سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

منطقِ عملی میں بھی بہت سے اسالیب سرے سے منسوخ ہیں، اسلام بھی انہیں منسوخ سمجھتا ہے۔ مثلاً کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کاموں میں اور اپنے اسلوب اورروش میں سعد و نحس ایام سے استفادہ کیا کرتے تھے؟ یہ خود ایک مسئلہ ہے۔ ہم جائیں اور پیغمبر کی سیرت کا ابتدا سے انتہا تک جائزہ لیں، تمام کتابیں جو شیعوں اور سنیوں نے تاریخِ پیغمبرؐ پر لکھی ہیں، اُن کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ نبی اکرمؐ اپنی روش میں جن چیزوں سے استفادہ کیا کرتے تھے، کیااُن میں سے ایک سعد و نحس ایام بھی تھے یا نہیں؟

مثلاً کیا وہ یہ کہا کرتے تھے کہ آج پیر کا دن ہے جو سفر کے لئے اچھا نہیں ہے، یا آج عیدِ نوروز کی تیرہ تاریخ ہے، جوآج کے دن گھر سے نہیں نکلے گا اس کی گردن ٹوٹ جائے گی، وہ بھی ایک نہیں تیرہ جگہوں سے؟ کیا ایسی باتیں}سیرتِ نبیؐ میں ملتی{ ہیں؟ کیا حضرت علی علیہ السلام کی سیرت میں ہیں؟ کیاائمۂ علیہم السلام کی سیرت میں ہیں؟ ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ پیغمبر اکرمؐ یا ائمۂ اطہارؐ نے اپنے عمل میں ان باتوں سے ذرّہ برابر استفادہ کیا ہو، بلکہ ہم اس کے برعکس دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے خوارج کے خلاف جنگ پر جانے کا فیصلہ کیا، تو اشعث بن قیس، جو اُس وقت حضرت ؑ کے اصحاب میں شامل تھا، بھاگم بھاگ مولا ؑ کے پاس آیا (اور بولا): اے امیر المومنین ؑ !میری درخواست ہے کہ آپ کچھ دیر صبر کیجئے، ابھی روانہ نہ ہویئے، کیونکہ میرا ایک رشتے دار، جو منّجم ہے، آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ فرمایا: اس سے کہو آجائے۔ وہ آیا اور بولا: یا امیر المومنین ؑ ! میں منّجم اور سعد و نحس ایام کی شناخت کا ماہر ہوں، میں اپنے حساب سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگرآپ ابھی جنگ کے لئے روانہ ہوئے، تو یقینی طور پر شکست سے دوچار ہوں گے اورآپ اورآپ کے اصحاب کی اکثریت ماری جائے گی۔} امام ؑ نے{ فرمایا: جس کسی نے تیری تصدیق کی، اس نے پیغمبرکی تکذیب کی، یہ تم کیا بیہودہ باتیں کر رہے ہو؟ اے میرے اصحاب! سیروا عَلَی اسْمِ اللّٰہِ۔(۱) اللہ کا نام لو، خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرو اور روانہ ہوجاؤ۔ اس شخص کی رائے کے باوجودہم ابھی اور اسی وقت روانہ ہوں گے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ علی ؑ کواس جنگ سے زیادہ کسی اورجنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔

یہ حدیث وسائل میں موجود ہے: عبد الملک بن اَعْیَن امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، عبد الملک زُرارہ کے بھائی ہیں اور خود بھی ایک بڑے راوی اور عالم انسان ہیں، انہوں نے علمِ نجوم پڑھا تھااور اسی لئے وہ اس پر عمل کیا کرتے تھے۔رفتہ رفتہ انہیں احساس ہونے لگا کہ انہوں نے اپنے لئے ایک مصیبت کھڑی کرلی ہے۔ مثلاً وہ گھر سے باہر نکلتے تو دیکھتے کہ آج قمر در عقرب ہے، اگرکہیں گیا تویوں ہوجائے گا وُوں ہوجائے گا۔ایک روز دیکھتے ہیں کہ فلاں ستارہ اُن کے آگے آگیا ہے ۔رفتہ رفتہ اُن بیچارے کو احساس ہونے لگا کہ کلی طور پر اُن کے ہاتھ پاؤں بندھ گئے ہیں۔ ایک دِن امام صادقؑ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: یابن رسول اللہ! میں نجومِ احکامی میں پھنس کے رہ گیا ہوں۔(۲) میرے پاس اس موضوع پر کچھ کتابیں ہیں اور رفتہ رفتہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں اس کا شکار ہوگیا ہوں، اصلاً پھنس کر رہ گیا ہوں۔جب تک میں ان کتابوں میں دیکھ نہ لوں، کسی کام کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔ میں کیا کروں؟ امام صادقؑ نے تعجب کے ساتھ فرمایا: تم ہمارے اصحاب میں شامل ہو، تم ہماری روایات کے راوی ہو، تم ان چیزوں پر عمل کرتے ہو؟ }وہ بو لے{: جی ہاں یابن رسول اللہ۔ فرمایا: ابھی اسی وقت اٹھو، گھر جاؤ اور گھر پہنچتے ہی ان تمام کتابوں کوآگ لگادو۔ پھر کبھی میں تمہیں ان میں سے ایک لفظ پر بھی عمل کرتے نہ دیکھوں۔

اس بارے میں موجود بعض روایات کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ان کے برعکس کچھ روایات ہیں جو تفسیر المیزان میں سورۂ فصلت کی ایک آیت : فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ(۳) کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں۔ اہلِ بیتِ اطہار ؑ سے پہنچنے والی روایات سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ امور یا تویکسر غیر مؤثر ہیں یا اگر ان کا کوئی اثر ہے بھی، تو خدا پر توکل اور رسولِ اکرمؐ اور اہلِ بیتِ رسولؐ پر بھروسہ ان کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ لہٰذا، ایک مسلمان، ایک سچا شیعہ، دورانِ عمل ان امور کی پروا نہیں کرتا۔ اگر سفر پر جانا چاہتا ہے، تو صدقہ دیتا ہے، خدا پر توکل کرتا ہے، اولیا اللہ سے توسل کرتا ہے اور ان میں سے کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپ دیکھئے کہ کیا پیغمبر ؐاور ائمۂ اطہار ؑ کی تاریخ میں ایک مرتبہ بھی ایسااتفاق ہوا ہے کہ خود اُنہوں نے ان مسائل پر عمل کیا ہو؟

”سیرت“ یعنی اس قسم کی چیزیں۔ کیا انہوں نے اپنی منطقِ عملی میں اس قسم کے امور سے استفادہ کیا ہے، یا نہیں؟

خراسان میں ایک چیز معروف ہے جسے میں نے ایران کے بعض شہروں میں دیکھا ہے، اور بعض میں نہیں۔ ہمارے استادِبزرگوار مرحوم حاج میرزا علی آقا شیرازی نے اس کی بنیادسے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ یہ کیا تھی اور کہاں سے پیدا ہوئی ہے؟ ہمارے گاؤں فریمان میں بہت زیادہ مشہور تھا اور شاید اب بھی ہے کہ کہتے تھے: اگر کوئی شخص کسی سفر پرنکل رہا ہے، تواگراس موقع پر سب سے پہلے کوئی سیّد اُس کے سامنے آگیا تو یہ منحوسیت ہے اور وہ شخص یقیناً اس سفر سے واپس نہ لوٹے گا۔ لیکن اگراس موقع پر اس کاسامناکسی اجنبی شخص سے ہوگیا، تو یہ سفر ایک مبارک سفر ہوگا۔ واقعاًلوگ اسی کے معتقد تھے۔ مرحوم حاج میرزا علی آقا شیرازی نے کہا: اس بات کی ایک بنیاد ہے: بنی عباس کے دور میں سادات (جوبیچارے روپوش اولادِ نبی تھے ) جس گھر میں نظرآتے تھے، نہ صرف اُنہیں بلکہ اُس پورے خاندان کوتباہ کردیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ اس اعتبار سے سیّدمنحوس ہوتے ہیں۔ یہ نحوستِ سیاسی ہے نہ کہ نحوستِ فلکی۔ یعنی جس گھر کے دروازے پر کوئی سیّدآیا وہ گھر تباہ ہوگیا۔ یہ سیاسی نحوست رفتہ رفتہ لوگوں کے ذہنوں میں نحوستِ تکوینی اور نحوستِ فلکی میں بدل گئی۔ بعد میں بنی عباس کے خاتمے کے بعد بھی عورتیں، بچے اور سادہ لوح لوگ یہی کہتے تھے کہ سیّد ہوتا ہی منحوس ہے، خاص طور پر سفر میں۔

