سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

اس نظریئے کو توڑنے والے تاریخی نمونے

سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

یہ بھی ایک بات ہے، لیکن دعویٰ ہے، اور اس قسم کے دعووں کے درست یا غلط ہونے کو ہم کس طرح جان سکتے ہیں؟ ہمیں میدانِ عمل میں جاکرسمجھنا چاہئے۔ واقعاًجائیں، تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا ایسا ہی ہے؟

ہمیں انسانوں پر تجربہ کرنا چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعاً افرادِ بشر کا ضمیر ان کے مفادات کے سامنے ایسا ہی کھلونا ہے؟ کیا واقعاً انسان کی ساخت اسی طرح کی ہے؟ کیا انسانی ضمیر اس حد تک اسکے مفادات کا کھلونا ہے؟ کیا یہ انسان کی توہین کی انتہا نہیں ہے؟ کیا یہ نظریہ ایک سو فیصد انسان مخالف نظریہ نہیں ہے؟

آیئے چلتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ سچی بات ہے، خداکو حاضر وناظر جان کر کہتے ہیں کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ وہ لوگ جن کی کوئی منطق نہیں ہوتی، جن کا کوئی ایمان نہیں ہوتا، اُن کا معاملہ بے شک یہی ہے۔ لیکن ان متعدد دلائل کی بنیاد پر جوہمیں اس کی مخالفت میں ملتے ہیں، یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انسان لازماً اور جبراً ایسا ہی ہے۔

حضرت علی ؑ

علی الوردی نامی ایک عرب مصنف ہے، جو عراقی الاصل ہے، یونیورسٹی کا استاد تھا اور تقریباً بیس سال پہلے اس کی کچھ کتابیں شائع ہوئی تھیں، جن میں سے بعض کاترجمہ فارسی زبان میں بھی ہوا ہے۔ وہ شیعہ ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ مارکسزم کی طرف بھی مائل ہے۔اپنی کتاب میں بھی، شیعہ مذہبی رجحان کاحامل بھی ہے اور مارکسی رجحان کاحامل بھی، اورکیونکہ وہ تھوڑا بہت مذہبی رجحان بھی رکھتا ہے اس لئے بعض اوقات مارکسزم کے خلاف بھی کچھ بول دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ: سچی بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مارکس کے اس اصول کو توڑ دیا کہ ایک انسان محل اور جھونپڑی میں رہتے ہوئے ایک ہی انداز سے نہیں سوچ سکتا، وہ چاہے یا نہ چاہے اُس کی سوچ تبدیل ہوجائے گی اور اس کی سوچ کی سوئی اس کی سماجی حالت کی سمت مڑجائے گی۔ حضرت علی علیہ السلام کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کو دو مختلف معاشرتی طبقاتی حالات میں دیکھتے ہیں، اُس صفر (zero) سے نزدیک حد میں بھی، اور اُس انتہائی نقطۂ اوج پر بھی جس سے بلند تر کوئی نقطہ نہیں۔ یعنی ایک دن ہم علی ؑ کو ایک عام مزدور کی صورت دیکھتے ہیں، ایک عام اور غریب سپاہی کی صورت، ایک ایسے شخص کی صورت جو صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور مثلاً کھیتوں کو پانی دینے کے لئے، درخت کاشت کرنے کے لئے، زراعت کرنے کے لئے اور کبھی مزدوری کرنے کے لئے، محنت کرنے اور ایک مزدور کی طرح مزدوری لینے کے لئے۔

