عمرو عاص اور ذریعے کا استعمال
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ہم ایک داستان بیان کرتے ہیں، شاید بہت سے افرادیہ کہیں کہ اگر ہم علی ؑ کی جگہ ہوتے، توایسا نہ کرتے۔
عمرو بن العاص انتہائی چالاک انسان تھا۔ ایک روز صفین کے میدان میں حضرت علی ؑ آئے اور پکار کر بولے:اے معاویہ! کیوں اتنے مسلمانوں کا خون بہاتے ہو؟ تم خودآجاؤ، ہم ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں، جو بھی جیتے، جو بھی ہارے۔ ایک صاف بات تھی، اس کانتیجہ بھی پہلے ہی معلوم تھا۔ بسا اوقات عمرو عاص معاویہ سے کہا کرتا تھا: معاویہ! علی ؑ ٹھیک کہہ رہے ہیں، بات تو یہی ہے، تم بھی توایک بہادر مرد ہو، اسلحہ اٹھاکر علی ؑ کامقابلہ کرو۔ معاویہ جو نتائج سے اچھی طرح باخبر تھے، انہوں نے ایک دن دھوکے سے عمرو عاص کو جنگ کے لئے بھیج دیا، لیکن حضرت علی ؑ سے جنگ کے لئے نہیں۔ البتہ عمرو عاص بذاتہ ایک بہادر انسان تھا، مصراسی نے فتح کیا تھا، وہ اسلحہ پہن کر میدانِ جنگ میں آیااور مقابل طلب کیا۔
یا قادَۃَ الْکوفَۃِ مِنْ اَھْلِ الْفِتَنْ
یاقَاتِلی عُثْمانَ خَیْرِ الْمُؤْتَمَنْ
یااَیُہَاالْاشرافُ مِنْ اہْلِ الْیَمَنْ
اَضْرِبُکُمْ وَ لَا أَریٰ اَبا حَسَنْ (۱)
ساتھ ہی وہ ادھر ادھر دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کہیں حضرت امیر ؑ سے سامنا نہ ہوجائے۔ کہتا تھا: اَضْرِبُکُمْ وَ لَا أَریٰ اَباحَسَن۔ تم لوگوں پر ضرب لگاؤں گا لیکن علی ؑ نظر نہیں آرہے۔ جن مقامات کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہاں حضرت ابوالفضل عباس ؑ موجود تھے بظاہر اُن میں سے ایک مقام یہی ہے، اس وقت آپ چودہ سالہ نوجوان تھے۔ امیر المومنین ؑ آہستہ آہستہ، اس طرح سے کہ عمرو عاص کوآغاز میں پتا نہ چل سکے کہ علی ؑ ہیں، آگے بڑھتے رہے، بڑھتے رہے (لیکن آپ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ آخر وقت تک غفلت ہی میں رہے)۔ عمرو عاص کو معلوم نہ ہوسکا کہ علی ؑ ہیں، اور آپ اُس کے سر پر پہنچ گئے۔جب آپ اسکے بالکل نزدیک پہنچ گئے، تو آپ نے یہ پسند نہیں کیا کہ اب بھی وہ نہ جان پائے کہ وہ کس کے سامنے ہے، }لہٰذا آپ نے {فرمایا: اَناالْاِمامُ الْقُرَشیُّ الْمُؤْتَمَن۔ میں ہوں قرشی موتمن امام۔آپ نے اپنا تعارف کرایا: میں علی ہوں، اب عمرو عاص حواس باختہ ہوگیا، فوراً گھوڑے کا رُخ موڑا اور فرار ہونے لگا۔ امیر المومنین ؑ نے اس کا تعاقب کیا اور اس پر اپنی تلوار سے وار کیا۔وہ اچھل کر گھوڑے سے زمین پر گر گیا۔ مجھے نہیں معلوم اس نے کیا تیاری کررکھی تھی، پہلے ہی سے کیا طے کر رکھا تھا، فوراً اپنی شرمگاہ کھول دی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی ؑ ایسے انسان نہیں ہیں جو اس قسم کے انسان کا سامنا کریں۔ جیسے ہی اس نے ایسا کیا، حضرت اپنا منہ پھیرکر چلے گئے۔ بعد میں معاویہ اُسے کہتے رہتے تھے :اے عمرو عاص! تو نے اچھا ذریعہ اختیار کیا تھا، مجھے پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جس نے اتنا مقدس ذریعہ اختیار کیا ہو۔
اب جو لوگ اپنے مقاصد کے لئے ہر ذریعہ استعمال کر لیتے ہیں، وہ عمرو عاص کے قبیل سے ہیں۔ جو کوئی بھی ہوتا، وہ یہی کہتا: افسوس! دیکھو تو علی ؑ نے کیسے شخص کو کس موقع پر چھوڑ دیا؟ ٹھیک ہے، اسے ایک تلوار رسید کرتے اور اس کا کام تمام کردیتے۔ لیکن علی ؑ ایسے انسان نہیں تھے کہ عمرو عاص جیسے شخص کو قتل کرنے کے لئے بھی، جس نے اپنی نجات کے لئے اپنی شرمگاہ کو ذریعہ بنایا، حق کے راستے سے منحرف ہوجاتے۔آپؑ نے اپنا منہ موڑا اور چلے گئے۔ ہم اس قسم کی باتوں کو ائمۂ اطہار ؑ اور پیغمبر اکرؐم کی سیرت میں بہت زیادہ پاتے ہیں: آپ حضرات اپنے دشمن کے مقابل بھی اپنے بلند اخلاق اور اپنے مکارمِ اخلاق کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ حضرات ایک دوسری سطح کے لوگ تھے اور ایک دوسری سطح پر سوچا کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حق و حقیقت کا محافظ سمجھتے تھے۔
۱۔ کتاب صفین، تالیف نصر بن مزاحم۔ ص۳۷۱ معمولی فرق کے ساتھ۔