پیغمبر اسلاؐم کی مختصر سوانح حیات
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اور آنحضور ؐکے چند کلمات کا تجزیہ
لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسولٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَحِیْمٌ۔
یقیناًتمہارے پاس وہ پیغمبر آیا، جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں فرض رکھتا ہے اور مومنین کے دل پر شفیق اور مہربان ہے۔ سورۂ توبہ۹۔آیت ۱۲۸
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسی طرح چھٹے امام، امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے۔ آج ہم شیعوں کے لئے دوہری خوشی کا دن ہے، کیونکہ دو عیدیں ہیں، اس دن میں دو عظیم ولادتیں واقع ہوئی ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے آپ سے ایک شکوہ ضرور کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے آج کادن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن ہے اور شیعہ مسلمان ہونے کے اعتبار سے آج امام جعفرصادق علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے، لیکن آج کے دن ہم شیعہ جن احساسات کا اظہارکرتے ہیں، نہ وہ عیسائیوں کی جانب سے حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے دن کئے جانے والے جذبات کے اظہار کی برابری کرتے ہیں (بلکہ موازنے کے قابل ہی نہیں ہیں) اور نہ اس دن ولادتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اہلِ تسنن کی جانب سے کئے جانے والے جذبات کے اظہارکی برابری کرتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ عیسائی دنیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر، کئی دن باقاعدہ طور پر اس طرح عید مناتی ہے کہ اس کے اثرات ہم مسلمانوں کے اندر بھی ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور دنیائے تسنن بھی جوطویل ترین عید مناتے ہیں، جو ہم ایرانیوں کی عیدِ نوروز کے برابر ہوجاتی ہے، وہ یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہے، جس میں چند دن تعطیل کا اعلان کرتے ہیں اور کئی دن عید مناتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ ۱۲ ربیع الاوّل کورسولِ اکرؐم کی ولادت کا دن مانتے ہیں، یعنی ۱۷ ربیع الاوّل، جس دن ہم عید مناتے ہیں، اُس سے پانچ دن پہلے ۔ لیکن ان کی عید ۱۲ ربیع الاوّل سے شروع ہوتی ہے اور بظاہر ۱۷ ربیع الاوّل کے بعد پانچ دن تک جاری رہتی ہے۔ جو چیز ہمارے یہاں عیدِ نوروز یعنی ایک طویل اور عمومی عید ہے، وہ اہلِ تسنن کے یہاں یہی ولادتِ رسولِ خداؐ کے ایام ہیں۔ لیکن ہم شیعوں کے یہاں(جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ گلہ کرنا چاہئے) رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور ہمارے بہت سے لوگوں کواس دن کے آنے اور چلے جانے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگرعام تعطیل، بینکوں کی چھٹی اور دفتروں میں کام کرنے والوں کا کام پر نہ جانا نہ ہوتا، تو ہمارے معاشرے میں معمولی سا احساس بھی ظاہر نہ ہوتا، جب کہ یہ دوہری عید ہے۔ اب ہم اس حالت کو کیا نام دیں، ہمیں نہیں معلوم ۔
آج ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بارے میں ایک انتہائی مختصر گفتگوکرنا چاہتے ہیں، جو اسکول کے طلبا اوریونیورسٹی کے بعض ایسے طالبِ علموں کے لئے مفید ہو جو اس بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ بعد ازآں ہم اپنی گفتگو کاکچھ حصہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض کلمات اورآنحضرتؐ کے بعض فرامین کی تشریح کے لئے مختص کریں گے۔
آنحضرؐت کی ولادت اور بچپن کا دور
شیعہ اور سنی دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ربیع الاوّل کے مہینے میں ہوئی ہے، اگرچہ اہلِ سنت زیادہ تر بارہ ربیع الاوّل کے قائل ہیں اورکتاب کافی کے مؤلف شیخ کلینیؒ کے سوا جو بارہ ربیع الاوّل ہی کو نبی کریمؐ کا روزِ ولادت سمجھتے ہیں زیادہ تر شیعہ آنحضرؐت کا روزِ ولادت سترہ ربیع الاوّل قرار دیتے ہیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سال کے کس موسم میں ہوئی؟