خود میرے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ میں دوسری یا تیسری بار قم جارہا تھا۔ جب ہم گھر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے، کیونکہ دو فرسخ کے فاصلے پرایک جگہ ہم دعوت پرمدعو تھے اور وہاں سے ہمیں گاڑی پر سوار ہوکے جانا تھا۔ کچھ دوست وداع کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے بھی گھر میں والدہ مرحومہ اور دوسروں کو خدا حافظ کہا اور باہرآگئے۔دل چاہ رہا تھا کہ جلداز جلد جائیں۔ گھوڑے پر سوار ہوا تو دیکھا کہ ایک سیّدآگے سے چلا آرہا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ خدا کرے عورتوں کو یہ بات معلوم نہ ہوجائے، اگر انہیں معلوم ہوگیا تو مجھے جانے نہیں دیں گی۔ خدا سے یہ دعا کر تے ہوئے، میں ٹھہر گیا۔ وہ سیّد قریب پہنچ کر میرے گھوڑے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ مجھ سے معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ جو اس گاؤں (جس کا نام رامان تھا) جائیں گے، تو کیا وہیں سے قم چلے جائیں گے یا واپس آئیں گے اور یہاں سے گاڑی میں سوار ہوکر جائیں گے؟ کہنے لگا: جناب انشاء اللہ اب توآپ واپس نہیں آئیں گے۔ میں نے کہا: نہیں، انشاء اللہ واپس نہیں آؤں گا۔میں نے دل میں کہا کہ اگر یہ بات عورتوں کے کانوں تک پہنچ گئی کہ سیّد سامنے آگیا ہے اوراس نے یہ بھی کہا ہے کہ انشاء اللہ اب واپس نہیں آؤ گے، تومحال ہے کہ وہ مجھے جانے دیں۔ لیکن میں گیا اور واپس آیا اورآج آپ کے ساتھ گفتگو کر رہا ہوں۔اس بات کو تیس سال کا عرصہ بھی گزر چکا ہے۔

ایک مسلمان کو اس قسم کی باتوں سے اپنے ذہن کو نہیں الجھانا چاہئے۔تَوکّل آخرکس لئے ہے؟ ہم تَوکّل اور توسّل کا دم بھی بھرتے ہیں اور کالی بلی سے بھی ڈرتے ہیں۔ جو انسان تَوکّل کی بات کرتا ہے اور خاص طور پر توسّل اور ولایت کی بات کرتا ہے، اسے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ جو شخص ولایت کی بات کرتا ہے، اُس سے کہئے کہ اگر توسّل کے قائل ہو، تو ان بے معنی باتوں پر اعتماد نہ کرو۔ پس ان میں سے ہر ایک خود ایک اصول ہے۔ دھوکا و فریب، اور توہمات سے کام لینا سیرتِ پیغمبرؐ میں جائز نہیں ہے۔ باسمک العظیم الاعظم الاجلّ الاکرم یا اللّٰہ۔۔۔

پرودگار! ہمیں اسلام اور قرآن کا قدردان قرار دے۔اپنی معرفت اور محبت کے نور سے ہمارے قلوب کو منور کردے۔ ہمارے دلوں میں اپنے پیغمبرؐ اور اُن کی آل ؑ کی محبت اور معرفت جاگزیں فرما۔ ہماری جائزحاجات کو بَر لا۔ ہمارے مرحومین کو اپنی رحمت اور عنایت میں شامل فرما۔

و عجِّلْ فِی فَرَجِ مولانا صاحب الزمان۔

۱۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۷۷

۲۔ نجومِ ریاضی نجومِ احکامی سے مختلف ہے۔ غلط فہمی نہ ہوجائے، ہمارے پاس علمِ نجوم کی دو قسمیں ہیں۔ نجومِ ریاضی یعنی چاند اور سورج گرہن وغیرہ کا حساب، یہ ریاضیات کا حصہ ہے۔ نجومِ احکامی غیر معتبر ہے۔

۳۔سورۂ فصلت۴۱۔آیت۱۶