سہ طرفہ دعوتیں
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
دیباچہ
الف: سہ طرفہ دعوتیں
دعوت، یعنی کسی گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک فردکا، دوسرے لوگوں کو کسی عقیدے اور کسی مذہب کی طرف بلانااور انہیں اس کی طرف مائل کرنا، انسانی سماج سے مخصوص مسائل میں ہے۔
ان دعوتوں کی تاثیر کا دائرہ طول و عرض اور گہرائی کے اعتبار سے یکساں نہیں، بلکہ مختلف ہے۔ اکثر ان کی تاثیر کم اور چھوٹے پہلو ؤں میں ہوتی اور ہوا کرتی ہے ۔ اسی لئے یہ تاریخی اورسماجی اعتبار سے توجہ کے لائق اور قابلِ اہمیت نہیں ہوتیں۔ لیکن بعض دعوتیں ایسی ہیں جو کم از کم کسی ایک پہلو سے کافی آگے نکل گئیں۔ مثلاً یہ دعوتیں مختصر مدت ہی کے لئے سہی لیکن ایک بڑے حلقے پر اثر انداز ہوئیں، یا کم لوگوں کے درمیان کئی صدیوں تک قائم و دائم رہیں، یا ان دعوتوں نے محدود مدت کے لئے، لوگوں کی ایک مختصر جماعت پر گہرے نقوش چھوڑے ۔ اس قسم کی دعوتیں اہمیت دیئے جانے کے قابل، تجزیہ وتحلیل کے لائق اور بسا اوقات تحسین و تعریف کی مستحق بھی ہوتی ہیں۔
جو چیز سب سے زیادہ قابلِ اہمیت اور لائقِ توجہ ہے، وہ ایسی دعوتیں ہیں جوتمام پہلوؤں میں آگے بڑھی ہوں۔انہوں نے بہت بڑے دائرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہو، مسلسل کئی صدیوں تک انتہائی شان کے ساتھ حکومت بھی کی ہو اورساتھ ساتھ انسان کی روح کی گہرائیوں میں جڑبھی پکڑی ہوئی ہو۔
اس قسم کی سہ طرفہ دعوتیں سلسلۂ انبیا سے مخصوص ہیں۔ کونسے ایسے فکری یا فلسفی مکتب کا سراغ لگایا جا سکتا ہے جس نے دنیا کے بڑے ادیان کی طرح کروڑوں افراد پر، تیس صدیوں تک، بیس صدیوں تک یا کم از کم چودہ صدیوں تک حکومت کی ہو اورلوگوں کی روح کی گہرائیوں تک پر اثر انداز ہوا ہو؟ یہی وجہ ہے کہ انبیا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حقیقی تاریخ ساز رہے ہیں۔
تاریخ انسان کے ہاتھ کی بنی ہے اور انسان ہر چیز سے بڑھ کر پیغمبروں کے ہاتھ کا بنایا اور سنوارا ہوا ہے۔ اگر انسان کو جدت طرازی اور تعمیر و ترقی کا میدان فرض کر لیا جائے، تو کوئی ہنر مند اور کوئی صنعت گر انبیا ؑ کی برابری نہیں کرسکتا۔ خالقِ کائنات نے کائنات کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے، انسان کو قوتِ ایمانی کے تابع کیا ہے اور اس قوت کی لگام انبیا ؑ کے ہاتھ میں دی ہے۔
ایمان کے علاوہ جوکچھ بھی ہے، خواہ وہ عقل ہو یا علم، ہنر ہو یا صنعت، قانون ہو یا کچھ اور یہ سب انسان کی جبلّی خواہشات کی تسکین اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لئے اس کے ہاتھ میں آلۂ کار ہیں۔ انسان ان سب کو اپنے مقاصد کے حصول اور اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے استعمال کرتا ہے اور ایک اوزار (یاآلۂ کار) کی طرح ان سے استفادہ کرتا ہے۔ صرف قوتِ ایمانی (وہ بھی وہ ایمان جو انبیا پیش کرتے ہیں) ہی وہ چیز ہے جو ایک طرف تو قرآنی تعبیر کے مطابق روح کو نئی زندگی دیتی ہے(۱) یعنی کچھ ارفع اور انسانی اور مافوقِ طبیعی اہداف کو پیش کرتے ہوئے نئی خواہشات وجود میں لاتی ہے اور اس کی پیروی میں نرم جذبات اور لطیف احساسات پیدا کرتی ہے اور آخرکار انسان کی اندرونی دنیا کو بدل کر اسے وسعت بخشتی ہے، اور دوسری طرف فطری خواہشات اور جبلّتوں کو اعتدال میں لاتی اور انہیں کنٹرول کرتی ہے۔
