زاہد اور صوفی نما لوگ
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت سے دنیائے اسلام میں تصوف نے جنم لیا، اسی دور سے ایسے افراد پیدا ہو گئے تھے جو دیگر اسلامی فرائض و واجبات کو بھلا کر اپنی ساری طاقتیں صرف عبادت اور نماز میں صرف کرتے تھے۔
مثلاً ہم حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں ربیع بن خثیم نامی ایک شخص کوپاتے ہیں، یہ وہی معروف خواجہ ربیع ہیں جن سے منسوب ایک قبر مشہدِ مقدس میں ہےاب میںیہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ قبر انہی کی ہے یا نہیں، مجھے اس بارے میں خاطر خواہ معلومات نہیںالبتہ اس بارے میں شک نہیں کہ یہ ”زھادِ ثمانیہ“ یعنی دنیائے اسلام کے آٹھ معروف زاہدوں میں سے ایک شمارکئے جاتے ہیں۔
ربیع بن خثیم کے زہد و عبادت کا یہ عالم تھا کہ اپنی عمر کے آخری دور میں(۱) انہوں نے اپنی قبر کھودی اور وقتاً فوقتاً جا کے اس قبر میں لیٹ جایا کرتے اور اپنے آپ کو وعظ ونصیحت کرتےقبر میں لیٹ کراپنے آپ سے کہتے کہ :یہ نہ بھلا بیٹھنا کہ آخر کارتمہیں یہیں آنا ہے۔
جب انہیں اطلاع ملی کہ لوگوں نے فرزندِ رسول حسین ابن علی علیہ السلام کو شہید کردیا ہے تو انہوں نے اس اندوہناک واقعے پر اظہارِ افسوس کے طور پر صرف اتنا کہا کہ: ”وائے ہو اس امت پر جس نے اپنے پیغمبر کے فرزند کوشہید کیا۔“ اور یہ (اس بیس سال کے عرصے میں) ذکرِ الٰہی اور دعاومناجات کے سوا ان کی زبان سے ادا ہونے والا واحد جملہ تھا۔ کہتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے استغفار کیا اور پشیمان ہوئے کہ آخر کیوں میں یہ چند کلمات زبان پر لایا جو ذکرِ خدا نہ تھے۔
یہی ربیع بن خثیم، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دورِخلافت میں، حضرت کی سپاہ میں شامل تھےایک روز امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا اَمیر اَلْمُؤمِنِینَ اَنّا شَکَکْنٰا فٖی ھٰذَا الْقِتال(۲)اے امیر المومنین! ہمیں اس جنگ کے بارے میں شک ہےہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ جنگ غیر شرعی نہ ہو۔ (کیوں؟ کس وجہ سے؟ ) اس لئے کہ ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے خلاف برسرِپیکار ہیں، ہم ایسے لوگوں کے خلاف تلواریں اٹھائے ہوئے ہیں جو ہماری ہی مانند شہادتین (کلمہ) پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح نماز ادا کرتے ہیں، ہماری ہی مثل روبہ قبلہ کھڑے ہوتے ہیں۔
ربیع، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ تھے اس لئے ان سے جدا بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، لہٰذا کہتے ہیں: اے امیر المومنین! برائے کرم میرے سپرد کوئی ایسا کام کیجئے جو شک و شبہ سے پاک ہو۔ مجھے کسی ایسی جگہ، کسی ایسی ڈیوٹی پر بھیج دیجئے جس میں شک نہ ہوامیر المومنین نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا : بہت اچھا، اگر تم شک میں مبتلا ہو تو میں تمہیں ایک دوسری جگہ بھیج دیتا ہوں۔
معلوم نہیں خود انہوں نے اس جگہ جانے کی درخواست کی یا خودامیر المومنین ہی نے فیصلہ کر کے انہیں مملکتِ اسلامی کی سرحدوں میں سے ایک سرحد پر بھیج دیا، وہاں بھی وہ سپاہی کی حیثیت سے تعینات تھے، لیکن یہ ایک ایسی سرحد تھی کہ اگر اتفاق سے وہاں جنگ اور خونریزی کی نوبت آتی بھی تو دوسری طرف کفار یا بت پرست ہوتے، غیر مسلم ہوتے۔
جی ہاں، یہ تھا اس زمانے کے زہاد اور عبادت گزار افراد کا ایک نمونہ۔
ایسا زہد و عبادت کس کام کا؟ کسی کام کا نہیں۔
اس بات کی کیا اہمیت ہے؟
اسلام بصیرت کا تقاضا کرتا ہےعمل بھی طلب کرتا ہے بصیرت بھییہ شخص (خواجہ ربیع) بصیرت کے حامل نہ تھےانہوں نے معاویہ اور یزید جیسے ظالم کے دور میں زندگی بسر کیدورِ معاویہ جس میں دین خدا میں تبدیلیاں کی گئیں، اس میں بدعتیں ایجاد کی گئیںیزید جو تاریخ اسلام کے بھیانک ترین جرائم کا مرتکب ہوا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر کوششوں اور محنتوں پر پانی پھیر دینے کے درپے ہوالیکن ایسے دور میں یہ صاحب (خواجہ ربیع) گوشہ نشینی اختیار کر کے شب و روز مسلسل نماز میں مشغول رہتے ہیں، ذکرِ الٰہی کے سوا کوئی کلمہ ان کی زبان سے ادا نہیں ہوتا اور اگر حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت پر اظہارِ تاسف کے لئے ایک جملہ ان کی زبان سے نکل بھی جاتا ہے، تو بعد میں اپنے اس عمل پر پشیمان ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تو دنیوی بات ہو گئی، میں نے اس کی بجائے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، کیوں نہ کہا؟ اسکی جگہ یاحی یا قیوم کیوں نہ کہا؟ اﷲ اکبر اور لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کیوں نہ پڑھا؟
یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے موافق نہیںلایُرَی الجاھِلُ اِلاّمُفْرِ طاًاَوْ مُفَرَّطاً (جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے بڑھا ہوا اور یا ا س سے بہت پیچھےنہج البلاغہکلمات قصار ۲۶)جاہل یا تو بہت آگے بڑھ جاتا ہے یا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
۱ربیع، حضرت علی علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے زمانے تک حیات رہے، یہ تقریباً ۲۰ سال پر محیط عرصہ ہےیعنی جس زمانے میں امام حسین کو شہید کیا گیا، یہ زندہ تھےکتابوں میں لکھا ہے کہ پورے ۲۰ سال ان کا کام فقط اور فقط عبادت تھا، اور اس عرصے میں انہوں نے کوئی دنیاوی بات زبان سے ادا نہ کی۔
۲ان کے ”انا“ کہنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کئی لوگوں کے نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے۔
ایک ایسا شخص جوحضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت کے لشکر میں شامل ہولیکن علی کی دکھائی ہوئی راہ، اور علی کے فرمانِ جہاد کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو، یہ خیال اسکے ذہن میں آئے کہ آپ کا یہ فرمان، یہ حکم درست بھی ہے یا نہیں؟ اس موقع پروہ احتیاط پر عمل کرے، احتیاط پر بنا رکھےاسی طرح جیسے آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیوں مشکوک روزہ رکھیں؟ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان یہ بات بہت عام ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں ایسا روزہ رکھیں جس میں شک ہے، یہ بھی کوئی عمل ہوا؟ کیوں ایسی جگہ جنگ کریں جہاں شک ہو؟ ہمیں ایسی جگہ چلنا چاہئے جہاں رکھے جانے والے روزے میں شک نہ ہو۔