موسمِ بہار میں۔ سیرۂ حلبیہ میں تحریر ہے کہ : وُلِدَ فی فَصْلِ الرَّبیعِ۔ آپ کی ولادت موسم بہار میں ہوئی ۔ موجودہ دور کے بعض دانشوروں نے یہ جاننے کے لئے کہ رسولِ کریمؐ کی ولادت شمسی کیلنڈر کے حساب سے کس دن واقع ہوئی تھی، حساب لگایا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اُس سال کی بارہ ربیع الاوّل} عیسویں کیلنڈر کی{۲۰ اپریل بنتی ہے اور ۲۰ اپریل (ایرانی کیلنڈر کے مطابق) ۳۱ فروردین ہے، اور ظاہر ہے کہ ۱۷ ربیع الاوّل (ایرانی کیلنڈر) کے مطابق۵ اردیبھشت ہوگی۔ لہٰذا قدرِ یقینی یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موسمِ بہار میں دنیا میں تشریف لائے ۔ اب چاہے یہ ۳۱ فروردین ہویا ۵ اردیبھشت۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہفتے کے کس دن واقع ہوئی؟
شیعوں کا اعتقاد ہے کہ آپ جمعے کے دن دنیا میں تشریف لائے، اہلِ سنت نے بیشترپیر کا دن کہا ہے۔
آپ دن رات کے کس حصے میں متولد ہوئے؟
شاید اس بارے میں سب متفق ہوں کہ آپ نے طلوعِ فجر کے بعددنیا میں قدم رکھا، طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخِ حیات انتہائی عجیب ہے۔ آپ کے والدِ بزرگوار عبد اللہ بن عبد المطلب تھے۔ حضرت عبداللہ بہت سمجھدار اور لائق جوان تھے، انہیں ذبح کئے جانے کی نذر کے واقعے کو یہیں چھوڑ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ اپنے دورِ جوانی میں حضرت عبد اللہ پورے مکہ میں منفرد اور ممتاز تھے ۔انتہائی خوبصورت، انتہائی سمجھدار، انتہائی مہذب، انتہائی عقلمند کہ مکہ کی دوشیزائیں ان کی رفیقِ حیات بننے کی آرزوکیا کرتی تھیں۔ انہوں نے آمنہ بنتِ وہب سے شادی کی جو ان کے قریبی رشتے داروں میں سے تھیں۔ان کی شادی کو چالیس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مکہ سے شام جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ بظاہران کا یہ سفرایک تجارتی سفر تھا۔ واپسی پر وہ مدینہ تشریف لے جاتے ہیں، جہاں اُن کے ننھیالی رشتے داررہا کرتے تھے، اور پھروہیں مدینہ میں اُن کی وفات ہوجاتی ہے۔
حضرت عبداللہ کی وفات کے وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے شکم میں تھے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ یتیم تھے، یعنی آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا۔
اُس دور کے دستور کے مطابق عرب اپنے بچوں کی تربیت کے لئے انہیں کسی دایہ کے سپرد کرنا ضروری سمجھتے تھے، تاکہ وہ انہیں اپنے ساتھ دیہات میں لے جائے اور وہاں انہیں دودھ پلائے۔ حلیمۂ سعدیہ (جن کا تعلق بنی سعد سے تھا) دیہات سے مدینہ آتی ہیں، یہ بھی ایک تفصیلی داستان ہے، اور یہ بچہ اُن کے حصے میں آتا ہے۔
خود حلیمہ اور اُن کے شوہر کئی قصے نقل کرتے ہیں، اُن کے بقول جس روز سے اس بچے نے ہمارے گھرمیں قدم رکھا ہے، ایسے ہے جیسے ہمارے یہاں زمین اورآسمان سے برکتوں کی برسات ہورہی ہو۔
یہ بچہ چار سال تک اپنی ماں، اپنے دادا، اپنے رشتے داروں اور مکہ سے دوردیہات میں بادیہ نشینوں کے درمیان، دایہ کے پاس زندگی بسرکرتا ہے۔ چار سال کی عمر میں اسے دایہ سے لے لیا جاتا ہے۔اُس کی مہربان ماں اُسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ۔
