عبادت و نماز

اسلام، دنیا اور آخرت کا جامع

عبادت و نماز   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اب اپنی پور ی توجہ اس موضوع پر مرکوز فرمایئے کہ اسلام میں دنیا اور آخرت کس طرح باہم ملے ہوئے ہیں اسلام مسیحیت کی طرح نہیں ہےمسیحیت میں دنیا اور آخرت کا حساب جدا جدا ہےمسیحیت کہتی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں علیحد ہ علیحدہ عالم ہیں (ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے)، یا یہ، یا وہلیکن اسلام میں ایسا نہیں ہےاسلام آخرت کو دنیا کے ساتھ اوردنیا کو آخرت کے ہمراہ قرار دیتا ہےمثلاً نماز ہی کو لے لیجئے، اسکا خالص اخروی پہلو یہ ہے کہ انسان خدا کو یاد کرے، خوفِ خدا رکھے۔

حضورِ قلب اور خداکی جانب متوجہ ہونے کیلئے اس قدرادب آداب کی ضرورت نہیں کہ انسان پہلے جا کر وضو کرے، اپنے آپ کو دھوئے، صاف کرےکیا خدا سے ملاقات کے لئے وضو اور پاکیزگی کوئی تاثیر رکھتی ہے؟ خدا کے حضور جانے کے لحاظ سے اس بات کی کوئی تاثیرنہیں کہ انسان کا منہ دھلا ہوا ہے یا نہیں، لیکن خداوند عالم فرماتا ہے :

اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ، فَاغْسِلُوْ اوُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَفِقِ

ایمان والو! جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ(سورۂ مائدہ ۵۔ آیت ۶)

پھر اسکے بعد نماز پڑھو۔

دیکھا آپ نے (اسلام نے) صفائی کو عبادت کے ساتھ ملا دیا ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُ وْا (اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کروسورۂ مائدہ ۵آیت ۶) اوریہاں عبادت کے ساتھ پاکیزگی کا ذکر ہے۔

اگر آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کی عبادت کی جگہ مباح ہونی چاہئے، غصب شدہ نہ ہووہ جا نماز جس پر کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھتے ہیں، وہ لباس جسے پہن کر آپ نماز ادا کرتے ہیں، اسے حلال اورمباح ہونا چاہئےاگر آپ کے لباس کا ایک دھاگا بھی غصبی ہوا، تو آپ کی نماز باطل ہو جائے گیاس مقام پر عبادت حقوق کا دامن تھام لیتی ہےخدا کی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ کہا جا رہا ہے کہ (لوگوں کے) حقوق کا بھی احترام کیجئےیعنی اسلام کہتا ہے کہ میں ایسی عبادت قبول ہی نہیں کرتا جس میں دوسروں کے حقوق کا پاس ولحاظ نہ رکھا گیا ہو۔

لہٰذا جب نمازپڑھنے والا کوئی شخص، نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے یہ دیکھتا ہے کہ یہ گھر جس میں، میں ہوں، اسے میں نے کسی سے بالجبر تو نہیں ہتھیایا؟ اگر جبراً قابض ہوں، تو میری نماز باطل ہو گیپس اگر وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو مجبور ہے کہ پہلے اپنے لئے ایک ایسے گھر کا بندوبست کرے جو اسکے لئے حلال ہویعنی اسکے اصل مالک سے خریدا ہوا ہو، یا وہ (مالک) اسکے وہاں رہنے سے راضی ہو۔ وہ جس فرش پر کھڑا ہے، اس کا مسئلہ بھی یہی ہےاسکا لباس بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، حتیٰ اگر ناداروں کے حقوق، خمس یا زکات (وغیرہ) بھی اس کے ذمے ہوں، تو انہیں بھی ادا کرےاگراس نے انہیں ادا نہ کیا ہو گا، تو بھی اسکی نماز باطل ہوگی۔

