سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

مثلاً سیاسی اور سماجی رہنماؤں میں سے بعض کی روش، یعنی وہ روش جس پر وہ بھروسہ کرتے ہیں، وہ فقط طاقت ہوتی ہے۔ یعنی انہیں طاقت کے سوا کسی اورچیز پر ایمان اور اعتماد نہیں ہوتا۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ: سینگ کا ایک ٹکڑا، لمبی دُم سے بہتر ہے۔ یعنی طاقت کے سواہرچیز کو دوراٹھا پھینکو۔ وہی سیاست جس پرآج کل امریکی دنیا بھر میں عمل پیرا ہیں، اُن کا عقیدہ ہے کہ مسائل کاحل صرف اور صرف طاقت کااستعمال ہے، طاقت کے سوا دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دو۔

بعض لوگ سیاست میں اور معاملات کے حل میں ہر چیز سے بڑھ کر دھوکے اور فریب پر اعتماد کرتے ہیں۔ برطانوی انداز کی سیاست، معاویہ والی سیاست۔ اوّل الذکر یزیدی سیاست تھی۔ یزید اور معاویہ دونوں مقصد کے اعتبار سے ایک ہی تھے، لیکن یزید کی روش معاویہ کی روش سے مختلف ہے۔ یزید کی روش طاقت کا استعمال تھی لیکن معاویہ کی روش ہر چیز سے زیادہ دھوکا، فریب دہی اور چالاکی تھی۔

کسی اور شخص کا انداز ممکن ہے اکثراوقات حقیقی معنی میں اخلاق ہو، صرف دکھاوے کا اخلاق نہ ہو کیونکہ اس صورت میں یہ وہی معاویہ کی مکاری ہوجائے گی۔ سچائی، خلوص، وفا۔ سیاست میں سیرتِ علی ؑ اور سیرتِ معاویہ کے درمیان یہی فرق تھا۔ اس زمانے کے اکثر لوگ معاویہ کی سیاست کو ترجیح دیتے تھے، کہتے تھے: سیاست یعنی یہی کام جو معاویہ انجام دیتے ہیں۔(۱) وہ لوگ حضرت علی ؑ کے پاس آتے اور کہتے تھے: آپ بھی وہی روش اختیار کیوں نہیں کرتے جو معاویہ نے اختیار کی ہوئی ہے، تاکہ آپ کا کام آگے بڑھے۔ آپ کوصرف اپنے مقاصد میں پیشرفت سے غرض ہونی چاہئے، بقیہ کچھ بھی ہوا کرے۔ بسااوقات انسان کو رقم قرض لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اس سے لے کر اس کو دے دیتا ہے، کبھی وعدہ کرتا ہے، اگر وعدہ خلافی ہوتی ہے تو ہوا کرے ۔ وعدہ کر سکتا ہے، بعد میں اس پر عمل کرے نہ کرے۔آپ اپنا کام نکالنے سے غرض رکھئے، وہ زیادہ اہم ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ شاید علی ؑ ان طریقوں سے واقف نہیں ہیں، معاویہ چالاک اور ہوشیارہے، علی ؑ میں یہ چالاکیاں نہیں ہیں۔ }ایسے لوگوں کے لئے {آپ نے فرمایا:

وَ اللّٰہِ مَا مُعَاوِیَۃُ بِاَدْھیٰ مِنِّی۔

تمہیں غلط فہمی نہ رہے؟ !خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک اورہوشیار نہیں ہے۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جو فریب کاری نہیں کرتا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس سے نا واقف ہوں؟

وَ لٰکِنَّہُ یَغْدِرُ وَ یَفْجُرُ۔

وہ دھوکے اور فریب سے کام لیتا ہے، اور فسق و فجور کرتا ہے۔

وَ لَولا کَرَاھِیَۃُ الْغَدْرِ لَکُنْتُ مِنْ اَدْھَی النَّاسِ۔

اگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا دہی ناپسند نہ ہوتی، تو تم دیکھتے کہ میں ان معنوں میں جسے تم چالاکی کہتے ہو اور معاویہ کو چالاک پکارتے ہو، (میں چالاک ہوں یا نہیں؟ ) اس وقت تمہیں نظر آتا کہ چالاک کون ہے، میں یا معاویہ؟