اب آپ ذراحضرت آمنہ کی حالت کا تصور کیجئے، وہ عورت جو ایک محبوب اور اصطلاحاً آئیڈیل شوہرکی شریکِ حیات تھی، جس دن ان کی شادی ہوئی ہے، اس دن یہ عظیم افتخار نصیب ہونے پر وہ مکہ کی تمام دوشیزاؤں کے سامنے فخر محسوس کرتی ہوں گی۔ ابھی اُن کابچہ اُن کے شکم ہی میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو کھو بیٹھتی ہیں۔ ایک ایسی عورت جو اپنے شوہر سے بے انتہا محبت کرتی ہو، ظاہر ہے اُس کے لئے اُس کابچہ اُس کے عزیز اورمحبوب شوہر کی ایک عظیم یادگار کی حیثیت رکھتاہے۔ خصوصاً اگر یہ بچہ بیٹا ہو۔حضرت آمنہ حضرت عبداللہ کے بارے میں اپنی تمام آرزؤں کواس کم سن بچے میں مجسم دیکھتی ہیں۔ وہ پھر شادی بھی نہیں کرتی ہیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب، حضرت آمنہ کے علاوہ اس کم سن بچے کے بھی کفیل ہیں۔حضرت آمنہ کے عزیز ورشتے دار مدینہ میں رہائش پذیر تھے۔حضرت عبدالمطلب کی اجازت سے حضرت آمنہ اپنے اعزہ سے ملاقات کے لئے اپنے بچے کے ہمراہ مدینہ جاتی ہیں۔آپ اپنی ایک کنیز امِ ایمن کے ساتھ ایک قافلے کے ہمراہ روانہ ہوتی ہیں۔ مدینہ پہنچتی ہیں، عزیزوں سے ملاقات کرتی ہیں۔ ( پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بچپن میں جو سفر کیا، وہ یہی سفر تھا، جس میں آپ پانچ برس کی عمر میں مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ اور اُن کی کنیز کے ہمراہ واپس تشریف لارہے تھے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ”ابواء“ نامی مقام پر، جوآج بھی موجود ہے، اُن کی والدۂ گرامی علیل ہوجاتی ہیں، آہستہ آہستہ اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ اُن میں ہلنے جلنے کی سکت بھی نہیں رہتی، اور آخر کار وہیں اُن کی وفات ہوجاتی ہے ۔
یہ ننھا بچہ اپنی آنکھوں سے، دورانِ سفر اپنی ماں کی موت واقع ہوتے دیکھتا ہے۔حضرت آمنہ کو وہیں دفن کردیتے ہیں، اوررسولِ مقبولؐ امِ ایمن، اس انتہائی باوفا کنیز (امِ ایمن کو بعد میں آزاد کردیا گیا تھا اور وہ اپنی آخرعمر تک رسولِ خداؐ، حضرت علی ؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسن ؑ اورامام حسین ؑ کی خدمت میں مشغول رہتی ہیں۔حضرت زینب ؑ نے وہ مشہور روایت انہی امِ ایمن سے روایت کی ہے اورآپ اہلِ بیتِ رسول ؐکے یہاں ایک جلیل القدر سن رسیدہ خاتون کے بطور رہی ہیں) کے ساتھ مکہ واپس آجاتے ہیں۔
اس واقعے پر تقریباً پچاس سال گزر چکے تھے، ہجرت کا قریب قریب تیسرا سال تھا۔ پیغمبر اکرؐم کا ایک سفر کے دوران اسی ”ابواء“کے مقام سے گزر ہوا۔آپ سواری سے نیچے اتر گئے۔ اصحاب نے دیکھا کہ آپ کسی سے کچھ کہے بغیر ایک طرف روانہ ہوگئے ہیں۔ بعض لوگ آپ کے پیچھے ہولئے، تاکہ دیکھیں کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں۔انہوں نے دیکھا کہ آپ بہت دور تک چلنے کے بعد ایک خاص مقام پر پہنچے، وہاں بیٹھ گئے اور دعا، حمداور قل ہو اللہ وغیرہ پڑھنے لگے۔ پھر ان لوگوں نے دیکھا کہ آپ گہری سوچ میں ڈوب گئے ہیں اور آپ کی پوری توجہ کا مرکززمین کاوہی خاص مقام ہے ۔اس حال میں آپ زیرِ لب کچھ پڑھ رہے ہیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں۔ اصحاب نے پوچھا:اے اللہ کے رسولؐ!آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: یہاں میری ماں کی قبر ہے، پچاس سال پہلے، میں نے اپنی والدہ کو اسی مقام پر دفن کیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ کے انتقال کے بعد، آنحضرتؐ اپنے دادا عبدالمطلب کی تمام تر توجہ کا مرکزبن گئے ۔ عبدالمطلب اپنے بیٹے عبداللہ اور اپنی بہو آمنہ کے انتقال کے بعد اس بچے کوغیر معمولی طور پر عزیز رکھنے لگے تھے، اور اپنے بیٹوں سے کہا کرتے تھے کہ وہ دوسروں سے بہت مختلف ہے، خدا کی طرف سے اس کا ایک مستقبل ہے، جس کا تم لوگوں کو علم نہیں ہے۔
جب حضرت عبدالمطلب دنیا سے رخصت ہونے لگے، تو حضرت ابوطالب نے( جو ان کے بڑے بیٹے اور تمام بیٹوں سے زیادہ بزرگ اور معزز شخصیت کے مالک تھے) دیکھا کہ ان کے والد ایک اضطرابی کیفیت کاشکار ہیں۔ اسی حالت میں انہوں نے حضرت ابوطالب سے فرمایا: مجھے موت کی کوئی گھبراہٹ نہیں ہے، بس ایک چیز مجھے پریشان کئے ہوئے ہے، اور وہ اس بچے کا مستقبل ہے ۔میں فکر مند ہوں کہ اس بچے کو کس کے سپرد کروں؟ کیا تم اس کی ذمے داری اٹھاؤ گے؟ کیا تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو کہ اس بچے کی کفالت کی ذمے داری لوگے؟ عرض کیا: ہاں باباجان! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عبدالمطلب کے بعد امیر المومنین حضرت علی ؑ کے والد، حضرت ابوطالب پیغمبر اکرؐم کی نگہداشت اورپرورش کے ذمے دار بنے۔