ہم علی ؑ کو ایک مزدور کی شکل میں دیکھتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک انداز سے سوچتے ہیں۔ یہی علی ؑ بعد میں جب اسلام پھیل چکا ہے (اور مسلمانوں کے پاس بہت مال و دولت آگیا ہے، اور حتیٰ اپنی خلافت کے دور میں بھی اسی طرح سوچتے ہیں)۔ البتہ جب اسلام پھیل گیا، اسلامی دنیا مالدار ہوگئی اوران کے سامنے غنائم کے ڈھیر لگنے لگے، تو اس بات کو بھی ہم قبول کرتے ہیں کہ جب اسلامی دنیا میں دولت کا سیلاب آیا تووہ اپنے ساتھ سیکڑوں مسلمانوں کا ایمان بھی بہاکر لے گیا۔ہم متعدد افراد کے بارے میں اس اثر کا انکار نہیں کرتے، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہم اسے ایک کلی اصول کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ زبیر ایک باایمان مسلمان تھے۔کیا چیز اُن کے لئے وبال بنی؟ وہ بے پناہ مال و دولت اور بے حساب غنائم جو ان کے دامن میں آکر گرے اور وہ ہزاروں گھوڑوں، ہزاروں غلاموں اور متعدد مکانات کے مالک بن گئے۔ ایک گھر مصر میں، ایک کوفہ میں اور ایک مدینہ میں۔ طلحہ کے لئے کیا چیز باعثِ وبال ہوئی؟ وہی چیزیں۔ اسی طرح دوسرے بہت سے اصحابِ پیغمبر کو بے شک یا تومقامِ خلافت نے آفت میں مبتلا کیا، عہدے ومنصب کی آرزو اور لالچ نے آفت میں مبتلا کیا، یا مال و دولت نے۔ لیکن اگر یہ اصول کلی طور پر درست ہوتا، تو تمام اصحابِ رسول کونعوذ باللہ ایک ہی راستے پر چلنا چاہئے تھا اور جتنا مال و مقام آیا تھا، وہ مال اور مقام کا سیلاب سب کو ایک ہی طرح سے بہا کر لے جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انہی لوگوں میں ایسے مضبوط ستون بھی ہیں، جنہیں یہ عظیم سیلاب ہلا بھی نہ سکا ۔

 

حضرت سلمان فارسیؓ

یہ جاہ و مقام اوریہ غیر معمولی مال و دولت نہ صرف حضرت علی ؑ کونہ ہلا سکا، بلکہ اُن کے شاگردوں کے قدم بھی نہ ڈگمگاسکا۔ کیا سلمانؓ کو ذرّہ برابر بھی تبدیل کر سکا؟ مدائن کے حاکم سلمانؓ وہی پیغمبر اکرمؐ کے دور والے سلمانؓ رہے۔ سلمانؓ جنہیں خلیفۂ وقت نے مدائن میں حاکم کے طور پر معین کیا، کیونکہ وہ ایرانی تھے اور مدائن بھی قدیم ایران کا دار الخلافہ تھا اور خلیفہ کی پالیسی کا تقاضا تھا کہ ایک ایسے مسلمان کووہاں بھیجاجائے جو خود ایرانی ہو، تاکہ اہلِ ایران نسلی اعتبار سے اجنبیت محسوس نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ہماری نسل کے علاوہ کوئی اور یہاں کیوں آیا ہے، اور دیکھ لیں کہ خود ان ہی کی نسل سے ایک سو فیصد مومن شخص آیا ہے۔ ایک ایسے مقام پر جہاں نوشیرواں حکومت کیا کرتا تھا، ایک ایسی جگہ پر جہاں اپنے ہزاروں غلاموں اور ہزاروں کنیزوں کے ساتھ خسرو پرویز حکومت کیا کرتا تھا، اس جگہ جہاں یزدگر دحاکم رہا تھا، جس کے کئی ہزار خدمتگار تھے اور دس بارہ ہزار عورتیں تو صرف اس کے حرم میں محبوس اورقید تھیں۔ ہاں یہی سلمانِ فارسیؓ جو اسلامی تربیت سے آراستہ ہیں، ان کی حکومت کی ابتدا سے اختتام تک، اُن کی زندگی کا کل اثاثہ صرف ایک پوٹلی تھی۔ یعنی جب وہ اپنا اثاثہ جمع کرنا چاہیں، تو اسے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر روانہ ہوسکتے تھے۔} یہ سب{ان فتوحات کے بعد تھا جن میں بہت زیادہ غنائم ہاتھ آئے تھے ۔