انسان کی علمی اور فنی طاقت کے لئے کوئی قلعہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہے، سوائے ایک قلعے کے، اور وہ ہے انسانی روح اور اس کے نفس کا قلعہ۔ پہاڑ، صحرا، سمندر، خلا، زمین، آسمان سب کی سب چیزیں انسان کی علمی اور فنی عملداری میں شامل ہیں، واحد مرکز جو اس کی عملداری سے باہر ہے وہی چیز ہے جو خود انسان سے نزدیک ترین ہے۔اس قلعے کوفتح کرنا بقولِ مولانا روم :
کارِ عقل و ہوش نیست
شیرِ باطن سُخرۂ خرگوش نیست (۲)
اتفاق سے انسان کے آرام و سکون، امن و عدالت، آزادی و مساوات او رآخرکار انسان کی خو ش بختی اورسعادت کا خطرناک ترین دشمن اسی قلعے میں چھپا اور اس کی گھات میں بیٹھا ہوا ہے۔
حدیثِ نبوی ہے:
اَعْدیٰ عَدُوِّکَ نَفْسُکَ التَّی بَیْنَ جَنْبَیْکَ۔
تمہارا سب سے بڑا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔
آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رہا ہے۔
یہ کیوں نالہ کناں ہے؟
اس میں کس پہلو سے کمی اور نقص پایا جاتاہے؟
کیا اخلاق وعادات اور ”آدمیت“ کے علاوہ کسی اور پہلو سے }اُ س میں کوئی کمی پائی جاتی{ہے؟
آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے اور سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اسکی شاگردی کا اعزازقبول کرنے کو تیار ہوں گے۔ لیکن روحانیت، اخلاق اورعادات واطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ہونے سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔ آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام تر معجزانہ ترقیوں کے باوجودآدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا، بلکہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے۔البتہ ایک فرق کے ساتھ، اور وہ یہ کہ، ماضی کے برخلاف وہ اپنی علمی، فلسفی اور ادبی طاقت کو کام میں لا کر، انسانیت کے خلاف اپنے تما م جرائم کو اخلاق، انسان دوستی، حریت پسندی اور صلح دوستی کے جھوٹے نعروں کی آڑ میں انجام دیتا ہے۔ دوٹوک سچ کی جگہ منافقت او رظاہر و باطن کی دوئی نے لے لی ہے ۔ کسی اورزمانے میں عصرِجدید کی طرح عدالت، آزادی، اخوت، انسان دوستی، امن، صلح، سچائی، امانت، صداقت، احسان اور خدمت کی بات نہیں کی گئی اوراِس دور کی طرح کسی اوردور میں ان امورکے بر خلاف عمل بھی نہیں ہوا۔ اوریوں آج کا انسان اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق بن گیا ہے کہ:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یُشْہِدُ اﷲَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَ ہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ۔ وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَ یُہْلِکَ الْحَرْثاَ وَ النَّسْلَ۔
انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں دنیاوی زندگی (کی مصلحتوں)کے بارے میں جن کی باتیں تمہیں متعجب کرتی اور بھلی محسوس ہوتی ہیں اور جو اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں، حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہیں۔اور جب وہ تمہارے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو بربادکرتے ہیں۔(سورہ بقرہ۲۔آیت۲۰۴، ۲۰۵)
آج کی دنیا میں ایک طرف تو انسان دوستی کے کان پھاڑ دینے والے دعوے سنائی دے رہے ہیں، اوردوسری طرف قوم پرستی، جو خود نفرت کی ایک قسم ہے، سے پیدا ہونے والے تعصبات، خودپسندیاں، قساوتیں اورآتش افروزیاں روزبروز زیادہ سے زیادہ ہورہی ہیں۔ یہ ان تناقضات میں سے ایک تناقض ہے جن میں آج کے انسان کی منطق مبتلا ہے۔
