کفارِ قریش کے سامان پر قبضہ اور ذرائع کے استعمال کا مسئلہ
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ایک اور سوال جسے ہم خود کچھ توسیع دینا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ اگر اسلام میں نیک مقصد کے حصول کے لئے کسی ناجائزا ور فاسد ذریعے سے استفادہ جائز نہیں ہے، تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں اس بات کی اجازت دیا کرتے تھے کہ مسلمان مدینہ کے قریب سے گزرنے والے کفارِ قریش کے قافلوں کو روک کر اُن کے مال واسباب پر قبضہ کرلیں جو(شام سے مکہ کی طرف) مالِ تجارت لے کر جاتے تھے۔ اہلِ یورپ اس عمل کے لئے راہزنی جیسا نا زیبا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔
کیا یہ کام ایک نیک مقصد کے لئے نہیں تھا؟
ہم اس سوال میں اضافہ کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ خودجہاد بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ جہاد بھی آخرکار انسانوں کے قتل پر منتہی ہوتا ہے! اور ظاہر بات ہے کہ انسانوں کو قتل کرنا خود کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ جو کام خود کوئی اچھا کام نہیں ہے، اسلام نے کیوں اس کی اجازت دی ہے؟
آپ کہیں گے کہ ایک نیک مقصد کے لئے۔
پس اسلام میں خودجہاد کی اجازت دینا، اس بات کی اجازت دینا ہے کہ نیک مقصد کے لئے ناجائز ذرائع کو استعمال کیاجاسکتا ہے ۔
اس حوالے سے دوسری مثالیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں: کیا ہماری فقہ یہ نہیں کہتی کہ ”دروغِ مصلحت آمیز بہ از راستئ فتنہ انگیز است“(۱) یہ شیخ سعدی کا جملہ ہے، لیکن فقہ بھی اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ فقہ بھی یہ کہتی ہے کہ اگر کسی مقام پر ایک جھوٹ معاشرے کی مصلحت اور اسکے مفاد میں ہو، تو یہ جھوٹ بول دینا چاہئے ۔یعنی اگر کسی مقام پر دو صورتیں پیدا ہوجائیں، ایک یہ کہ سچ بولا جائے جس کے نتیجے میں کوئی بے گناہ مومن اپنی جان سے محروم ہو جائے، یا جھوٹ بول کر ایک بے گناہ کو نجات دلائی جائے، تو اس موقع پر جھوٹ بول دو اور بے گناہ کو نجات دلا دو۔ یہ وہی دروغِ مصلحت آمیز ہے۔ کیا یہ ایک نیک مقصد کے لئے ایک ناجائز ذریعے کے استعمال کے سوا کچھ اور ہے؟ جواب یہ ہے کہ: بعض مسائل میں ذریعہ بھی ناجائزنہیں ہوتا۔ جہاد اور مال ودولت کے معاملے میں سلسلہ یہی ہے۔
ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ ہر انسان کی، ایک بائیولوجیکل انسان کی جان و مال محفوظ ہونی چاہئے، انسان، انسان ہونے کے ناطے جیسا بھی ہو ہوا کرے۔ یہ فرنگیوں کا اندازِ فکر ہے، جو کہتے ہیں کہ انسان یعنی نوعِ آدم، بائیولوجیکل انسان، ایسا انسان جسے بائیولوجی انسان سمجھتی ہے۔ البتہ ایسا انسان جسے علمِ بائیولوجی انسان کہتا ہے، یعنی ایک ایسا موجود جس کا ایک سر، دو کان، دوہاتھ اس خاص حالت میں ہوں، اس کے ناخن چوڑے ہوں، سیدھا کھڑا ہوسکتا ہو اور دو پیروں پر چلتا ہو۔ ان علامات کا حامل موجود بائیولوجیکل انسان ہے۔ بائیولوجی کے اعتبار سے معاویہ بھی ایک انسان ہیں اور ابوذر بھی ایک انسان ہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ابوذر کا خون معاویہ کے خون سے بائیولوجی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ بائیولوجی کے اعتبار سے موسیٰ چمبہ اور لومومبا ایک ہی جیسے دو انسان ہیں۔
