دعوت و تبلیغ میں سختی اور دُرشتی سے پرہیز
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
دعوت کو سختی اور دُرشتی کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے، بالفاظِ دیگر دعوت و تبلیغ جبر اور زبردستی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ ایک مسئلہ جو بہت پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی دعوت کی بنیاد زور اور زبردستی پر ہے؟ یعنی اسلام پرایمان کی بنیاد زبردستی پراستوارہے؟ یہ وہ بات ہے جس کا عیسائی پادریوں نے دنیا میں غیر معمولی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ انہوں نے اسلام کا نام دین شمشیر رکھ دیا ہے۔ یعنی ایسا دین جو صرف تلوار سے کام لیتا ہے۔ بے شک اسلام تلوار کا دین بھی ہے اور یہ اسلام کی خوبی ہے کمزوری نہیں۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ”اسلام تلوار کا دین ہے“ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے اپنی دعوت میں جس چیز سے استفادہ کیا وہ تلوار ہے، یعنی جیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے۔ سورۂ نحل۱۶۔آیت ۱۲۵
وہ لوگ اس طرح یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ: اُدْعُ بِالسَّیْفِ۔ }تلوار کے ذریعے دعوت دیں{اب کوئی نہیں ہے جوان سے یہ کہے کہ پھر قرآنِ مجید یہ کیوں کہتا ہے کہ: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔ اور نبی اکرؐم بھی اپنے عمل میں ایسے ہی تھے۔ یہ لوگ غیر متعلقہ باتوں کو گڈمڈ کر کے کہتے ہیں کہ اسلام اُدْعُ بِالسَّیْفِ۔ کا دین ہے، تلوار سے دعوت و تبلیغ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ حتیٰ وہ اپنی بعض کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین بھی کرتے ہیں، ایک ایسے شخص کا کارٹون بناتے ہیں جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے ہاتھ میں تلوار، اور وہ لوگوں کے سروں پر کھڑا کہہ رہاہے کہ اس قرآن پر ایمان لے آؤ ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ پادریوں نے دنیا میں یہ کام بہت کیا ہے۔
خدیجہؑ کا مال اور علی ؑ کی تلوار
آپ کی خدمت میں یہ بات بھی عرض کردوں: کبھی ہم مسلمان خود ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو نہ تاریخ سے مطابقت رکھتی ہیں اور نہ قرآنِ مجید سے، بلکہ وہ دشمنوں کی باتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ یعنی ایک ایسی بات کوجس کاایک پہلو درست ہے، ہم اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دشمن کو موقع مل جاتا ہے، جیسے بعض لوگ کہتے ہیں: اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے، خدیجہ ؑ کے مال سے اور علی ؑ کی تلوارسے، یعنی زور اور زرسے۔ اگر کوئی دین زور اور زر سے آگے بڑھا ہو، تووہ کیسا دین ہوگا؟ کیا قرآنِ مجید میں کسی مقام پرہے کہ دین اسلام نے مال اور طاقت کی بنیاد پر ترقی کی ہے؟ کیا حضرت علی علیہ السلام نے کسی مقام پر کہا ہے کہ دین نے مال اور طاقت کے بل بوتے پر ترقی کی ہے؟ بے شک خدیجہؑ کا مال مسلمانوں کے کام آیا، لیکن کیا خدیجہؑ کا مال دعوتِ اسلام میں صرف ہوا؟ یعنی خدیجہ ؑ کے پاس بہت پیسہ تھا، لوگوں کوخدیجہؑ کاپیسہ دیاگیا اور اُن سے کہا گیا کہ آؤ مسلمان ہوجاؤ؟ کیا انسان کو تاریخ میں کسی مقام پر ایسی بات نظر آتی ہے؟ یا نہیں، جن حالات میں مسلمان اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی تنگدستی اور سخت دباؤ میں تھے، ان حالات میں جنابِ خدیجہ ؑ نے اپنا مال و دولت حضورؐ کے حوالے کر دیا لیکن اس لئے نہیں کہ العیاذ باللہ پیغمبر کسی کو رشوت دیں، اور تاریخ بھی کسی جگہ کسی ایسی بات کی نشاندہی نہیں کرتی۔ وہ مال اتنازیادہ تھا بھی نہیں، اور اُس زمانے میں اتنی زیادہ دولت ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ بی بی خدیجہ ؑ کے پاس بہت دولت تھی، یہ دولت اس دولت کے مقابلے میں زیادہ تھی جو اس زمانے میں اس علاقے میں ہوا کرتی تھی، نہ کہ مثلاً تہران کے کسی ارب پتی کی دولت کے مقابلے میں کہ ہم کہیں کہ وہ کسی تہرانی سرمایہ دار کی طرح تھیں۔ مکہ ایک چھوٹا ساشہر تھا، البتہ وہاں کچھ تاجر اور سوداگرہواکرتے تھے، سرمایہ دار بھی تھے، لیکن مکہ کے سرمایہ دار مثلاً نیشاپور کے سرمایہ داروں کی طرح تھے نہ کہ تہران یا اصفہان یا مشہد وغیرہ کے سرمایہ داروں کی طرح۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر خدیجہؑ کا مال نہ ہوتا تو شایدغربت اور تنگدستی مسلمانوں کو بے بس کردیتی۔ خدیجہ ؑ کے مال نے خدمت کی لیکن رشوت دہی کے کام نہیں آیا کہ کسی کو پیسے دے کر مسلمان کیا ہو، بلکہ اس معنی میں خدمت کی کہ بھوک سے مسلمانوں کو نجات دلائی اور خدیجہ ؑ کے پیسوں سے مسلمانوں نے اپنے آپ کو بے دست وپا ہوجانے سے بچایا۔
بے شک حضرت علی علیہ السلام کی تلوار نے اسلام کی خدمت کی ہے، اور اگر اُن کی تلوار نہ ہوتی، تو اسلام کا مقدر کچھ اور ہوتا، لیکن ایسا نہیں تھا کہ علی ؑ کی تلوارجا کر کسی کے سر پر کھڑی ہوجاتی ہواور کہتی ہو کہ یاتو مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہاری گردن اڑا دوں گی، بلکہ جب دشمن کی تلوار اسلام کے خاتمے کے لئے اٹھتی تھی توایسے حالات میں علی ؑ ہی تھے جو دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جاتے تھے۔ کن مواقع پر علی ؑ کی تلوار کام آئی، یہ جاننے کے لئے اتنا ہی کافی ہوگا کہ ہم بدر، احدیاخندق کی جنگوں کو مدِ نظر رکھیں۔
جنگِ خندق میں مسلمان کفارِ قریش اور ان کے حلیف قبیلوں کے ذریعے گھیر لئے جاتے ہیں، دس ہزار مسلح افراد مدینہ کا محاصرہ کر لیتے ہیں، مسلمان معاشرتی اور اقتصادی اعتبار سے سنگین حالات کا شکارہوجاتے ہیں اور بظاہر ان کے لئے امید کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ بات یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ عمرو بن عبدود وہ خندق بھی عبور کرلیتاہے جو مسلمانوں نے اپنے گرد کھودی ہوتی ہے۔ البتہ یہ خندق مدینے کے چاروں طرف نہیں تھی، کیونکہ مدینہ کے اطراف میں اتنے پہاڑ ہیں کہ کئی مقامات پر خندق کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مدینہ کے شمال میں اسی احد کے راستے میں ایک خم دارگڑھا تھا جسے مسلمانوں نے دو پہاڑیوں کے درمیان کھودا تھا، کیونکہ قریش بھی مدینہ کے شمال کی جانب سے آئے تھے اور اس طرف سے آنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ خندق کے ایک طرف مسلمان تھے اوردوسری جانب کفار۔ عمرو بن عبدود ایک ایسا مقام تلاش کرلیتا ہے جہاں سے خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی، اس کے پاس ایک طاقتور گھوڑا تھا، خود وہ اور اس کے چند ساتھی خندق عبور کر کے اس طرف آجاتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور ہَلْ مِنْ مُبارز کی صدا بلند کرتا ہے۔ کسی مسلمان میں باہرنکلنے کی جرأت نہیں ہوتی، کیونکہ ہر ایک کو یقین تھا کہ وہ اگر اس کے سامنے گیا تو مارا جائے گا۔حضرت علی ؑ جن کی عمر اس وقت بیس برس سے کچھ زیادہ تھی، اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں: اے اللہ کے رسول ؐ! مجھے اجازت دیجئے۔ فرمایا: علی، بیٹھ جاؤ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ تمام اصحاب پر اتمامِ حجت ہوجائے، عمرو نے گھوڑے کو اِدھر اُدھر گھمایا، دوڑایا اور دوبارہ آکر کہا: ھَلْ مِنْ مُبارِزٍ؟ کسی ایک فرد نے بھی نے جواب نہ دیا۔ کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ایک غیر معمولی انسان تھا۔حضرت علی ؑ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے: اے اللہ کے رسول ؐ! میں۔ فرمایا: علی بیٹھ جاؤ۔ تیسری یاچوتھی مرتبہ میں عمرو نے ایک ایسا رجز پڑھاجس نے مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگا دی، اور سب کو تکلیف پہنچائی۔ بولا:
وَلَقَدْ بَحِحْتُ مِنَ النِّداءِ بِجَمْعِکُمْ ھَلْ مِنْ مُبارِز
وَوَقَفْتُ اِذْ جَبُنَ الْمُشَجِّعُ مَوْقِفَ الْقِرْنِِ الْمُناجِز
انَّ السَّماحَۃَ والشَّجا
عَۃَ فِی الْفَتیٰ خَیْرُ الْغَراءِز۔ (۱)
اس نے کہا : ہل من مبارز کہتے کہتے اب تو میرا حلق خشک ہوگیاہے، کیا یہاں ایک بھی مرد نہیں ہے؟ اے مسلمانو! تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ تمہارے مقتول جنت میں جاتے ہیں اور ہمارے مارے جانے والے جہنم میں، تم میں سے کوئی ایک مرد تو سامنے آئے جو یا توقتل کرکے جہنم میں بھیج دے یا قتل ہوکرجنت میں چلا جائے۔ حضرت علی ؑ اپنی جگہ سے اٹھے اور آگے بڑھے۔ حضرت عمر نے مسلمانوں کی طرف سے عذر پیش کرنے کی غرض سے کہا: یا رسول اللہ! اگر کوئی نہیں اٹھا تو حق بجانب ہے، کیونکہ یہ شخص ایک ہزار افراد کے برابر ہے، جو کوئی اس کا سامنا کرے گا وہ مارا جائے گا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:
بَرَزَ الْاِسْلامُ کُلُّہُ اِلَی الشِّرکِ کُلِّہ۔
کُلِ اسلام کُلِ کفر کے مقابل آگیا ہے۔
یہ وہ موقع ہے جب حضرت علی علیہ السلام عمرو بن عبدود کوڈھیر کرکے، اسلام کو نجات دلاتے ہیں۔
پس جب ہم کہتے ہیں کہ اگر علی ؑ کی تلوار نہ ہوتی، تو اسلام نہ ہوتا، تو اسکے معنی یہ نہیں ہوتے کہ علی ؑ کی تلوار نے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایا۔بلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ اگر اسلام کے دفاع کے لئے علی ؑ کی تلوارنہ ہوتی، تو دشمن اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکتا، اسی طرح اگر بی بی خدیجہؑ کا مال نہ ہوتا، تو فقر وافلاس مسلمانوں کونابود کردیتا۔ یہ بات کہاں اور وہ بیہودہ باتیں کہاں؟
۱۔بحار الانوار۔ ج۲۰۔ ص۲۰۳ ۲۔بحار الانوار ۔ج۲۰۔ ص۲۱۵