عبادت و نماز

یآ اَیُّھَا الذَِّیْنَ اٰمَنُوا ا ذْکُرُ وااﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ہ وَّسَبِحُّوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً(۱)

ہم اپنے مذہبی مضامین میں بعض ایسی چیزیں بھی دیکھتے ہیں جو کچھ اذہان میں عبادت کے موضوع پر سوالات پیدا کرتی ہیںمثلاً نماز کے بارے میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے یا ائمۂ اطہار علیہم السلام(۲) کا فرمان ہے کہ: اَلصَّلوٰۃُ عَمودُ الدّینِ (نماز دین کا ستون ہے۔ وسائل الشیعہج ۳ص ۲۳ح ۱۳) یعنی اگر ہم دین کو ایک نصب شدہ خیمہ سمجھیں، جس میں اس کی چادر بھی ہے، طناب بھی، حلقہ بھی، زمین میں گڑی ہوئی بڑی بڑی کیلیں بھی اور ایک ستون بھی جس نے اس خیمے کو کھڑا کیا ہوا ہے، تو نماز اس نصب شدہ خیمے کے ستون کی مانند ہے۔

حدیث نبوی میں، جو خود رسول کریم سے نقل ہوئی ہے، خاص طور پر اسی بات کی بالکل اسی طرح وضاحت کی گئی ہے، جس طرح ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے۔

نماز کے بارے میں روایت ہے: اِنَّ قُبِلَتْ قِبُلَ مَاسوِیھا وَانْ رُدَّتْ رُد مَّاسواھامراد یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کی قبولیت نماز کے قبول ہونے سے مشروط ہےیعنی اگرانسان کوئی نیک عمل انجام دے لیکن نماز نہ پڑھے، یا نماز پڑھے تو سہی لیکن درست نہ پڑھے، ایسی نماز پڑھے جوبارگاہِ الٰہی میں قبول نہ کی جائے، مسترد کر دی جائے، تو ایسی صورت میں اسکے دوسرے تمام نیک اعمال بھی مسترد کر دیئے جائیں گےانسان کے تما م نیک اعمال کی قبولیت اسکی نماز کی قبولیت سے وابستہ ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے: اَلصَّلوٰۃُ قُرْبَان کُلِّ تَقِّی (نماز ہر متقی کے لئے وسیلۂ تقرب ہےنہج البلاغہکلمات قصار ۱۳۶)اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان اس وقت تک مومن سے دور اوراس سے ناراض رہتا ہے جب تک وہ اپنی نماز کی حفاظت اورپابندی کرتا ہے۔

احادیث و روایات میں کثرت کے ساتھ اس طرح کی باتیں ملتی ہیں، حتیٰ خود آیاتِ قرآنی سے اس مفہوم یعنی نماز کی غیرمعمولی اہمیت کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں اٹھنے والا ایک سوال جو گاہ بگاہ کچھ لوگوں کی زبان پر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ نماز کی اہمیت کے بارے میں اس قدر زیادہ احادیث میں سے کچھ احادیث تو ضرور جعلی ہوں گی، درست نہ ہوں گی، صحیح اور معتبر نہ ہوں گی، پیغمبر یا ائمۂ اطہار کا کلام نہ ہوں گی؟ ان احادیث کو شاید اس دور میں وضع کیا گیا ہو گا جس میں عالم اسلام میں زاہد اور عبادت گزار افراد کی کثرت ہو گئی تھی، یہ اس دور کی ساختہ ہوں گی جب (اسلامی دنیا) میں زہد و عبادت کا بازار گرم تھا، بالخصوص دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جبکہ زاہد مسلک اور عبادت میں حد سے گزر جانے والے افراد ظاہر ہوئے تھے، جو کم و بیش رہبانیت اختیار کر چکے تھے۔

۱ایمان والو ! کثرت کے ساتھ اﷲ کا ذکر کیا کرواور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔ (سورۂ احزاب ۳۳آیت ۴۱، ۴۲)

۲کیونکہ یہ چیز پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات میں بھی پائی جاتی ہے اور ائمۂ اطہار علیہم السلام کے فرمودات میں بھی موجود ہے۔