آنحضرتؐ کے سفر
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربستان سے باہر صرف دو سفر کئے ہیں، یہ دونوں ہی سفر عہدِ رسالت سے پہلے اورشام کے سفر تھے۔ ایک سفر بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ کیا تھا، اور دوسرا پچیس برس کی عمر میں ایک بیوہ خدیجہ نامی خاتون کے تجارتی نمائندے کی حیثیت سے، جوآپ سے پندرہ برس بڑی تھیں اورجن سے بعد میں آپ نے شادی کرلی تھی۔
البتہ رسالت کے بعد آپ نے خودعربستان کے اندرکئی سفر کئے ہیں، مثلاً آپ طائف گئے، خیبر گئے، جومکہ کے شمال میں ساٹھ فرسخ(۱) کے فاصلے پر واقع ہے، تبوک گئے، جو تقریباً شام کی سرحد پر واقع اورمدینہ سے سو فرسخ کے فاصلے پر ہے، لیکن عہدِ رسالت میں آپ کبھی جزیرۃ العرب سے باہرتشریف نہیں لے گئے ۔
آنحضرتؐ کے پیشے
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کون کون سے پیشے اختیار کئے؟ چرواہے اور تجارت کے سوا ہمیں پیغمبر اسلامؐ کے کسی اور پیشے کا علم نہیں۔ متعدد انبیا ؑ اپنی رسالت سے پہلے چرواہے رہے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام (اب اس میں خدا کی کیا حکمت ہے، ہمیں درست طور پر معلوم نہیں) قدرِ یقینی بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرؐم بھی چرواہے رہے ہیں۔آپ بھیڑوں کو اپنے ساتھ صحرالے جاتے، ان کی حفاظت کرتے اور انہیں چراکر واپس لاتے تھے۔
آپ نے تجارت بھی کی ہے۔ باوجودیہ کہ آپ کایہ سفر، آپ کا پہلا ہی تجارتی سفر تھا (آپ صرف ایک مرتبہ بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا کے ہمراہ سفر پرگئے تھے) لیکن اس سفر میں آپ نے ایسی مہارت کامظاہرہ کیا کہ سب لوگوں کے لئے حیرانگی کا سبب بنا۔
آنحضرؐت کا ماضی
رسالت سے پہلے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماضی کیا رہا تھا؟
دنیا کے تمام انبیامیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وہ واحد نبی ہیں جن کی واضح تاریخ موجود ہے۔ پیغمبر اکرؐم کا ایک بہت واضح ماضی یہ ہے کہ آپ اُمی تھے، یعنی آپ کسی مدرسے میں نہیں گئے تھے اور نہ کسی سے کچھ پڑھا تھا۔قرآنِ مجید میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے۔ اس علاقے کے اکثر لوگ، اس زمانے میں اُمی تھے۔
ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ، بعثت سے قبل، پورے چالیس برس تک، ایک ایسے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے باوجود جہاں صرف اور صرف بت پرستی کا ماحول تھا، آپ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا۔ البتہ }اس دور میں{بہت کم تعداد میں لوگوں کا ایک ایسا گروہ موجود تھا جو ”حنفا“کے نام سے معروف تھا، یہ گروہ بھی بتوں کو سجدہ کرنے سے پرہیز کرتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ اپنی زندگی کی ابتدا سے آخر تک}ان لوگوں نے کسی بت کو سجدہ نہ کیا ہو{، بلکہ یہ سوچ بعد میں ان کے ذہن میں پیدا ہوتی تھی، کہ یہ ایک غلط کام ہے، اور پھروہ بتوں کو سجدہ کرنے سے پرہیز کرنے لگتے تھے ۔ ان میں سے بعض لوگ عیسائی ہوگئے۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پوری زندگی میں، اپنے بچپنے سے آخر عمر تک، نہ کبھی کسی بت کوخاطر میں لائے، اور نہ ہی کسی بت کو سجدہ کیا۔ یہ ٗ آپ کا ایک خاص امتیاز ہے۔ اگر آپ نے کسی بت کے سامنے معمولی سا بھی سر جھکایا ہوتا، تو جس دور میں آپ بت پرستی کے خلاف برسرِ پیکار تھے، اُس زمانے میں لوگ آپ سے کہتے کہ: کل تک تم خودیہاں آکر ”لات“اور ”ھُبل“کو سجدے کیا کرتے تھے ۔
آپ نے نہ صرف کسی بت کو سجدہ نہیں کیا، بلکہ مکہ میں، جوعیش ونوش اور گناہ و بدکاریوں سے بھرپور شہر تھا، آپ اپنے بچپن اور جوانی کے پورے دورمیں کبھی ان برائیوں سے آلودہ نہ ہوئے ۔