 

حضرت ابوذرؓ

علی الوردی کہتا ہے: علی ؑ کی زندگی نے مارکس کے نظریئے کو جھٹلا دیا۔ہم کہتے ہیں سلمانؓ کی زندگی نے بھی مارکس کے نظریئے کوجھٹلادیا، ابوذرؓ کی زندگی نے بھی نظریۂ مارکس کوجھٹلادیا۔ کیا ابوذرؓ خلیفۂ ثالث کے دور کے وسط تک زندہ نہ تھے؟ اُسی زمانے میں، جس میں دوسرے لوگ لاکھوں دینار اور ایک ایک لاکھ درہم خلیفہ سے انعام لیا کرتے تھے، اپنی جیبیں بھراکرتے تھے اور اپنے لئے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور گھوڑوں کے گلے او رغلاموں اور کنیزوں کے دستے جمع کیا کرتے تھے، ابوذرؓ تھے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ ان کے پاس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سوا اور کچھ نہ تھا۔خلیفۂ ثالث نے ہر کوشش کر ڈالی کہ اس زبان کو بند کردیں جو ان کے لئے سیکڑوں تلواروں سے زیادہ نقصاندہ تھی، لیکن ایسا نہ کرسکے ۔انہیں شام میں جلاوطن کردیا، زبان بند نہ ہوئی۔ بلا کر مارا پیٹا، پھر بھی زبان بند نہ ہوئی ۔ خلیفہ کا ایک غلام تھا، اُسے رقم کا تھیلا دے کر کہاکہ رقم کا یہ تھیلا ابوذر کو دے دو، اگرتم انہیں ہم سے یہ رقم لینے پر راضی کرلو، توہم تمہیں آزاد کردیں گے۔ چرب زبان غلام ابوذرؓ کے پاس آیا، ہر جتن کرڈالا، ہر منطق استعمال کرلی۔ ابوذرؓ نے کہا: پہلے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ تم مجھے کس بات کے پیسے دے رہے ہو؟ اگرمجھے میرا حصہ دینا چاہتے ہو، تو دوسروں کا حصہ کیا ہوا؟ کیا تم دوسروں کا حصہ دے ر ہے ہو، جو، اب میرا حصہ مجھے دینا چاہتے ہو؟ اور اگریہ دوسروں کا حصہ ہے، تو یہ چوری ہے، اور اگر میرا حصہ ہے، تو پھر دوسروں کا حصہ کہاں ہے؟ اگر دوسروں کا حق دے ر ہے ہو، تو میرا حق بھی دے دو، میں لے لوں گا۔ لیکن صرف مجھے کیوں دینا چاہتے ہو؟ اس نے ہر کوشش کر دیکھی لیکن ابوذرؓ راضی نہ ہوئے۔ آخر میں اس غلام نے ایک دینی اور مذہبی راستہ اختیار کیااور بولا: اے ابوذرؓ! کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ ایک غلام آزاد ہوجائے؟ بولے: کیوں نہیں، میرا دل بہت چاہتا ہے۔ کہنے لگا: میں خلیفہ کا غلام ہوں، خلیفہ نے مجھ سے طے کیا ہے کہ اگر آپ یہ رقم لے لیں گے، تو وہ مجھے آزاد کردے گا۔ صرف میری آزادی کی خاطر یہ رقم لے لیجئے۔ یہ پیسے لے لیجئے، اپنے لئے نہیں، بلکہ اس لئے کہ میں آزاد ہوجاؤں۔ بولے: میرا بہت دل چاہتا ہے کہ تم آزاد ہوجاؤ لیکن مجھے انتہائی افسوس ہے کہ اگر میں نے یہ پیسے لے لئے، تو تم توآزاد ہوجاؤ گے لیکن میں خلیفہ کا غلام بن جاؤں گا۔