اسی طرح (اسلام) ہم سے کہتا ہے اگر نماز پڑھنا چاہتے ہو تو تم سب کوکعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوناہو گاکعبہ کہاں ہے؟ وہ اوّلین معبد جو دنیا میں خدا کی پرستش کے لئے بنایا گیا، کہاں واقع ہے؟ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَرکًا (بے شک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکہ میں ہے، مبارک ہےسورۂ آل عمران ۳آیت ۹۶) تم سب پر اس اوّلین معبد اور مسجد کی سمت رخ کر کے کھڑا ہونا لازم ہے جسے خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟ کیا وہاں خدا ہے؟ کیا خدا (معاذ اﷲ) خانۂ کعبہ کے اندر ہے؟ قرآن مجید جو یہ کہتا ہے کہ :

فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ

لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلے کا رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے(سورۂ بقرہ ۲آیت ۱۱۵)

تم جہاں کہیں رخ کر کے کھڑے ہو جاؤ، وہیں خدا ہے، تم چاہے دائیں طرف رخ کر و یا بائیں طرف، خدا کی طرف رخ کر کے کھڑے ہواوپر رخ کرو یانیچے، خدا کی طرف تمہارا رخ ہو گااور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اگر تمہیں رسی سے باندھ کرنیچے زمین کے ساتویں طبقے تک بھی لے جائیں تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے۔ مشرق کی طرف جاؤ، تب بھی خداکی طرف جاؤ گے، مغرب کی طرف جاؤ، تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے، یہاں جوبیٹھے ہوئے ہو، خداکے ساتھ ہوخداکی کوئی سمت نہیں۔

(اگر ایسا ہے تو) پھر ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟

(اسلام) کہتا ہے کہ آپ عبادت کی انجام دہی کے دوران ایک اجتماعی تعلیم و تربیت بھی حاصل کیجئےآپ سب کو ایک نقطۂ واحد کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا چاہئے، اگرایسا نہ ہو تو ایک شخص ایک طرف رخ کئے کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری طرف اور یہ تفرقے اور انتشار کی علامت ہےلیکن اگرتمام لوگ ایک نقطے کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوں، تو اسکا مطلب ہے کہ سب یکسو ہیں۔

تمام مسلمانوں کی ایک ہی سمت اورجہت ہونی چاہئے، اس مقصد کے لئے کس نقطے کا انتخاب کریں جس میں شرک کی بو بھی نہ پائی جاتی ہو؟ (اسلام) کہتا ہے کہ اس نقطے کا انتخاب کرو جس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا یہ کہلائے کہ تم نے عبادت کااحترام ملحوظ رکھا ہے، اس سمت رخ کر کے کھڑے ہو جو اوّلین معبد ہے، معبد کا احترام عبادت کااحترام ہے۔

پھر (اسلام) کہتا ہے کہ اگر عبادت کرناچاہتے ہو تواسکا ایک متعین اورخاص وقت ہے، اس میں سیکنڈوں کا بھی خیال رکھا جانا چاہئےصبح کی نماز کا وقت طلوعِ صبح کے آغاز سے لے کر طلوع آفتاب کی ابتداء تک ہےاگر تم نے جانتے بوجھتے صبح طلوع ہونے سے ایک سیکنڈ پہلے یا سورج طلوع ہونے کے بعد نماز شروع کی تو تمہاری نماز باطل ہوگی، درست نہ ہو گینماز کو ان دو (اوقات) کے درمیان ہونا چاہئےیہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ مجھے نیند آ رہی ہے، رات بھر کا جاگا ہوا ہوں، گو ابھی صبح طلوع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے، یوں بھی خدا کو نہ تو نیند آتی ہے اور نہ بیداری کا ا س سے کوئی تعلق ہے، کیا خدا طلوعین کے درمیان (معاذ اﷲ) اپنا مخصوص لباس پہن کر نماز قبول کرنے کے لئے تیار ہوکے بیٹھتا ہے؟ ۔ ۔ خدا کے لئے تو تمام ساعات اور تمام لمحات مساوی ہیں: لاَ تَاْخُذُہ، سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ (اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھسورۂ بقرہ ۲آیت ۲۵۵)لہٰذا کیونکہ میں نے رات جاگ کر گزاری ہے، بہت زور وں کی نیند آرہی ہے، کیوں نہ آدھے گھنٹے پہلے نماز پڑھ لوں۔

نہیں جناب، وقت کی پابندی ضروری ہےاپنے مقررہ وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔

کیا خدا کی نظر میں اِس وقت یا اُس وقت کے درمیان کوئی فرق ہے؟
نہیں۔
ہاں، آپ کے لئے فرق ہےنماز کے ذریعے آپ کی تربیت مقصود ہے، اگر آپ رات کو دو بجے تک بھی بیدار رہے ہیں، تب بھی آپ کو طلوعین کے درمیان اٹھ کر نماز ادا کرنی چاہئےیہی حال ظہر اور عصر کی نمازوں کا ہے، (یہ بھی) قبل از وقت قبول نہیں، وقت گزرنے کے بعد بھی قبول نہیں۔ مغرب اور عشا کی نمازوں میں بھی ایسا ہی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز توعبادت ہے، خدا پرستی ہے، بھلاخدا پرستی کو ان معاملات سے کیا سروکار؟

نہیں جناب، اسلام میں خدا پرستی ان مسائل سے مربوط ہےاسلام عبادت و پرستش اور دوسرے مسائل کے درمیان تفریق کا قائل نہیں۔

(ممکن ہے کوئی کہے کہ) میں نمازپڑھتا ہوں، لیکن نماز کے دوران گریہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔ میں مصیبت میں مبتلا ہوں، پریشانی کا شکار ہوں، چاہتا ہوں کہ نماز کے درمیان کچھ آنسو بہا لوںیا کوئی بات میرے ذہن میں آ جائے، کوئی چیز دیکھوں اور ہنس پڑوں (اگر ایسا کروں) توکوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔

نہیں جناب، ایسا نہیں ہےنمازاحساسات کو ضبط کرنے کا مظہر ہے، حالتِ نماز میں جب آپ ایک نقطے کی سمت متوجہ ہوں تو اسی نقطے کی سمت متوجہ رہنا چاہئےنہ دائیں، نہ بائیں، نہ پیچھے، حتیٰ اپنا سر ادھر ادھر گھمانے کا بھی حق نہیں، ایک چوکس ((Alertحالت میں کھڑے ہوناچاہئے۔

کیا نماز میں ہنسا اور رویاجاسکتا ہے؟
نماز کے دوران کھانے پینے کا حکم کیاہے؟

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز عبادت کی روح سے متصادم نہیںخداکو یاد کر رہے ہیں ساتھ ساتھ ہنسی آ رہی ہے، ہنسنا چاہتے ہیںرونا آ رہا ہے، رونا چاہتے ہیںیا دورانِ نماز کوئی چیز کھانا چاہتے ہیں۔

نہیں جناب، آپ کو اس تھوڑی سی مدت کے لئے مشق کرنی چاہئے تا کہ اس دوران آپ کواپنے پیٹ پر کنٹرول ہو، اپنی ہنسی پر کنٹرول ہو، اپنے رونے پر کنٹرول ہو، اپنی بے نظمی پر کنٹرول ہویہ اجتماعی مسائل میں سے ہے، لیکن عبادت ہےکیونکہ اسلا م میں عبادت، تربیتی اسکیم کا ایک حصہ ہے، اس اصول کی رعایت کئے بغیر مقبول نہیں۔

کیا سکون کے ساتھ جم کے کھڑے ہوناچاہئے؟
بعض کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے!!! میں نماز کی حالت میں حمد اور سورے کی تلاوت کرتے ہوئے اسکی تمام شرائط کو ملحوظ رکھتا ہوں لیکن اگر اپنے جسم کو حرکت دوں، ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیرپر رکھ لوں، اپنے آپ کو دائیں بائیں جنبش دوں، تو کہا جاتاہے کہ تمہاری یہ نماز باطل ہےرکوع یا سجود میں بھی اگر اپنے آپ کو ہلاؤں جلاؤں، اپنے پیروں یا ہاتھوں کو حرکت دوں، تو کہتے ہیں کہ تمہاری یہ نماز باطل ہے(کہتے ہیں) آرام اور سکون کے ساتھ نماز پڑھویعنی جب کھڑے ہو اور اﷲ اکبر کہنا چاہو تو جب تک تمہارا بدن ساکت نہ ہو جائے اس وقت تک اﷲ اکبر نہ کہواگرہلتے ہوئے اللہ اکبر کہا تو نماز باطل ہو گیپہلے سکون سے کھڑے ہو، پھر اللہ اکبر کہواسکے بعد اگر ہلنا ہو تو ہلو لیکن ہلتے وقت کوئی حرف زبان سے ادا نہ کرو، کوئی ذکر نہ کرواگر بالفرض تمہارے پاؤں میں درد ہو، یا تمہارے کسی اور عضو میں تکلیف ہو تو خاموش ہو جاؤ، پرسکون ہو جاؤ جب ٹھہر جاؤ تو پھرذکر شروع کرو بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہواگر نمازکے درمیان تمہارے پاؤں میں تکلیف ہو، تو ٹھہر جاؤ، خاموش ہو جاؤ، اسکے بعد دوبارہ وہیں سے شروع کرو۔

