیا ہوئے؟ (۱)
حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا: وہ سب صفین میں علی کی رکاب میں شہید ہو گئے۔
معاویہ نے کہا: علی نے تیرے ساتھ نا انصافی کی، اپنے بچوں حسن اورحسین کو تو پیچھے رکھا اور تیرے بچوں کو آگے کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا : حقیقت تویہ ہے کہ میں نے علی کے ساتھ ناانصافی کیاگر میں انصاف کرتا تو آج میں زندہ اور علی زیرِ خاک نہ ہوتے۔
معاویہ نے جب اپنا نشانہ خطا جاتے دیکھا تو عدی سے کہا: اے عدی ! میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھے علی کے بارے میں کچھ بتاؤعدی بن حاتم نے تفصیل کے ساتھ حضرت علی کے اوصاف بیان کئےوہ کہتے ہیں کہ آخر میں، میں نے دیکھا کہ معاویہ زار و قطار رو رہے ہیں اسکے بعد انہوں نے آستین سے اپنے آنسو صاف کئے اور کہا : افسوس کہ زمانہ علی کی مانند انسان جننے سے بانجھ ہے۔
دیکھئے حقیقت کیسے جلوہ گر ہوتی ہے؟
یہ تو تھی حضرت علی علیہ السلام کی عبادت، لیکن کیا علی صرف اہل محراب تھے، محراب کے سوا کہیں اور نظر نہ آتے تھے؟
ہم حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک اور رخ کا جائزہ لیتے ہیں (اور وہ آپ کی حیاتِ اجتماعی سے تعلق رکھتا ہے) آپ ہر لحاظ سے ایک اجتماعی ترین فرد تھے، ضرورت مندوں، بے کسوں، مسکینوں اور لاچاروں کے حالات سے واقف ترین فرد تھےخلیفہ ہونے کے باوجود آپ دن کے وقت اپنا درہ یعنی کوڑا کاندھے پر لٹکائے، بنفس نفیس لوگوں کے درمیان گشت فرماتے تھےان کے معاملات کا جائزہ لیتے تھےجب تاجروں کے پاس پہنچتے تو فرماتے: اَلْفَقْہَ ثُمَّ اَلْمَتْجَر(۲)جاؤ پہلے تجارت کے مسائل سیکھو، اسکے شرعی احکام کی تعلیم حاصل کرو، اسکے بعد آ کے تجارت کرناحرام خرید و فروخت نہ کرو، سودی معاملہ نہ کرو۔
اگر کسی کو تاخیر سے اپنے کام پر جاتے دیکھتے تو فرماتےاُغْدوا اِلٰی عِزَّکُمْایک انتہائی عبادت گزار فرد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میں یہ خصوصیت بھی تھیپہلی مرتبہ میں نے مذکورہ حدیث مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ کی زبانی سنی تھیایک مرتبہ ایک گداگر، آقائے بروجردی کے یہاں آ کے ان کے سر ہو گیا، اور کچھ طلب کرنے لگاانہوں نے اس پر نگاہ ڈالی، دیکھا تو محسوس کیاکہ یہ شخص محنت مزدوری کر سکتا ہے لیکن گداگری کو اس نے اپنا پیشہ بنا لیا ہےلہٰذا انہوں نے اسے نصیحت کی اور بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ حضرت علی علیہ السلام کا یہ جملہ بھی فرمایا: کہا کہ امیر المومنین لوگوں سے فرماتے تھے:
اُغْدوا اِلیٰ عِزَّکُمْ (۳)
علیٰ الصبح اپنی عزت و شرف کی طرف روانہ ہوا کرو۔
یعنی اپنے کام، محنت مزدوری اور حصول روزگار کی طرف جایا کروانسان اس وقت عزیز وسربلند ہے جب وہ خود کماتا ہو، اپنی معاش کا بندوبست خود کرتا ہومحنت مزدوری عزت ہے، شرافت ہے۔
اسے کہتے ہیں حقیقی مثالی مسلمان۔
آپ عبادت کے میدان میں سرِفہرست عبادت گزار ہیںجب قضاوت کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو ایک عادل قاضی ہیں، ذرہ برابر بے انصافی نہیں کرتےجب میدانِ جنگ کا رخ کرتے ہیں تو ایک بہادر سپاہی اور شجاع سپاہ سالار ہیں، ایک اول درجے کے کمانڈر ہیں، خود فرماتے ہیں: میں نے ابتدائے شباب ہی سے جنگ کی ہے، جنگ کا تجربہ رکھتا ہوںاور جب آپ خطابت کی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو اوّل درجے کے خطیب ہیںجب تدریس کی ذمے داری سنبھالتے ہیں تو اوّل درجے کے معلم و مدرس ہیں۔
ہر ایک فضیلت میں آپ کا یہی حال ہےیہ ہیں اسلام کا نمونۂ کامل۔
اسلام کسی صورت نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ کو قبول نہیں کرتالہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسلام کے اِس ایک پہلو کو تو مانیں گے لیکن اس کے اس دوسرے پہلو کا انکار کریں گےدنیائے اسلام میں پیدا ہونے والے انحراف کا نقطۂ آغاز یہی ہےاگر ہم اسلام کے کسی ایک پہلو کو لے لیں لیکن اسکے دوسرے پہلووں کو چھوڑ دیں تو اس طرح ہر چیز میں خرابی اور بگاڑ پیدا کر بیٹھیں گے۔
جس طرح گزشتہ ادوار میں ہمارے بہت سے زاہد پیشہ افراد کی روش غلط تھی، ایسے لوگوں کی روش غلط تھی جوپورے اسلام کو مثلاً مفاتیح الجنان میں منحصر سمجھتے ہیں، (دعاؤں کی ایک کتاب) بیاض میں محدود کر دیتے ہیں، اسی طرح ایسے لوگوں کی روش بھی غلط ہے جو دعا، عبادت، نوافل اور فرائض کو یکسر چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اسلام کے صرف اجتماعی مسائل کے بارے میں توجہ چاہتے ہیں۔
۱حضرت عدی بن حاتم کے تین فرزند تھے، جن کے نام طریف، طرفہ اورطارف تھےان کے ان تینوں فرزندوں نے حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھامعاویہ عدی بن حاتم کے جذبات بھڑکانا چاہتے تھےلہٰذا ان کے زخموں پر نمک پاشی کی تاکہ ان کے منہ سے حضرت علی کے خلاف ایک لفظ ہی نکلوا سکیں۔
۲وسائل الشیعہج ۱۲ص ۲۸۲ح ۱
۳وسائل الشیعہج ۱۲۔ ص۴۔ ح ۱۰