مکہ کودو خصوصیات حاصل تھیں: ایک یہ کہ مکہ عرب میں بت پرستی کا مرکز تھا اور دوسری یہ کہ اسے تجارتی اور کاروباری مرکزیت بھی حاصل تھی ۔ عرب سرمایہ داریہیں رہا کرتے تھے، عرب کے غلاموں کے مالک بھی مکہ ہی میں رہائش پذیر تھے۔ یہ لوگ غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کیاکرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں یہ شہر مالداروں اور بڑے لوگوں کی عیاشی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ شراب نوشی، گانا بجانا، رقص وسروراور عیش وعشرت کے طرح طرح کے سامان یہاں میسّر تھے۔یہ لوگ روم (موجودہ شام ) سے گوری چٹی، خوبصورت کنیزیں خرید کرلاتے اور مکہ میں عشرت کدے تعمیر کرتے، اور ان سے مال ودولت کماتے ۔وہ اعمال جن کی بنا پر قرآنِ کریم ان کی سخت مذمت کرتا ہے، ان میں سے ایک انکا یہی عمل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لااَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا۔
اور خبر دار اپنی کنیزوں کو، اگر وہ پاکدامنی کی خواہشمند ہیں، تو زنا پر مجبور نہ کرنا۔ سورہ نور ۲۴۔آیت ۳۳
وہ بے چاری بد نصیب (کنیزیں) اپنی عزت کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں، لیکن یہ ان بے چاریوں کوزبردستی زنا پر مجبور کرتے تھے اوراسکے عوض پیسے کماتے تھے۔
مکہ کی آبادی دو حصوں میں تقسیم تھی، شہربالائی اور زیریں دوحصوں میں منقسم تھا۔بالائی حصے میں اعیان واشراف رہا کرتے تھے اور زیریں حصے میں ان کے علاوہ دوسرے لوگ ۔اعیان واشراف کے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے، رقص وسرور، عیش ونوش اور ہاوَہُو کی آوازیں بلند رہا کرتی تھیں۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی پوری زندگی، کبھی بھی، مکہ میں رائج ان محفلوں میں سے کسی محفل میں شرکت نہیں کی۔
عہدِ رسالت سے قبل، آپ اپنی صداقت و امانت اور دانائی وزیرکی کی وجہ سے معروف اور مشہور تھے۔ آپ کو محمد امین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آپ کی سچائی اور امانتداری پر لوگ بہت زیادہ اعتماد کیاکرتے تھے۔ بہت سے کاموں میں آپ کی رائے پر بھروسہ کرتے تھے۔ عقلمندی اور دانائی، صداقت و امانت، وہ صفات ہیں جن کی بنا پرپیغمبر اکرمؐ بہت مشہور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے اپنی رسالت کے زمانے میں لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے آج تک مجھ سے کوئی غلط بات سنی ہے، تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ : نہیں، کبھی نہیں، ہم آپ کوصادق اور امین سمجھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقل، دانائی اور زیرکی واضح کرنے والا ایک واقعہ یہ ہے کہ جب خانۂ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کے لئے توڑا گیا (اس کی دیواریں گرائی گئیں)، تو حجر اسود کو بھی وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔ جب دوبارہ اسے نصب کیا جانے لگا، توایک قبیلہ کہتاتھا کہ ہم اسے نصب کریں گے اور دوسرا کہتاتھاکہ ہم اسے لگائیں گے ۔ قریب تھا کہ اس مسئلے پر قبائل میں آپس میں زبردست جنگ چھڑ جائے ۔ پیغمبر اکرمؐ نے آکر معاملے کو نہایت سادہ انداز میں حل کردیا۔ یہ معروف واقعہ ہے، اس لئے مزید اسکے لئے آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔
ایک اور مسئلہ جس کا تعلق آنحضرتؐ کے اعلانِ رسالت سے پہلے کے زمانے سے ہے، وہ }آپ کو حاصل {تائیداتِ الٰہی کا مسئلہ ہے ۔ پیغمبر اکرمؐ نے بعد میں، اپنی رسالت کے زمانے میں، اپنے بچپن کے بارے میں بتایا، اس میں یہ بھی فرمایاکہ: میں ان کے کاموں میں شریک نہیں ہوا کرتا تھا۔-کبھی کبھی میں یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ گویاایک غیبی طاقت میری تائید کر رہی ہے۔آپ فرماتے ہیں: میری عمر سات برس سے زیادہ نہیں ہوئی تھی، مکہ کے اشراف میں سے ایک شخص، عبد اللہ بن جدعان، ایک عمارت تعمیر کر رہا تھا۔ مکہ کے بچے شوقیہ کام کرنے اور اسکی مدد کی غرض سے وہاں جاتے اور پتھر اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے ۔ میں بھی جاتا اوراُن کے ساتھ یہ کام کیا کرتا۔یہ لوگ پتھروں کو اپنے دامن میں ڈالتے، اپنے دامنوں کو اوپر اٹھاتے، اور کیونکہ وہ شلوار (یا پاجامہ) نہیں پہنے ہوتے تھے، اس لئے اُن کی شرمگاہ عیاں ہوجاتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے پتھررکھنے کے بعد جوں ہی اپنا دامن اٹھایا، تو مجھے یوں محسوس ہوا گویا ایک ہاتھ آیا اور میرے ہاتھ سے میرا دامن چھڑا کر اسے نیچے گرا دیا، اس طرح مجھے احساس ہوگیا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے، حالانکہ اس وقت میں صرف سات برس کا ایک بچہ تھا۔ایک روایت میں امام محمد باقرعلیہ السلام، نیز امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام (نہج البلاغہ) میں اس بات کی مکمل تائید کرتے ہیں:
وَلَقَدْ قَرَنَ اللّٰہُ بِہِ مِنْ لَدُنْ اَنْ کانَ فَطیماً اَعْظَمَ مَلَکٍ مِنْ مَلاءِکَتِہِ، یَسْلُکُ بِہِ طَریقَ الْمَکارِمِ و مَحاسِنَ اَخْلاقِ الْعالَمِ۔
اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت فرشتے کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا، جو آپ کو شب وروز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا۔ نہج البلاغہ خطبہ۱۹۰ خطبۂ قاصعہ
امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں: بچپنے ہی سے خدا کے بعض فرشتے آپ کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ پیغمبراکرمؐ فرماتے ہیں:کبھی کبھی مجھے کسی کے سلام کرنے کی آواز سنائی دیتی، کوئی مجھ سے کہتا تھا السلام علیک یا محمد! میں اِدھر اُدھر دیکھتا تو مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا۔ کبھی میں سوچتا تھا شاید یہ پتھر یادرخت مجھے سلام کر تے ہیں۔ بعد میں مجھے سمجھ آئی کہ وہ فرشتۂ الٰہی تھا جو مجھے سلام کیا کرتا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے پہلے کے مسائل میں سے ایک، متکلمین کی اصطلاح میں ”ارھاصات“ کامسئلہ ہے۔ فرشتے کی یہ داستان بھی ارھاصات ہی میں شمار ہوتی ہے۔
خاص طور پرآغازِ رسالت کے بالکل نزدیک کے ایام میں پیغمبر اکرؐم کو غیر معمولی عجیب وغریب خواب دکھائی دیتے تھے ۔ فرماتے ہیں کہ میں خواب دیکھا کرتا تھا جو: یَاْتی مِثْلُ فَلَقِ الصُّبْحِ۔ فجر کی مانند، صبحِ صادق کی طرح سچے اور مطابق ہوا کرتے تھے۔میں ایسے واضح خواب دیکھا کرتا تھا۔ کیونکہ بعض خواب وحی و الہام کی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، البتہ تمام خواب نہیں، اور نہ وہ خواب جو انسان کا معدہ خراب ہونے کی وجہ سے نظر آتے ہیں، نہ وہ خواب جونفسیاتی پیچیدگیوں، سابقہ توہمات اور خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
رسالت سے پہلے آنحضرتؐ الہام اور وحی کے لئے جو ابتدائی مراحل طے کررہے تھے، یہ سچے خواب اُن کا ایک حصہ تھے، جن کے متعلق خود آنحضرتؐ کے الفاظ ہیں کہ یہ خواب صبح صادق کی مانند ظاہر ہوتے تھے ۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کے لئے خواب واضح نہیں ہوتا، پراکندہ ہوتا ہے، اور کبھی خواب واضح ہوتا ہے، لیکن اسکی تعبیر سچی نہیں ہوتی ۔ لیکن کبھی کبھی خواب انتہائی واضح ہوتا ہے، اس میں کوئی ابہام، تاریک گوشہ اور اصطلاحاً آشفتگی نہیں پائی جاتی اور پھر اسکی تعبیر بھی انتہائی واضح اور روشن ہوتی ہے ۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے پہلے کی زندگی، یعنی آپ کی ولادت سے بعثت کے درمیانی عرصے میں(جیسا کہ ہم نے عرض کیاتھا)، ایک چیز یہ ہے کہ آپ نے اپنی اس پچیس سالہ زندگی میں عربستان سے باہرکے دو سفر کئے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنگ دست تھے، آپ مال ودولت کے مالک نہ تھے۔ یعنی معروف معنوں میں آپ کوئی سرمایہ دار نہ تھے۔ آپ یتیم بھی تھے، غریب بھی تھے اور تنہا بھی تھے۔ آپ کا یتیم ہونا تو واضح ہے، بقولِ ”نصاب“ آپ لطیم بھی تھے۔ یعنی ماں اور باپ، دونوں کے سائے سے محروم تھے ۔ غریب تھے، کیونکہ آپ کوئی سرمایہ دار نہ تھے، خود کام کاج کرکے اپنی معاش کابندوبست کرتے تھے۔ اور تنہا تھے۔