کیا اس سے زیادہ بے بنیاد بات اور اس سے بڑھ کر بیہودہ دعوت کوئی اورہو سکتی ہے کہ ایک طرف توہم مذہب کو، جو انسانی اقدار کی واحدبنیاد ہے، پسِ پشت ڈال دیں اور دوسری طرف انسانیت اور اخلاق کا دَم بھریں اور لفاظی کے زور پر اور خالی خولی وعظ و نصیحت کے بل پر انسان کی طبیعت کو تبدیل کرنا چاہیں؟ یہ عمل بغیر ضمانت اور بغیر سکیورٹی کے نوٹ چھاپنے کی مانند ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس صدی کا انسان ان نقائص اور کمزوریوں کو محسوس نہیں کر رہا، یا ان کے حل کی فکر میں نہیں ہے۔ نہیں! وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ انہیں محسوس کر رہا ہے۔ یہ طمطراق کے ساتھ پیش کئے جانے والے فلسفے، یہ عظیم بین الاقوامی ادارے اور ”حقوقِ انسانی“ کے بلند وبالا اعلامئے، نقائص اور کمزوریوں کے اس احساس کے سوااور کس چیز کا نتیجہ ہیں؟
لیکن بدقسمتی سے ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے“ کا وہی مشہور تجربہ ایک بار پھر دہرایا جارہا ہے۔ خرابی وہی پرانی خرابی اورمشکل وہی قدیم مشکل ہے، اور وہ ہے اجرا ونفاذ کرنے والی قوت کا فقدان۔
یہ فلسفے، یہ ادارے، یہ اعلامئے اور یہ قراردادیں محروم انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے ۔ بلکہ ان کا الٹا نتیجہ برآمد ہواہے، اورجو رسی انسان کو کنویں سے نکالنے کے لئے ڈالی گئی تھی، وہ پھندا بن کر اس کے گلے میں پڑ گئی ہے اور یہ پھنداروز بروز تنگ سے تنگ ہوتاچلا جارہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نظامِ خلقت میں جس چیز کو دوسری چیز کا محکوم خلق کیا گیاہے، اسے فلسفے، اعلامئے، مقالے اور تقریر کے ذریعے اس چیزپر حاکم نہیں بنایا جاسکتا۔ علم، فکر اور فلسفہ دنیا کی طبیعت (nature) پر تو حاکم ہے، لیکن انسانی طبیعت کا محکوم ہے۔ انسانی حقوق جب تک صرف ایک فلسفے کی شکل میں رہیں گے، طبعاً انسانی طبیعت کے لئے ان کی حیثیت ایک آلۂ کار کی سی رہے گی۔
آج ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں، جس میں انسانی طبیعت کی محکوم چیزوں نے بہت فروغ حاصل کرلیا ہے اور بہت مستحکم ہوگئی ہیں، لیکن جو چیز اس کی طبیعت پر حاکم ہے وہ کمزور رہ گئی ہے، یا اس نے کم از کم اُن دوسری چیزوں کے برابر ترقی حاصل نہیں کی ہے۔ چنانچہ انسانی طبیعت کے محکوم مسائل میں اس قدر ترقیوں کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ جو شخص جس راہ پر چل رہااور جس مقصود کا طالب ہے اس پر تیزرفتاری اور قوت کے ساتھ رواں دواں ہے لیکن اس کی خواہشات کی نوعیت، زندگی اور زندگی کے مقصد کے بارے میں اس کے اندازِ فکر اور اس کے جذبات و رجحانات اور لطیف احساسات اورآخرکار ان مسائل میں جو انسان کی طبیعت پر حاکم ہیں، کوئی معمولی سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ہے۔
انسان نے حتیٰ الامکان اپنے اردگرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے، لیکن اپنے آپ کو اور اپنے اندازِ فکر کو اور اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نہیں کرسکا یا نہیں کرنا چاہتا۔آج کے انسان کی مشکلات کی جڑاسی جگہ تلاش کرنی چاہئے۔ جیسا کہ انسان کو دین، روحانیت، ایمان اور نبی کی ضرورت کی بنیادوں کو بھی اسی مقام پر تلاش کرنا چاہئے۔
عظیم اسلامی مصلح اور مفکر، اقبال کہتے ہیں:
”انسانیت کوآج تین چیزوں کی ضرورت ہے: دنیاکی روحانی تعبیر، فرد کی انفرادی آزادی (صرف سیاسی اور اجتماعی آزادیاں کافی نہیں ہیں) اور دنیا پر اثرانداز ہونے والا ایسا بنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سوسائٹی کے تکامل کی توجیہ کرے۔“
وہ مزیدکہتے ہیں:
”اس میں شک نہیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی سسٹم بنائے ہیں، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقلِ محض کے راستے حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نہیں ہوسکتی جو صرف ذاتی الہام سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلِ محض نے نوعِ بشرپر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے، جبکہ دین ہمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشروں میں تبدیلی کا باعث رہا ہے۔ یورپ کی مثالی گری، ہرگزاس کی زندگی میں ایک زندہ عامل کی حیثیت حاصل نہیں کرسکی ہے اور اس کا نتیجہ ایک حیران پریشان ”میں“ کی صورت میں سامنے آیا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناہم آہنگ جمہوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں ہے کہ جن کا واحد کام مالداروں کے لئے غریبوں سے استفادہ کرنا ہے۔ میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی
رکاوٹ ہے۔“(۳)
اگر ہندوستان کا مرحوم وزیر اعظم نہرو، ایک مدت تک لادینیت میں زندگی بسر کرنے کے بعد، اپنی عمر کے آخری حصے میں خدا کی تلاش پر آمادہ ہوتا ہے اور اس بات کا معتقد ہوجاتا ہے کہ: ”وہ جدید تمدن جو }آج{ رواج پا رہا ہے، اس کے معنوی خلا کے مقابلے میں ہمیں کل سے زیادہ روحانی او رمعنوی جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔“اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان کی آج کی مشکلات کی اصل جڑ کو سمجھ چکا ہے اوراس نے یہ بات جان لی ہے کہ آج کے انسان کوکسی بھی دوسرے دور سے زیادہ روحانی اور معنوی آزادی کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو انسان کے اندازِ فکر اور اس کے تصورِ کائنات (جس کے تحت وہ اس کائنات اور زندگی کو بامقصد سمجھے، عبث اور فضول نہیں) میں بنیادی تبدیلی لائے بغیرپورا نہیں کیا جاسکتاہے۔
اور اگرہم ”برنارڈ شا“ کو دیکھتے ہیں، جو کہتا ہے کہ:
”میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں اور ابھی سے اس کے آثار بھی نظرآنے لگے ہیں کہ محمد کا دین مستقبل کے یورپ کے لئے قابلِ قبول ہوجائے گا۔ میرے خیال میں اگر اُن جیسا کوئی انسان جدید دنیا کافرمانروا ہوجائے، تو وہ دنیا کے مسائل اور مشکلات کے حل میں اس طرح کامیاب ہوگا کہ صلح اور سعادت کے سلسلے میں انسان کی تمنا پوری ہوجائے گی۔“
تو یہ اس لئے ہے کہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی روحانی تفسیر اور لوگوں کی روحانی آزادی کی ضرورت کے علاوہ عالمی تاثیر رکھنے والا ایسا بنیادی اصول بھی درکار ہے جو انسانی معاشرے کے کمال کی روحانی بنیاد پر توجیہ کرے اور بقولِ اقبال: ”ایسی وحی پر مبنی ہو جو زندگی کی اندرونی ترین گہرائی سے بیان ہوئی ہو اور اس کی شکل کے ظاہر کو باطنی رنگ دے۔“
قرآنِ کریم اپنی دلنشین اور خوبصورت آیات میں تین چیزوں کو انسان کی شدید ترین
ضروریات شمار کرتا ہے:
۱۔ ”اللہ“ پر ایمان۔ اس بات پر ایمان کہ ”دنیا کا ایک مالک ہے جس کا نام خدا ہے“۔ بالفاظِ دیگر دنیا کی روحانی تفسیر۔
