دل کے لئے پیغمبر اکرم کی تعبیر
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
دل کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک تعبیر ہےاس قسم کے دل جو ہمارے پاس ہیں، وہ دل جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں انتہائی عجیب تعبیر ہے! پیغمبر اکرم ایک مثل بیان کرتے ہیں، فرماتے ہیں: اِنَّما مَثَلُ ھٰذَاالْقَلْبِ کَمَثَلِ ریشَۃٍ فی فَلاۃٍ مُعَلَّقِۃٍ عَلٰی شَجَرَۃٍ تُقَلِّبُھَاالرِّیحُ ظَھْراً لِبَطْنٍانسانوں کے دل کی مثل، وہ انسان جن کے دل کی تربیت نہیں ہوئی ہے، اور اب تک انہوں نے عبادت کی مشق نہیں کی ہے، ایک پر کی (مثلاً ایک پرندے کے پر کی) مثل ہےاگرآپ ایک پر کو صحرا و بیابان میں، ایک درخت پر لٹکا دیں، اسکے بعد یہ دیکھیں کہ کیایہ پر ایک حالت میں ٹھہرا رہتا ہےآپ دیکھیں گے کہ وہ مسلسل کبھی اِس طرف اور کبھی اُس طرف ہوتا رہتا ہےہوا کا ایک انتہائی معمولی جھونکا، جس کے چلنے کا آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا، آپ دیکھتے ہیں کہ }اس ہوا کے اثر سے{یہ پر اس شاخ پر حرکت کرنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں بنی آدم کے قلب (جس سے یہاں قوۂ خیال مرادہے) کی مثل، قوۂ خیال کی مثل ہے، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا، اس شاخ سے اس شاخ پر اڑتا پھرتا ہے، انسان کے اختیار سے باہر ہےاس پر کی مثل ہے، جو بیابان میں ایک شاخ پر آویزاں ہو، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتامولانا روم اسی مضمون کو شعر میں لائے ہیں:
گفت پیغمبر کہ دل ہمچون پری است
دربیابانی بہ دست صرصری
کیا تمام دل اسی طرح کے ہوتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
لازماً آپ کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا دل بھی نعوذ باﷲ اسی طرح کا تھانہیں، ایسا نہ تھانہ صرف علی ابن ابی طالب، بلکہ اُن کے معمولی سے شاگرد بھی اس طرح کے نہیں تھے۔
کیا اویس قرنی، عمارِ یاسر اور کمیل ابن زیادہ نخعی اسی طرح کے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
حتیٰ ان سے بھی کم تر لوگوں کو ہم نے دیکھا ہےوہ افراد جنہیں ہم نے اپنے زمانے میں دیکھا ہے، ان میں بھی، ان افراد میں بھی ہم نے بہت دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے قوۂ خیال کے مالک اور اپنے قوۂ خیال پر مسلط ہیں۔ یعنی خدا کی عبودیت اور بندگی کے زیر اثر وہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کر سکے ہیں کہ اگر وہ چاہیں کہ مسلسل ایک گھنٹے اپنے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز رکھیں، اس طرح سے کہ اس پورے وقت میں ان کا ذہن ذرّہ برابر بھی کسی اور نقطے کی طرف متوجہ نہ ہو، تو وہ ایسا کر سکے ہیںیہ خود ایک قدرت اور تسلط ہے، اور خداوندِ تبارک و تعالیٰ سے واقعی قرب کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہےاس قسم کی چیز ممکن ہے۔ بنیادی طور پر ان لوگوں کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ وہ اپنی فکر و خیال پر حاکم ہیں، فکر یعنی خیال ان پر حکومت نہیں کرتااس قسم کے نکتے کو مولانا روم نے کس قدر عالی بیان کیا ہے! پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: یَنامُ عَیْنی وَلا یَنامُ قَلْبیمیری آنکھ سوتی ہے، لیکن میرا دل بیداررہتا ہےہمارے برعکس کہ ہماری آنکھ بیدار ہے اور ہمارا دل عالمِ خواب میں ہےپیغمبر نے فرمایا ہے کہ میں آنکھ سے سوتاہوں، میرا دل بیدار ہوتا ہےفرماتے ہیں:
گفت پیغمبر کہ عینای ینام
لاینام القلب عن رب الانام
چشم تو پیدار و دل رفتہ بہ خواب
چشم من درخواب و دل در فتح یاب
حاکم اندیشہ ام محکوم نی
چون کہ بنا حاکم آمد بربنی
میری اور میرے فکر و خیال کی مثل بنّا}معمار{ اور بنا}عمارت{ کی سی ہے، اسے میں نے بنایا ہے، فکر و خیال نے مجھے نہیں بنایا ہے۔
من چومرغ او جم اندیشہ مگس
کی بود برمن مگس را دسترس
یہ دوسرا (اور ایک اعتبار سے تیسرا) مرحلہ، ان مراحل میں سے ہے کہ انسان تسلط اور قدرت پیدا کرتا ہے۔