جب انسان میں ایک روح جنم لیتی ہے، اور وہ نظریئے، فکری افق، روحانی جذبات اور معنویات کے اعتبار سے کسی مرحلے پر پہنچ جاتا ہے، تو لامحالہ وہ اپنے زمانے کے دوسرے لوگوں سے بے جوڑ ہوجاتا ہے، تنہا رہ جاتا ہے۔ روحانی تنہائی، جسمانی تنہائی سے سو گنا بدتر ہے۔ اگرچہ یہ مثال بہت مکمل نہیں ہے، لیکن بات کوواضح کردیتی ہے:آپ ایک بہت زیادہ علم رکھنے والے اورانتہائی باایمان عالم کو، جاہل اور بے ایمان لوگوں کے درمیان چھوڑ دیجئے۔ چاہے وہ افراد اسکے ماں باپ، بھائی بند اوراسکے قریبی رشتے دارہی کیوں نہ ہوں، اسکے باوجودوہ ان کے درمیان اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے گا۔ یعنی صرف جسمانی تعلق، اسے ان لوگوں سے نہیں جوڑسکتا۔ وہ روحانی اعتبار سے ایک دنیا میں رہتا ہے اور وہ لوگ دوسری دنیامیں۔ کہتے ہیں:
”جتنی جاہل کو عالم سے وحشت ہوتی ہے، اس سے سو گنا زیادہ دانا شخص نادان سے گریزاں رہتاہے“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کے درمیان تنہا تھے، ان کا کوئی ہم فکر نہ تھا۔ تیس سال کی عمر میں، جب آپ نے حضرت خدیجہؐ سے شادی کے بعدگھریلو زندگی کی بنیاد رکھی، تو آپ ایک دو سالہ بچے کو اس کے والد سے حاصل کرکے اپنے گھر لے آتے ہیں۔ یہ بچہ، علی ابن ابیطالب ؑ ہیں۔ آپ کے رسالت کے لئے مبعوث ہونے اور وحئ الٰہی کی صحبت کی وجہ سے آپ کی تنہائی تقریباًدور ہونے تک، یعنی اس بچے کی عمر قریب قریب بارہ سال ہونے تک، آپ کا ساتھی اور ہم نشین صرف یہی بچہ تھا۔یعنی مکہ کے لوگوں میں، اس بچے کے سوا کوئی اور نہ تھا جو آنحضرتؐ سے ہم فکری، ہم روحی اور ہم افقی کی اہلیت کاحامل ہوتا۔ خودحضرت علی علیہ السلام نقل فرماتے ہیں کہ: میں چھوٹا سا تھا، جب پیغمبر اکرمؐ صحرا میں جاتے، تو مجھے کاندھے پر بٹھا کراپنے ہمراہ لے جاتے۔
آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرپچیس برس تھی، حقیقتاًحضرت خدیجہؑ کی طرف سے آپ کو شادی کی پیش کش ہوتی ہے ۔البتہ شادی کی پیش کش مردکوکرنی چاہئے، لیکن یہ خاتون آنحضرتؐ کے اخلاق واطوار، معنویت اور زیبائی، الغرض آپ کی پوری شخصیت کی ایسی شیفتہ ہوئیں کہ خود انہوں نے کچھ افراد سے کہا کہ وہ آنحضرؐت کو اس بات پر تیار کریں کہ وہ آکر مجھے شادی کی پیشکش کریں۔ وہ لوگ آتے ہیں، آپؐ ان سے فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ وہ لوگ آپؐ سے کہتے ہیں کہ آپؐ ان باتوں کی فکر نہ کریں۔وہ لوگ آپ کو سمجھاتے ہیں کہ وہ خدیجہ ؑ جن کے بارے میں آپؐ فرمارہے ہیں کہ اشراف واعیان اور بڑے بڑے لوگوں نے انہیں شادی کے پیغام دیئے ہیں، لیکن وہ تیار نہیں ہوئی ہیں، وہی خود آپؐ سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔مختصر یہ کہ رشتہ بھیجا جاتا ہے اور شادی ہوجاتی ہے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اب جبکہ آپ ایک دولت مند اور تاجر خاتون کے شوہر ہوچکے ہیں، لیکن تجارت کے لئے نہیں جاتے۔بلکہ عہدِ تنہائی، یعنی گوشہ نشینی، خلوت، یکسوئی اور عبادت کادور شروع ہوجاتا ہے۔وہ حالتِ تنہائی، یعنی وہ روحانی فاصلہ جو آپ نے اپنے اور اپنی قوم کے درمیان قائم کیا تھا، وہ روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے۔اب مکہ اور وہاں کی بھیڑ بھاڑ گویا آپ کے لئے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔لہٰذا آپ تن تنہا مکہ کے نواح میں واقع پہاڑوں(۲) کی طرف نکل جاتے ہیں، تفکر و تدبر کرتے ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے، خدا ہی جانتاہے کہ آپ پر وہاں کیا عالم طاری ہوتا تھا۔ یہی وہ وقت ہے جب اس بچے یعنی علی ؑ کے سوا کوئی اور آپ کے ہمراہ اور ہم نشین نہیں۔