(نماز) سکون اور اطمینان کے ساتھ ہونی چاہئےاس دوران تمہاری روح بھی پرسکون ہو اور تمہاراجسم بھی۔

آتے ہیں نماز کے دوسرے حصوں کی طرف۔

نماز خدا کی جانب توجہ کا نام ہےغیر خدا کی جانب توجہ شرک ہےلیکن اس کے باوجود ہم سے کہا گیا ہے کہ نماز میں کہو: اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِ اﷲِ الصَّالِحینَ (ہم پر اور تمام صالح بندگانِ خدا پر ہمارا سلام ہو) اس طرح ہم خدا کے تمام صالح اور نیک بندوں سے یکجہتی، موافقت اور صلح و صفا کا اعلان کرتے ہیں آج کی اصطلاح میں تمام اچھے لوگوں کے ساتھ مل جل کے باہمی محبت اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا اعلان کرتے ہیںحالتِ نماز میں کہتے ہیں کہ ہم کسی صالح بندۂ خدا سے دشمنی اور عداوت نہیں رکھتےکیونکہ اگر ہم کسی صالح اور نیک انسان سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہوں تو (اسکے معنی یہ ہیں کہ ہم) خود صالح اور نیک نہیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں: اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِاﷲِ الصَّالِحینَ کہنا بھی عبادت کی روح (جو بارگاہِ الٰہی میں حضورِ قلب کا اظہار ہے) سے کوئی ربط نہیں رکھتالیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کی روح اور جسم تربیتی مسائل سے گندھے ہوئے ہیں۔

نماز پروردگار سے قرب کی سواری ہونے کے ساتھ ساتھ، تربیت کا مکتب و مدرسہ بھی ہےمعنوی اور روحانی مسائل کے لحاظ سے انسان جتنا اپنے آپ کو اور دوسروں کو فراموش کرے بہتر ہے لیکن اجتماعی نکتۂ نظر سے دوسروں کو فراموش نہ کرنا لازم اور ضروری ہے۔

سورۂ حمد(۱) جو نماز کالازمی جز ہے، اس میں ہم کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُیہ نہیں کہتے کہ: ایاک اعبدو ایاک استعینایاک اعبد، اصطلاحاً متکلم واحد ہے، اس کے معنی ہیں کہ خدایا ! میں صرف تیری پرستش کرتا ہوں، صرف تجھ سے مدد لیتا ہوں، لیکن ہم یہ نہیں کہتے، بلکہ کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، یعنی خدایا ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد واستعانت طلب کرتے ہیںیعنی کہتے ہیں: خدایا ! میں تنہا نہیں ہوں، میں دوسرے تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔

اس طرح انسان عبادت کی حالت میں اسلامی معاشرے سے اپنی وابستگی اور پیوستگی کا اظہار کرتا ہے۔ کہتا ہے: خدایا میں ایک فرد نہیں ہوں، ایک نہیں ہوں، میں عضو ہوں، کل کا ایک جز اور ایک بدن کا حصہ ”ہم“ ہوں ”میں“ نہیں ہوںدنیائے اسلام میں ”میں“ نہیں پایا جاتا ”ہم“ پایا جاتا ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

۱ہر نماز میں سورۂ حمد پڑھنا ضروری ہےلا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب (بغیر سورۂ فاتحہ کے نماز درست نہیں) دوسرے سورے کی جگہ پر کسی بھی سورے کا انتخاب کیاجا سکتاہے، لیکن سورۂ حمد پڑھنا لازم ہے۔