۲۔ رسول اور اس کی رسالت پر ایمان۔ یعنی ایسی آزادی بخش اورجاندار تعلیمات پر ایمان، جو معاشرے کے کمال کی روحانی بنیاد پر تفسیر کرے اور ظاہری زندگی کو معنوی رنگ دے۔
۳۔ خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد (۴) یعنی معنوی آزادی اور آزادگی۔
ان ضروریات سے زیادہ واضح کوئی اور ضرورت نہیں مل سکے گی۔
مختلف مکاتب، مسالک، ادیان اور مذاہب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے ظہور کوچودہ سو سال گزرجانے کے باوجودآج بھی دنیا اسی قدر اس کی محتاج ہے جتنی روزِ اوّل تھی۔ جس دِن ان ضروریات کا احساس عام ہوجائے گا ( اور وہ دِن دور نہیں) اس دِن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوگا۔
آج تمام مذاہب سے ایک قسم کی دوری واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اسلام بھی اپنے اندر ایک قسم کے بحران سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اس حوالے سے کلیسا کی غلطیوں کو بھگت رہا ہے۔ }یورپ کی { نشاۃ ثانیہ کے دور میں کلیسا نے سائنس اور تمدن کے خلاف جس غلط ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، اُس نے عمومی طور پر مذہب کی حیثیت پر کاری ضرب لگائی اور سطحی افکار }رکھنے والے لوگ{ یہ سمجھنے لگے کہ علم و دانش کی مخالفت دین و مذہب کی خاصیت ہے۔ یہ رائے زیادہ عرصے قائم نہیں رہے گی۔ آج بھی جن لوگوں نے کم از کم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، اُن پرواضح ہے کہ اسلام او رکلیسا کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلام خود ایک عظیم تمدن کا بانی ہے اور اس نے اپنی پُرافتخار تاریخ میں جامعات (universities) بنائی ہیں، نابغۂ روزگار دانشور دنیا کے حوالے کئے ہیں اور علم و تمدن کی بڑی مدد کی ہے۔یہ لوگ (تاریخِ اسلام کے مطالعے سے) انسانی تمدن کے لئے اسلام کی عظیم اور فخر سے سر بلند کردینے والی خدمات کی قدر وقیمت اورآج کے یورپ پر اسلامی تمدن کے عظیم احسان سے آگاہ (ہوتے ہیں) اور انہیں معلوم (ہوجاتا ہے) کہ جو چیز اسلام کے بارے میں درست ہے، وہ اس کے بالکل برعکس ہے جو کلیسا کے بارے میں صادق آتی ہے۔ کلیسا نے نہ صرف کسی تمدن کو وجود نہیں بخشا بلکہ جس تمدن نے اسے قول کیا اس نے اُسے بھی تباہ کردیا۔ لیکن اسلام بذاتِ خود ایک شاندار تمدن وجود میں لایااور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام وہ واحد دین ہے جوخود ایک ہمہ جہت تمدن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا۔ بقولِ شیخ محمد عبدہ:
”یورپ نے جس دن سے اپنے مذہب کو چھوڑا ہے، ترقی کی ہے اور ہم نے جس دن سے اپنے مذہب کو ترک کیا ہے، زوال میں مبتلا ہوئے ہیں۔“
ان دو مذاہب کا فرق یہیں سے واضح ہوجاتا ہے۔۔یورپ نے عالمِ اسلام سے تعلق پیدا ہونے کے بعد اپنا مذہب چھوڑا، اور ان کا} اپنے مذہب کو {چھوڑنا اسلامی اقدار کی جانب ان کے جھکاؤ کی صورت میں واقع ہوا۔
۱۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ۔ اے ایمان والو اﷲ و رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں اس امر کی دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے۔سورۂ انفال۸۔ آیت ۲۴
۲۔یہ عقل و ہوش کا کام نہیں ہے۔ باطن کا یہ شیر خرگوش کا ترنوالہ نہیں ہے۔
۳۔احیائے فکرِ دینی دراسلام۔ص۲۰۳، ۲۰۴
۴۔ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ (اﷲ اور اسکے رسول پر ایمان لے آؤ، اور راہِ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرو۔ سورۂ صف۶۱۔آیت ۱۱)