سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

سیرت کے معنی اور اس کی اقسام

سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

پہلی نشست

سیرت کے معنی اور اس کی اقسام

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین۔ و الصلٰوۃ و السلام علیٰ عبد اللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیّہ و حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ سیّدنا و نبیّنا و مولانا ابی القاسم محمد و آلہ الطّیّبین الطّاہرین المعصومین۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرّجیم:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا

تم میں اس کے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو بھی اللہ اور آخرت سے امیدوار ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱

شناخت کا ایک سرچشمہ، جس کے ذریعے ایک مسلمان کو اپنی فکر اور نظریئے کی اصلاح اور تکمیل کرنی چاہئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔

ایک چھوٹا سا مقدمہ بیان کرتے چلیں اور وہ یہ کہ ہم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کے مقابل ہم مسلمانوں کے لئے ایک افتخار یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہت ساراکلام، جسکے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آنحضرت ؐہی کا کلام ہے، یعنی متواترا ور مسلّم ہے، آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے، جبکہ کوئی اور دین اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔یعنی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں جملہ، وہ جملہ ہے جو مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام، یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا کسی اور پیغمبر کی زبان سے سنا گیا ہے۔بہت سارے جملے موجود ہیں لیکن وہ اتنے یقینی او رقطعی نہیں ہیں، جبکہ ہمارے پاس اپنے نبی ؐ کے بکثرت متواتر جملے موجود ہیں۔

دوسری طرف ہمارے پیغمبر کی تاریخ انتہائی واضح اور مستند تاریخ ہے۔ اس اعتبار سے بھی دنیا کے دوسرے رہنماؤں کا ہمارے رہنماؤں کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ۔ حتیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی باریک اور جزئی باتیں بھی قطعی اور مسلّم صورت میں آج ہماری دسترس میں ہیں، جبکہ کسی اور کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ سال، مہینے، حتیٰ کہ ولادت کا دن اورانتہا یہ ہے کہ ولادت کا ساتواں دن، شیرخوارگی کا دور، وہ دور جو آپ نے صحرامیں گزارا، بلوغت سے پہلے کا زمانہ، عربستان سے باہر آپ کے کئے جانے والے سفر، نبوت سے پہلے مجموعی طور پر جو پیشے آپ نے اپنائے تھے، آپ کی شادی کس عمر میں ہوئی، کتنے بچوں کی ولادت ہوئی اور ان میں سے کتنے آپ سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے، کس عمر میں ان بچوں کی وفات ہوئی اور اسی قسم کی دوسری باتیں۔ یہاں تک کہ آپ کی رسالت اور بعثت کے دور کے بارے میں معلومات زیادہ باریکیوں کے ساتھ موجود ہیں، کیونکہ یہ ایک عظیم واقعہ تھا۔ سب سے پہلے کون اُن پر ایمان لایا؟ }ایمان لانے والا{دوسرا اور تیسرا فرد کون تھا؟ فلاں شخص کس سال ایمان لایا؟ اُن کے اور دوسرے لوگوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں؟ انہوں نے کیا کیا کام کئے؟ آپ کا طریقۂ کار کیا تھا؟

جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا زمانہ بڑے صاحبانِ شریعت انبیا میں ہم سے سب سے زیادہ نزدیک کا زمانہ ہے، اگر قرآن نے ان کی تائید نہ کی ہوتی، جس کی وجہ سے مسلمانانِ عالم حکمِ قرآن کی رو سے انہیں ایک سچااور خداکا نبی مانتے ہیں، تو دنیا میں انہیں ثابت کرنا اور ان کی تائید کرنا ناممکن ہوجاتا۔ خود عیسائی بھی تاریخی حوالے سے اس عیسوی تاریخ پر قطعاً اعتقاد نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر مثلاً وہ یہ کہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخِ ولادت کوآج ۱۹۷۵ سال گزر چکے ہیں۔ یہ کوئی حقیقی بات نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی بات ہے جسے طے کرلیا گیا ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبیؐ کی ہجرت کو ۱۳۹۵ قمری سال اور ۱۳۵۴ شمسی سال گزر چکے ہیں، (۱) تو اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن یہ بات کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی ولادت کو ۱۹۷۵ سال گزر چکے ہیں، یہ ایک ایسی بات ہے جسے مان لیا گیا ہے، تاریخ سے اس کی ہرگز تائید نہیں ہوتی۔ ممکن ہے اُن کی ولادت اس تاریخ سے دو تین سو سال قبل ہوئی ہو، یا دو تین سو سال بعد ہوئی ہو۔اور بعض جغرافیائی مسیحی(وہ مسیحی نہیں جو حضرت عیسیٰ مسیح پر ایمان بھی رکھتے ہیں) تو یہ تک کہتے ہیں کہ کیا مسیح نامی کوئی شخص دنیا میں آیا بھی تھا، یامسیح ایک افسانوی اور جعلی شخصیت ہے؟ وہ توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود کے بارے میں بھی شک کرتے ہیں۔ البتہ ہمارے اعتبار سے یہ ایک بکواس ہے ۔ قرآنِ کریم نے (حضرت عیسیٰ ؑ کے وجود کی) تائید کی ہے، اور ہم کیونکہ قرآن پر اعتقاد رکھتے ہیں، لہٰذا اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔ (اسی طرح یہ کہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری کون لوگ تھے؟ انجیل کس سن میں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے کتنے سال بعد کتابی شکل میں سامنے آئی؟ کتنی انجیلیں تھیں؟ یہ سب باتیں مشکوک ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کے لئے، یہ سرچشمہ، خواہ وہ گفتارِ نبی کا سرچشمہ ہوخواہ کردارِ نبی کا سرچشمہ، وہ انتہائی یقینی اوربڑی حد تک قطعی (صرف قابلِ اعتماد ظنی نہیں) صورت میں موجود ہے۔ یہ وہ بات تھی جوہم اس گفتگو کے مقدمے کے طور پر بیان کرنا چاہتے تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مقدس کی جس چیز سے ہم استفادے کے ذمے دار قرار دیئے گئے ہیں، وہ ان کی گفتار میں بھی ہے اوران کی رفتارمیں بھی، ان کے قول میں بھی ہے اوران کے فعل میں بھی۔ یعنی نبیؐ اکرم کا کلام بھی ہمارے لئے رہنما اور سَنَد ہے اور ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے، اور آپ کا فعل اور رفتار و کردار بھی۔

یہاں اس بات کی کچھ وضاحت کرنا ضروری ہے۔ پہلے کلام اور گفتار کے بارے میں گفتگو کرلیں تاکہ اسکے بعد رفتار و کردار کے بارے میں بھی وضاحت کرسکیں۔

۱۔} اس سال سے جس سال شہید مطہری ؒ نے یہ تقریر کی۔{