اَلَا وَ اِنَّ کُلَّ غَدْرَۃٍ فَجْرَۃٌ وَکُلَّ فَجْرَۃٍ کَفْرَۃٌ وَ لِکُلِّ غَادِرٍلِوواءٌ یُعْرَفُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔(۲)

میں کس طرح سیاست میں دھوکے سے کام لوں، جبکہ میں جانتا ہوں کہ دھوکا، فریب اور مکاری فسق و فجور ہے اور یہ فسق و فجور کفر کی حد تک ہے اور قیامت میں ہر مکار ایک پرچم کے ساتھ محشور ہوگا! میں کسی صورت مکاری سے کام نہیں لوں گا۔

اسے کہتے ہیں اسلوب اور روش۔ کسی روش اوراسلوب میں طاقت پر بھروسہ کیا جاتا ہے، کسی میں مکاری پر، کسی روش میں تجاہل پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بے خبر ظاہر کیاجاتا ہے۔ ایک عمر رسیدہ سیاست دان تھا، چند سال پہلے مر گیا، وہ اس بات کے لئے مشہور تھا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ حقیقتاً کیااتنا ہی سیدھا تھا یا نہیں؟ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کوسادہ ظاہر کرتا تھا۔ وزیرِ اعظم تھا۔ ایک بہت بڑے عالمِ دین کو گرفتار کر لیا گیا تھا، لوگ اسکے پاس گئے کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیاہے؟ کہنے لگا: یہ معاملہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہ ملک کا وزیرِ اعظم ہے اور کہتا ہے کہ معاملہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ میں کس سے بات کروں؟

ہاں، اس نے بھی اپنے لئے ایک روش کا انتخاب کیا ہوا تھا، کہ اپنے آپ کو احمق، نادان اور ناسمجھ ظاہر کرے اور اس طرح سے بقولِ شخصے اپنا کام نکا لے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کا کام نکل جائے، اگرچہ لوگ کہیں کہ وہ احمق ہے۔ یہ بھی ایک روش اور اندازہے۔ تجاہل کاانداز، یعنی اپنے آپ کو سیدھا سادا ظاہر کرنا، احمق ظاہر کرنا، اپنے آپ کو بے خبر ظاہر کرنا۔ اور کچھ لوگ اسی روش کے ذریعے اپنا کام نکالتے ہیں۔ یعنی کاموں میں ان کی روش وقت گزاری ہوتی ہے۔ حقیقتاً وقت گزاری پریقین رکھتے ہیں۔

بعض لوگوں کی روش اکثر دوراندیشی ہوتی ہے۔ بعض لوگ اپنی روش میں دوٹوک اور قاطع ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا انداز دو ٹوک اور قاطع نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کی روش انفرادی ہوتی ہے، یعنی تنہا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ تنہا فیصلہ کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے، جہاں ان کے سامنے معاملہ بالکل واضح ہوتا ہے، وہاں بھی تنہا فیصلہ نہیں کرتے ۔ یہ بات خصوصاً سیرتِ نبیؐ میں عجب انداز سے (نظرآتی) ہے۔ مقامِ نبوت میں، ایک ایسے مقام پرجہاں اصحاب کو ان پر ایسا ایمان ہے کہ کہتے ہیں کہ گرآپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں، تو ہم سمندر میں کود پڑیں گے۔ایسے مقام پر بھی آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی روش انفرادی ہو اور معاملات میں آپ تنہا فیصلہ کریں۔ اس لئے کہ اس کا کم از کم نقصان تویہ ہے کہ تصور کیا جائے گا کہ آپ اپنے اصحاب کو اہمیت نہیں دیتے، یعنی گویا تم لوگوں کے پاس عقل ہی نہیں ہے، تم فہم وشعورسے عاری ہو، تم تو بس ایک آلۂ کار ہو، حکم صرف میں دوں گاتمہارا کام عمل کرنا ہے۔ اس روش کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کل کوجو بھی رہبر بنے وہ اسی طرح عمل کرے اور کہے کہ: رہبریت کا لازمہ یہ ہے کہ رہبر اپنی سوچ اور رائے کا اظہار کرے اور رہبر کے علاوہ جو کوئی بھی ہے وہ صرف بے ارادہ آلۂ کاربن جائے اور صرف عمل کرے۔

لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ نبوت میں}بھی {یہ نہیں کیا۔ شوریٰ تشکیل دیتے ہیں } مشاورتی اجلاس بلاتے ہیں {ساتھیو، بتاؤ ہم کیا کریں؟ }جنگِ { ”بدر“پیش آتی ہے، تو اجلاس بلاتے ہیں، }جنگِ { ”اُحد“ پیش آتی ہے، تو اجلاس تشکیل دیتے ہیں۔دشمن مدینہ کے نزدیک پہنچ چکا ہے، تمہاری نظر میں مصلحت کس بات میں ہے؟ مدینہ سے باہر نکل جائیں اور مدینہ کے باہر ان کے ساتھ جنگ کریں، یا مدینہ ہی میں رہیں اور اندرونی طور پر اپنی پوزیشن مضبوط بنائیں، دشمن کچھ عرصے ہمارا محاصرہ کرے گا، اگر کامیاب نہ ہوا تو شکست کھا کر لوٹ جائے گا۔بہت سے عمر رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندرہی رہنے میں مصلحت ہے۔ جوان جو زیادہ غیور ہوتے ہیں، اس بات سے ان کی جوانی پر ٹھیس لگی، کہنے لگے: ہم مدینہ میں بیٹھے رہیں اور وہ آکر ہمارا محاصرہ کرلیں؟ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے، ہم باہر نکلیں گے اور جس طرح بھی ہوا ان سے جنگ کریں گے۔ تاریخ لکھتی ہے کہ خود اللہ کے رسول بھی مدینہ سے باہر نکلنے کو خلافِ مصلحت سمجھتے تھے ۔ فرماتے تھے: اگر ہم مدینہ میں رہیں، تو ہماری کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، یعنی آپ کی رائے ان عمر رسیدہ اور تجربہ کار افراد کی رائے کے موافق تھی، لیکن آپ نے دیکھا کہ اصحاب کی اکثریت، جو انہی جوانوں پر مشتمل تھی، یہ کہہ رہی ہے کہ نہیں اے اللہ کے رسولؐ! ہم مدینہ سے باہر نکلیں گے، اُحد کے دامن میں جائیں گے اور وہاں اُن سے لڑیں گے۔ اجلاس ختم ہوا ۔ یکایک دیکھا کہ حضورؐ اسلحہ سے لیس باہر تشریف لائے اور فرمایا: چلو باہر چلو۔ جن لوگوں نے باہر نکلنے کی رائے دی تھی وہ آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہؐ! کیونکہ آپ نے ہم سے رائے طلب کی تھی اس لئے ہم نے یہ رائے دی تھی، لیکن اسکے باوجود ہم آپ کے تابع ہیں، اگرآپ مصلحت نہیں سمجھتے، تو ہم اپنی رائے کے برخلاف مدینہ ہی میں رہیں گے۔ آپ نے فرمایا: جب نبی اسلحہ پہن کر باہر آجائے، توپھر اس کا اسلحہ اتارنا درست نہیں ہے ۔ اب جب کہ باہر نکلنا طے پا گیاہے، تو باہر ہی چلیں گے۔

غرض اس پہلو سے، مختلف میدانوں میں ان گوناگوں اسالیب، روشوں اورطریقوں کا جائزہ لینا اچھی بات ہے ۔ یہ وہ مختصر فہرستیں تھیں جنہیں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ شاید ہر رات ہمیں یہ توفیق حاصل ہو کہ ان میں سے کسی ایک میدان میں نبی اکرؐم کی روش اور طریقۂ کارکوآپ کے سامنے بیان کرسکیں۔

۱۔آج بھی ہمارے درمیان ”سیاست“ کا لفظ فریب اور مکاری کے مترادف ہے۔ حالانکہ سیاست یعنی معاملات چلانا، اور سائس یعنی مدیر، چلانے والا۔ ہم ائمہ علیہم السلام کے بارے میں کہتے ہیں: وَ سَاسَۃُ الْعِبَادِ۔ یعنی بندوں کے سیاستمدار، بندوں کے سائس۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ لفظ دھوکا اور فریب کا مفہوم پیداکرگیا ہے۔

۲۔نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۸}خدا کی قسم !معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں ہے ۔مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا ۔اگر مجھے عیاری وغداری سے نفرت نہ ہوتی، تو میں سب لوگوں سے زیادہ ہوشیار اورزیرک ہوتا ۔لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکمِ الٰہی کی نافرمانی ہے ۔چنانچہ قیامت کے دن ہر غدار کے ہاتھوں میں ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا ۔{