سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

دوسری نشست ۔ مستقل منطقِ عملی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰہ ربّ العالمین بارئ الخلائق اجمعین و الصلٰوۃ و السّلام علیٰ عبد اللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیّہ و حافظ سرّہ و مُبلّغ رسالاتہ سیّدنا و نبیّنا و مولانا ابی القاسم محمد و آلہ الطیّبین الطاہرین المعصومین۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا۔

تم میں اس کے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو بھی اللہ اور آخرت سے امیدوار ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱

اگرچہ ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ آج رات سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک ایک پہلو لے کر اس پر گفتگو کا آغاز کریں گے، لیکن ایک بات ہمارے ذہن میں آئی جس کے متعلق ہم نے ضروری سمجھا کہ اسے کل کی گفتگو کے تسلسل میں عرض کریں۔

کل ہم نے عرض کیا تھا کہ ”سیر“ اور ”سیرت“ میں فرق ہے۔ ”سیر“ یعنی عمل ۔دنیا میں ہرانسان جس طرح گفتگو کرتا ہے، اسی طرح عمل بھی انجام دیتا ہے۔ لیکن سیرت، وہ خاص انداز، اسلوب، سلیقہ اورطرزِ عمل ہے جس سے صاحبِ اسلوب، صاحبِ طرز اور صاحبِ منطق افراد اپنی ”سیر“ میں کام لیتے ہیں۔ ہر انسان کی ”سیر“ ہوتی ہے لیکن ہر انسان کی ”سیرت“ نہیں ہوتی۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ہر انسان اپنے عمل میں ایک خاص منطق کی پیروی کرتا ہو اور اپنے کردار میں کچھ اصولوں کاپابند ہو، جواُس کے عمل کا معیار ہوں۔

جو افرادکسی حد تک منطق سے واقف ہیں، اُن کے لئے یہ دو جملے عرض کرتے ہوئے آگے بڑھ جاؤں گا: منطقِ فکری میں سب لوگ سوچ بچارکرتے ہیں، لیکن سب لوگ منطقی} انداز سے{ سوچ بچار نہیں کرتے ۔ منطقی} انداز سے{ سوچنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس منطق کے عنوان سے کچھ معیار موجودہوں، جو علمِ منطق میں ثابت شدہ ہوں اور اس کا سوچ بچار انہی معیارات کی بنیاد پر ہو۔ گنتی کے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو سوچ بچارکے موقع پراس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اُن کا اندازِ فکر ان معیارات کے مطابق ہو۔ اسی طرح بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جن کا عمل منطقی ہوتا ہے، یعنی کچھ معین معیارات کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور وہ ان معیارات، اصولوں اور موقفوں سے ہرگز جدا نہیں ہوتے۔ وگرنہ اکثر لوگوں کے عمل کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور جس طرح اُن کی فکر کسی منطق کی حامل نہیں ہوتی، کبھی کچھ تو کبھی کچھ ہوتی ہے، اُسی طرح اُن کے عمل کابھی یہی حال ہوتا ہے۔

ایک اور بات (عرض کرتے ہیں) تاکہ ہماری گفتگو ادھوری نہ رہ جائے۔ اگرہم کبھی علمی اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں، توہماری کوشش ہوتی ہے کہ بہت مختصر عرض کریں، تاکہ ہمارے سننے والوں کی اکثریت کے لئے غیر موزوں نہ ہو جائے، لیکن کیونکہ ذکر نہ کرنے سے بات ادھوری رہ جاتی ہے اس لئے ذکر کردیتے ہیں۔

منطق کی تقسیم

حکمت اور فلسفے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکمت کی دو قسمیں ہیں: نظری اور عملی۔ الہٰیّات، ریاضیات (حساب، جیومیٹری، ہیئت، موسیقی) اور طبیعیات (فزکس، زولوجی، باٹنی) کو حکمتِ نظری یا فلسفۂ نظری کہتے ہیں، اور اس کے مقابلے پر اخلاق، سیاست اور تدبیرِ منزل کوحکمتِ عملی کہتے ہیں۔ منطق میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے، لیکن بات درست ہے، یعنی جس طرح فلسفے کی دو قسمیں ہیں :نظری اور عملی، اسی طرح منطق، یعنی انسان کے معیارات کی بھی دو قسمیں ہیں: نظری معیارات (وہی عام منطق) اور عملی معیارات۔ عملی معیارات وہی ہیں جنہیں ہم ”سیرت“ یا روش کہتے ہیں۔