 

پیغمبر اکرم ؐ

علی الوردی کا کہنا ہے کہ: حضرت علی علیہ السلام کی عملی زندگی نے اس نظریئے کو جھوٹا ثابت کیا ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ: نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی زندگی نے اس نظریئے کوجھٹلایا ہے، بلکہ حضرت علی ؑ سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نے اسے کھوکھلا ثابت کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب کے پیغمبر کو دیکھئے اور روزِ وفات والے پیغمبر کو دیکھئے۔ شعبِ ابی طالب کے پیغمبر، آپ ہیں اورآپ کے اصحاب کی ایک قلیل تعداد جو ایک درّے میں محبوس ہیں، پانی، خوراک اور دوسری ضروریات ان تک نہیں پہنچتیں۔ یہ ایام ان کے لئے اتنے سخت ہیں کہ مکہ میں اپنے اسلام کو مخفی رکھنے والے کچھ مسلمانوں نے شعب میں موجود بعض مسلمانوں، بالخصوص حضرت علی ؑ کے ساتھ (رابطہ قائم کیا ہوا تھا اوروہ) رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر جاتے اور کچھ خوراک لے کر آیا کرتے تھے اور ہر مسلمان بس صرف بھوک مٹانے کے لئے تھوڑی تھوڑی غذاکھایا کرتا تھا۔ یہی پیغمبرؐ بعد میں سن دس ہجری میں پہنچتے ہیں۔ سن دس ہجری میں دنیا کی حکومتیں ان کو اہمیت دینے لگتی ہیں، اور اُن سے خطرہ محسوس کرتی ہیں، نہ صرف پورا جزیرۃ العرب ان کے زیرِ اثر ہوتاہے اور وہ ایک طاقت بن جاتے ہیں، بلکہ دنیا کے سیاستدان یہ پیش گوئی کر تے ہیں کہ یہ قدرت عنقریب جزیرۃ العرب سے باہر نکل کر اُن کی طرف رُخ کرے گی۔ اس حال میں بھی، سن دس ہجری کے پیغمبرؐ، بعثت کے دسویں سال کے پیغمبرؐسے، جب وہ شعبِ ابی طالب سے باہرآئے تھے، نفسیاتی لحاظ سے ذرّہ برابرمختلف نہ تھے۔

تقریباًسن دس ہجری میں جبکہ بہت زیادہ آمدورفت تھی، اور پیغمبر اکرؐم کی شہرت ہر جگہ پھیل چکی تھی، ایک عرب بدوآپ کی خدمت میں حاضر ہوتاہے۔اور جب وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے، تواُن چیزوں کی بناپر جواُس نے سن رکھی تھیں، اُس پر پیغمبر اسلام کا رعب طاری ہوجاتا ہے، اسکی زبان میں لکنت آجاتی ہے۔آنحضرت کو یہ صورتحال ناگوار گزرتی ہے ۔مجھے دیکھ کر اسکی زبان میں لکنت آگئی؟ آپ فوراً اسے اپنی بانہوں میں لے لیتے ہیں اور اسے اسقدر بھینچتے ہیں کہ اُن کا بدن اِس کے بدن سے مس ہوجائے۔}اور فرماتے ہیں{ بھائی! ھَوِّنْ عَلَیْکَ۔ اطمینان سے بات کرو۔ کس بات کا ڈرہے؟ جیسا تم سمجھ رہے ہو، میں اُن جابروں میں سے نہیں ہوں۔ لَسْتُ بِمَلَکٍ۔ میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو اپنے ہاتھوں سے بکری کا دودھ دوہتی تھی۔ میں تمہارے بھائی کی طرح ہوں۔ جو تمہارا دل چاہے بولو۔

