سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

تبلیغِ دین کی ایک اور شرط ”تکلف سے پرہیز“ ہے۔ قرآنِ مجید میں سورۂ صادمیں ایک آیت ہے :

قُلْ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔(سورۂ ص۳۸۔ آیت ۸۶)

”میں کوئی کاروبار نہیں کر رہا، میں کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں۔“

”تکلف“ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، جو سب کے سب شایدایک ہی مفہوم کی جانب پلٹتے ہوں۔ تکلف یعنی اپنے آپ کو اذیت دینا، اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا۔ کیسے؟ کبھی خدا نخواستہ انسان ایک چیز پر اعتقاد نہیں رکھتا، اور جس چیز پر وہ عقیدہ نہیں رکھتا دوسروں کے دل میں اس پر عقیدہ پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی تکلیف اس سے بڑھ کر نہیں کہ ایک انسان خود جس چیز پر عقیدہ نہ رکھتا ہو، دوسروں کے دل میں اس پر اعتقاد پیدا کرنا چاہے۔ شاعر کہتا ہے:

ذاتِ نایافتہ از ہستی بخش
کی تواند کہ شود ہستی بخش

کہنہ ابری کہ بود ز آب تہی
کی تواند کہ کند آبدہی

پرانا بادل، جس میں خود پانی نہ ہو، وہ سرزمینوں کو سیراب کرنا چاہتا ہے! جب کوئی انسان ایسا کام کرنا چاہتا ہے، تو یہ اس کے لئے بہت دشوارہوتاہے۔

”تکلف“ کے دوسرے معنی، جو ابن مسعود نے بیان کئے ہیں اور دوسرے مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے، وہ ”بغیر علم کے کلام کرنا، ، ہیں۔ یعنی پیغمبر ؐاور امام ؑ کے سوا دنیا میں آپ کسی کو بھی لے آئیں اور اُس سے تمام مسائل کے بارے میں سوال کرنا چاہیں، آپ دیکھیں گے یقیناًوہ نہیں جانتا ہوگا۔

کہتے ہیں: ”سب چیزیں سب لوگ جانتے ہیں“۔ یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے (دائرہ کچھ محدود کر دیتے ہیں) کہ دینی مسائل کے بارے میں جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں تمہارے تمام سوالات کے جواب دوں گا؟ ہاں، پیغمبر ؐیہ دعویٰ کر سکتے ہیں، علی ؑ ایساکہہ سکتے ہیں: سَلونی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدونی۔(۱) علی ؑ کے سوا کسی بھی اور شخص سے یہ توقع رکھنابے جا ہے۔

پس مجھے اپنی حد پہچانناچاہئے۔ ممکن ہے میں دینی مسائل میں سے فلاں فلاں مسائل کو جانتا ہوں۔ٹھیک ہے جو کچھ میں جانتا ہوں، وہی مجھے لوگوں تک پہنچانا چاہئے ۔ جوچیز میں نہیں جانتااور لوگ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں، پھر بھی میں زبردستی ان کے جواب دینا چا ہوں!!۔ جو چیز آپ نہیں جانتے، اسے دوسروں کو کس طرح سمجھا سکتے ہیں؟ ابن مسعود نے کہاہے:

قُلْ مَا تَعْلَمُ، وَ لَاتَقُلْ مَا لَاتَعْلَمُ۔

جو جانتے ہو، وہ کہو اور جو نہیں جانتے، وہ نہ کہو۔

جس چیزسے آپ واقف نہیں، اگروہ آ پ سے پوچھی جائے، توآپ کو پوری صراحت کے ساتھ مردانگی سے کہنا چاہئے کہ میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی کہ: قُلْ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔}میں کوئی کاروبار نہیں کر رہا، میں کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں۔{

ابن جوزی ایک مشہور و معروف واعظ ہیں، وہ ایک منبر پرتشریف فرما تھے، جس کے تین زینے تھے۔ وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ نیچے بیٹھی ہوئی ایک عورت نے اٹھ کر اُن سے ایک مسئلہ دریافت کیا ۔ اُنہوں نے کہا: یہ میں نہیں جانتا۔ وہ عورت بڑی منہ پھٹ تھی، کہنے لگی: اگر آپ نہیں جانتے تو دوسروں سے تین زینے اوپر کیوں بیٹھے ہیں؟ اُنہوں نے کہا : میرا یہ تین زینے اوپربیٹھنا میرے جاننے اور تمہارے نہ جاننے کی مقدار کے برابر ہے، میں اپنی معلومات کی مقدار برابر تم سے اوپر بیٹھا ہوں۔میں اگر اپنے مجہولات کی مقدار کے اعتبار سے اوپر جانا چاہوں تو ایسا منبر بنانا پڑے جو فلک الافلاک تک جاپہنچے گا۔ اگر میں ان باتوں کے برابر اوپر جانا چاہوں جو میں نہیں جانتا، توایک ایسے منبر کی ضرورت ہو گی جو آسمان تک بلند ہو۔ انسان جو چیز نہیں جانتا، اُس کے متعلق اسے کہہ دینا چاہئے کہ میں نہیں جانتا۔

ہم جانتے ہیں کہ شیخ انصاریؒ شوشتر کے رہنے والے تھے۔ آپ علم اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک نابغۂ روزگارشخصیت تھے۔آج بھی علما اور فقہا اس عظیم شخص کے کلام کی باریکیوں کو سمجھنے پر فخر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب ان سے کوئی بات پوچھی جاتی اور انہیں وہ معلوم نہ ہوتی تو عمداً بلند آواز سے کہا کرتے تھے: نہیں جانتا، نہیں جانتا، نہیں جانتا۔آپ ایسا اس لئے کہتے تھے تا کہ ان کے شاگرد یہ بات سیکھ لیں کہ اگرانہیں کوئی بات معلوم نہ ہو تو شرمائیں نہیں، کہہ دیں کہ نہیں جانتا۔

ایک سال ہم اصفہان کے شہر نجف آباد گئے ہوئے تھے، رمضان کا مہینہ تھا، کیونکہ چھٹیاں تھیں اور ہمارے دوست وہاں تھے، اس لئے وہاں گئے ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک سڑک عبور کر رہا تھا کہ بیچ سڑک پر ایک دیہاتی نے مجھے روک لیا اور بولا: جنابِ عالی، ایک مسئلہ معلوم کرناہے، آپ میرے اس مسئلے کا جواب دیجئے۔ میں نے کہا :فرمائیے۔ کہنے لگا: غسلِ جنابت کا تعلق بدن سے ہے یا روح سے؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! میں اس بات کا مطلب نہیں سمجھا۔ غسلِ جنابت ہر غسل کی طرح ایک اعتبار سے انسان کی روح سے تعلق رکھتاہے، کیونکہ اس میں نیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور دوسرے اعتبار سے انسان کے بدن سے اس کا تعلق ہوتاہے، کیونکہ انسان کو اپنا بدن دھونا ہوتا ہے۔ کیاتمہاری مراد یہ ہے؟ کہنے لگا: نہیں، مجھے صحیح صحیح جواب دیجئے۔بتایئے کیا غسلِ جنابت کا تعلق بدن سے ہے یا روح سے؟ میں نے کہا: مجھے نہیں معلوم ۔ کہنے لگا: پس پھر سر پر یہ عمامہ کیوں باندھ رکھا ہے؟

وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔ میں متکلف نہیں ہوں۔ پیغمبر یہ بات کہتے ہیں۔

۱۔مجھے کھونے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو۔ (سفینۃ البحار ج ۱ ص۵۸۶)