کیا عمل میں ایک مستقل منطق رکھی جاسکتی ہے؟

ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ بعض لوگ صاحبِ منطق ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ یہاں یہ مسئلہ پیش آتا ہے(خصوصاً ممکن ہے جوانوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوجائے) کہ کیا ایک انسان ہر قسم کے زمانی اور مکانی حالات میں اپنے عمل کے اندرایک منطق کا حامل ہوسکتا ہے، ایک مستقل اورٹھوس منطق کہ وہ کبھی اپنی اس منطق سے تجاوز نہ کرے؟

ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہی بات کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص تھے جو اپنے عمل میں} ایک مخصوص{ سیرت کے مالک تھے، ایک روش اور اسلوب رکھتے تھے، ایک منطق کے حامل تھے، اور ہم مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اُن کی سیرت سے آشنا ہوں، اُن کی عملی منطق کو کشف کریں، اسلئے تاکہ اپنے عمل میں اس منطق سے استفادہ کریں۔

اب، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان اپنی عمر کی ابتدا سے آخر تک ایک ہی منطق رکھتا ہواور وہی منطق اسکے لئے اصل اوربنیاد کی حیثیت رکھتی ہو؟ یا انسان ایک مستقل منطق رکھ ہی نہیں سکتا، یعنی انسان زمانی و مکانی حالات کا تابع ہے، زندگی کی شرائط (circumstances) اور خصوصاً طبقاتی صف بندی کے تابع ہے اوراپنے سماجی اور اقتصادی حالات کے مطابق ہر موقع پر جبراً ایک خاص منطق کی پیروی کرتا ہے؟

یہ ایک اہم مسئلہ ہے جوآج کی دنیا میں زیرِ بحث ہے۔ مارکسزم اسی بنیاد پر ہے۔ مارکسزم جو اجتماعی او راقتصادی حالات اور خصوصاً طبقاتی حالات کے مقابلے میں فکر، عقیدے اور ایمان کی کسی حیثیت کا قائل نہیں، وہ کہتا ہے کہ: بنیادی طور پر ایک انسان مختلف حالات میں ایک ہی انداز سے نہیں سوچ سکتا اور ایک ہی منطق پر کاربند نہیں رہ سکتا۔انسان محل میں اور جھونپڑی میں دوعلیحدہ علیحدہ منطقیں رکھتا ہے، محل میں رہتے ہوئے ایک انداز سے سوچتا ہے، اور جھونپڑی میں رہتے ہوئے دوسرے انداز سے۔محل انسان کو ایک قسم کی منطق دیتا ہے اور جھونپڑی دوسری قسم کی۔ ایک محروم انسان، ایک ایساانسان جو ہمیشہ ظلم و ستم اور گھٹن زدہ ماحول میں رہا ہو اور انواع و اقسام کی محرومیتوں کا شکار رہا ہو اور شکار ہو، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک خاص انداز سے سوچتا ہے۔ یعنی اسکے حالاتِ زندگی اسکے لئے ایک خاص قسم کی سوچ پیدا کردیتے ہیں۔ وہی ہے جو عدالت کی بات کرتا ہے، وہی ہے جو مساوات اور برابری کی بات کرتا ہے، وہی ہے جو آزادی کی بات کرتا ہے۔ حقیقتاً بھی اس کی سوچ یہی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے حالات اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس انداز سے سوچے۔

}لیکن{ اگر اسی انسان کے حالات تبدیل ہوجائیں، یہ جھگی نشین اگر محل نشین ہو جائے، جھگی محل بن جائے، اس کے خارجی حالات تبدیل ہوجائیں، تو اس صورت میں اس کی سوچ بھی بدل جاتی ہے اوروہ کہنے لگتا ہے کہ نہیں، یہ جو باتیں کی جارہی ہیں یہ درست نہیں ہیں۔ مصلحت کے تقاضے کچھ اور ہیں، مساوات فضول بات ہے، آزادی کو بھی کچھ محدودہونا چاہئے، اور وہ عدالت کی بھی کسی اور انداز سے تفسیر کرتا ہے۔