کیا یہ حالت، یہ قدرت، یہ اثرونفوذ، یہ وسعت اور یہ وسائل پیغمبر کی روح میں ذرّہ برابر تبدیلی لاسکے؟ ہرگز نہیں! ہم نے عرض کیا کہ صرف پیغمبرؐہی ایسے نہ تھے، پیغمبرؐ اور علی ؑ کا مقام تو ان باتوں سے کہیں بڑھ کر ہے، ہمیں سلمان، ابوذر، عمار، اویس قرنی جیسے افراداور ان جیسے سیکڑوں لوگوں کو دیکھنا چاہئے۔

 

شیخ انصاری ؒ

اورآگے بڑھتے ہیں، چلتے ہیں شیخ انصاریؒ جیسے لوگوں کی طرف ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جو تمام شیعوں کا مرجعِ کل بن جاتا ہے۔ جس وقت اُن کا انتقال ہوتا ہے، اُس وقت اُن کی حالت اُس حالت سے بالکل مختلف نہ تھی جب وہ دزفول کے ایک غریب طالبِ علم کی حیثیت سے نجف اشرف گئے تھے۔ جب اُن کے گھر جا کر دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ غریب ترین انسان کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ایک شخص اُن سے کہتاہے کہ جناب بہت بڑی بات ہے، اتنی شرعی رقوم آپ کے پاس آتی ہیں اورآپ اُنہیں ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ آپ اُس سے کہتے ہیں: اس میں کیا بڑی بات ہے؟ لوگوں نے کہا: اس سے بڑھ کر اور کیا بڑی بات ہوگی! وہ کہتے ہیں:میں زیادہ سے زیادہ جوکام کرتا ہوں وہ کاشان کے گدھا گاڑی والوں کا سا ہے جو اصفہان آتے جاتے ہیں۔ کاشان کے ان گدھا گاڑی والوں کو رقم دی جاتی ہے کہ جاؤ اصفہان اور وہاں سے فلاں چیز خرید کر کاشان لے آؤ، کیا تم نے کبھی انہیں لوگوں کے مال میں خیانت کرتے دیکھا ہے؟ میری حیثیت ایک امین کی سی ہے، مجھے (لوگوں کے مال کو ہاتھ لگانے کا) حق حاصل نہیں ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، جو تمہیں بڑی محسوس ہو رہی ہے۔ مرجعیت کا اتنا بڑا مقام، اس عظیم انسان کی روح پرذرّہ برابراثر انداز نہیں ہو سکا۔

پس ہم اس مسئلے کو کہاں سے پتا کر سکتے ہیں کہ انسان عملی منطق میں ایک مستقل اور یکساں منطق کامالک ہو سکتا ہے اوراس میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی ۔ہمیں چاہئے کہ ہم لوگوں کا مطالعہ کریں۔ مارکس غلطی کامرتکب ہوا ہے، اس کے مطالعات ناقص تھے۔ اس نے مروان بن حکم، طلحہ و زبیر (جن کا تعلق تاریخ اسلام سے ہے) اور دنیا میں رہنے والے ان جیسے ہزاروں لوگوں کا مطالعہ کیا تھا۔اس نے بااصول لوگوں کا مطالعہ کئے بغیر اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ اگراُس نے بااصول لوگوں کا مطالعہ کیا ہوتا، تو ہرگز ایسی باتیں نہ کرتا۔

پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں}ہر حال میں{ ایک ہی سیرت اور عملی منطق رکھنے والے افرادموجودہیں اور ایسے افراد کے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوسرفہرست مقام حاصل ہے۔ ان افراد کے پاس کچھ معیارات اور پیمانے ہوتے ہیں، جن کی وہ کسی صورت خلاف ورزی نہیں کرتے۔یعنی معاشرتی حالت، اقتصادی صورتحال اور طبقاتی مقام ان اصولوں کوان سے چھیننے پر قادر نہیں ہوتے ۔