جب ماہِ رمضان آتا ہے، توآپ مکہ کے نواح میں واقع انہی پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ”کوہِ حرا“ کو گوشہ نشینی کے لئے منتخب کرتے ہیں(کوہِ حرا مکہ کے شمال مشرق میں واقع ہے، یہ مکہ کے پہاڑی سلسلے سے جدا اور مخروطی شکل کا ہے) جسے اس کے بعد جبل النور (کوہِ نور) کانام دیا گیا۔ شاید آپ میں سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرچکنے والے اکثر لوگوں نے ”کوہِ حرا“اور ”غارِ حرا“ کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا ہوگا؟ مجھے دو مرتبہ یہ شرف حاصل ہوا ہے، اور میری آرزؤں میں سے ایک آرزو یہ بھی ہے کہ میں بار بار یہ شرف حاصل کروں۔ ایک اوسط درجے کے آدمی کو اس پہاڑ کے دامن سے اسکی چوٹی پر پہنچنے میں کم ازکم ایک گھنٹہ لگتا ہے، اوراس سے نیچے اترنے میں تقریباً پون گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔
جب ماہِ رمضان آتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلی طور پر مکہ چھوڑ دیتے تھے۔حتیٰ حضرت خدیجہ ؑ سے بھی دور رہتے تھے ۔انتہائی مختصر غذا، کچھ پانی، تھوڑی سی روٹی، اپنے ساتھ لے کر کوہِ حرا کی طرف نکل جاتے تھے ۔ظاہراً ایسا لگتا ہے کہ بعد میں حضرت خدیجہؑ تھوڑے تھوڑے دنوں کے وقفے سے آپ کے لئے کچھ پانی اور روٹیاں دے کرکسی کو بھیجا کرتی تھیں۔ یہ پورا مہینہ آپؐ تنہائی میں بسرکرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی صرف حضرت علی ؑ وہاں موجود ہوتے تھے، اور ممکن ہے ہمیشہ ہی حضرت علی ؑ آپ ؐکے ساتھ ہوتے ہوں، یہ بات سرِ دست ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ تقریباً ثابت شدہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی حضرت علی ؑ وہاں آپ ؐکے ساتھ ہوا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے:
وَلَقَدْ جاوَرْتُ رَسولَ اللّٰہِ بِحِراءَ حینَ نُزولِ الْوَحْیِ
غارِ حرا میں نزولِ وحی کے وقت میں رسول اللہ کے ہمراہ تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پہاڑ سے نیچے تشریف نہیں لاتے تھے، وہیں اپنے خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
آپ کس انداز سے غور وفکر کیا کرتے تھے؟ کیسے اپنے رب سے اظہارِ عشق وولا کرتے تھے؟ کونسے عوالم وہاں طے کیا کرتے تھے؟ یہ باتیں ہمارے لئے قابلِ تصور نہیں ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اس زمانے میں کم سن تھے، زیادہ سے زیادہ آپ کی عمراس وقت بارہ برس ہوگی۔ جس وقت پیغمبر اکرمؐ پر وحی نازل ہوئی، آپ وہاں موجودتھے۔}اس وقت یوں محسوس ہوتا تھاجیسے{ پیغمبرکسی اور ہی عالم میں بسر کررہے ہیں۔ ہم جیسے ہزارہالوگ بھی اگروہاں موجود ہوتے، تواپنے اطراف کچھ محسوس نہ کرپاتے۔ لیکن حضرت علی ؑ رونما ہونے والے تغیرات کو محسوس کرتے ہیں، پیغمبراسلامؐ کے عوالم کے اکثر حصوں کو درک کرتے ہیں، کیونکہ فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّۃَ الشَّیْطانِ حینَ نُزولِ الْوَحْیِ۔
میں نے نزولِ وحی کے وقت شیطان کی آہ وزاری کی آواز سنی تھی۔
ایک روحانی شاگرد کی طرح، جو اپنے استاد کے سامنے اپنی روحانی کیفیت کااظہار کرتا ہے، حضرت علی ؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! جس وقت آپ پروحی نازل ہورہی تھی، میں نے اس ملعون کے آہ وبکا کرنے کی آواز سنی تھی۔آنحضرتؐ نے جواب دیا: ہاں، علی ؑ !بے شک سنی ہوگی، کیونکہ:
اِنَّکَ تَسْمَعُ ما اَسْمَعُ وَتَریٰ مااَریٰ وَلٰٰکِنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ۔
جو میں سنتا ہوں وہ تم سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں وہ تم دیکھتے ہو، لیکن تم پیغمبر نہیں ہو۔
یہ ٗ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسالت کے لئے مبعوث ہونے سے پہلے کے کچھ حالات تھے، جنہیں ہم نے آپ کی خدمت میں بیان کرنا ضروری سمجھا۔
۱۔ }فرسخ: تین میل سے کچھ زائد فاصلہ۔{
۲۔جن لوگوں نے مکہ کی زیارت کاشرف حاصل کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مکہ کے اردگرد پہاڑہی پہاڑ ہیں۔