یعنی اس کے حالاتِ زندگی تبدیل ہونے سے اس کے مفادات اور مصلحتیں بھی بدل گئیں۔کیونکہ انسان اپنے مفادات اور مصلحتوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا (لہٰذااس کی سوچ بھی تبدیل ہوجاتی ہے)۔ اس مکتب(school of thought) کے مطابق، انسانی سوچ کی سوئی اس اندازسے بنائی گئی ہے کہ وہ اپنے مفادات ہی کی سمت مڑتی ہے ۔ جب اس کے مفادات محروم طبقے کی سمت ہوتے ہیں، تویہ سوئی محروم طبقے کے مفادات کے گرد گھومتی ہے، جب اس کے مفادات تبدیل ہوتے ہیں اور وہ مالدار طبقے میں شامل ہوجاتا ہے، تو اس کی سوچ کی سوئی نہ چاہتے ہوئے بھی اور جبراً مالدار طبقے کی طرف گھوم جاتی ہے ۔

 

دینی طالبِ علم اور نماز میں اقتدا کی داستان

پرانے زمانے میں ہم کچھ باتوں کو مذاق اور طنز سمجھاکرتے تھے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے ان باتوں کے لئے بھی فلسفہ بنایا ہوا ہے، کہتے ہیں کہ یہ باتیں مذاق نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہیں۔

ایک مذاق مشہد کے دینی طلاب کیا کرتے تھے، کہتے تھے: ایک طالبِ علم کہا کرتا تھاکہ میں ہمیشہ اُس پیش نماز کی اقتدا کرتا ہوں جو مجھے پیسہ دیتاہے اور میری نمازدرست ہے۔ جو کوئی مجھے پیسے دے گا، میں اسی کی اقتدا کروں گا اور میری نماز بالکل صحیح ہوگی۔ لوگ اُس سے کہتے تھے کہ جو بھی تمہیں پیسہ دے، تم اُس کے پیچھے نماز پڑھو گے، اِس کا مطلب تویہ ہے کہ تم پیسے کی اقتدا کرتے ہو۔وہ کہتا تھا: جوکوئی مجھے پیسے نہیں دیتا ہے، توکیونکہ وہ مجھے پیسے نہیں دیتا، اس لئے میری رائے یہ ہوجاتی ہے کہ وہ فاسق ہے اور اب اگر میں اس کی اقتدا میں نماز پڑھوں، تو میری نماز باطل ہوجائے گی۔ لیکن جوں ہی وہ مجھے پیسے دیتاہے، تو رقم میرے ہاتھ میں آتے ہی، میں دیکھتا ہوں کہ میری رائے تبدیل ہوگئی ہے، اسی لمحے میرا عقیدہ یہ ہوجاتا ہے کہ وہ عادل ہے، اور اس وقت میں اسکے پیچھے جو نماز پڑھتاہوں وہ نماز بھی درست ہے۔ کیونکہ میری رائے پیسے کے تابع ہے۔ اگر وہ مجھے پیسہ دے دیتاہے، تو واقعاً میرا عقیدہ یہ ہوجاتا ہے کہ وہ عادل ہے، اوراگر نہ دے، تو واقعاًمیرا عقیدہ یہ ہوجاتا ہے کہ وہ فاسق ہے۔لہٰذا مجھے کبھی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے جو مجھے پیسے نہیں دیتا۔ کیونکہ} اسکے پیچھے {میری نماز باطل ہے۔ اور جو شخص مجھے پیسے دے گا، میں اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور میری یہ نماز درست ہو گی۔

ہم اسے ہمیشہ ایک مذاق سمجھا کرتے تھے، لیکن اب دیکھتے ہیں کہ نہیں، یہ خوددنیا میں کم و بیش ایک فلسفہ ہے کہ انسان کی فکر کی سوئی کو اس طر ح سے بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے مفادات اور مصلحتوں سے ہٹ کر سوچ ہی نہیں سکتا۔ تاریخ کا جبر ہے، اقتصاد کا جبر ہے، اس کے سوا اس کے لئے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