لیکن انسان کے حوالے سے، بائیولوجیکل انسان کا ذکر نہیں ہے، بلکہ انسان کا ذکر ہے معیارِ انسانیت کی بنیاد پر، (لہٰذا) ایک انسان، ضدِ انسان بن کے سامنے آتا ہے۔ موسیٰ چمبہ ایسا انسان ہے جو ضدِ انسان ہے، شمر ابن ذی الجوشن ایسا انسان ہے جو ضدِ انسان ہے، یعنی انسانیت کی ضدہے۔ یہاں انسانیت معیارہے۔ انسانیت یہ نہیں ہے کہ فلاں موجود کے دانت اس قسم کے ہوں۔ انسانیت، یعنی شرافت، فضیلت، تقویٰ، عدالت، حریت پسندی، آزاد منشی، حلم، بردباری۔ یہ چیزیں معیارِ انسانیت ہیں۔
بائیولوجیکل انسان، بالقوہ (potential) اجتماعی انسان ہے، بالفعل(by act) اجتماعی انسان نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان انسانیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو (اور دوسرے الفاظ میں) ایسا انسان جوآزادی کے خلاف پرچم بلند کرے، جوتوحید کے مقابل کھڑا ہوجائے، عدالت کے سامنے قدِ علم کرے، سچائی اور نیکی کے خلاف صف آرا ہو، تمام اچھائیوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجائے، اس انسان کو کوئی احترام حاصل نہیں، اس کا خون اور مال محترم نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس کا خون اور مال قابلِ احترام ہے اور اس کاخون اور مال ضائع کرنا ایک براکام ہے لیکن ہم ایک نیک مقصد کے لئے اس برے کام کو انجام دیتے ہیں۔ نہیں، یہ کام سرے سے براہے ہی نہیں۔ قصاص کا مسئلہ اور قاتل سے قصاص لینے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم ایک اعلیٰ مصلحت کی خاطر افسوس کے ساتھ کسی برے کام کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اگر کوئی انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ دوسرے انسان کو بے جرم قتل کردے، تو}دراصل{ اُس نے خود اپنی حرمت کو ختم کردیاہے۔ جو ہاتھ جانتے بوجھتے، عمداً اور علیٰ الاعلان خیانت کا مرتکب ہوتا ہے، اس ہاتھ نے خود اپنی حرمت کو پامال کیا ہے۔ سید مرتضیٰ نے ابو العلا معری کے جواب میں کیا خوب کہا ہے۔ ابو العلا نے کہا: مجھے اسلام کا یہ قانون سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک مقام پر تو کہتا ہے کہ ایک ہاتھ کی دِیَت پانچ سو دینار ہے اور دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ اگر اس نے ایک چوتھائی دینار کی بھی چوری کی ہے تو اس ہاتھ کو کاٹ دیا جائے۔ اس }ہاتھ {کی کیا قیمت ہے؟ ایک چوتھائی دینار یا پانچ سو دینار؟ یہ دو ہزار گُنااوپر نیچے کیونکر ہو رہی ہے؟ سید مرتضیٰ نے فرمایا:
عِزُّ الْاَمَانَۃِ اَغْلاھَا وَاَرْکَسَھَا
ذُلُّ الْخَیَانَۃِ فَافْھَمْ حِکْمَۃَ الْبَارِی
گوشت پوست کے بنے ہوئے اس ہاتھ کاکوئی احترام نہیں ہے۔ اگر کہا گیا ہے کہ ہاتھ کی دِیَت پانچ سو دینار ہے، تو یہاں امانتدار ہاتھ کا احترام ملحوظ ہے، انسانیت اور امانتداری محترم ہے، امانتداری کی عزت ہے جس نے اس کی قیمت بڑھا دی ہے، اور چوری اور خیانت کی ذلت ہے جس نے اس کی قیمت کواس قدر گرا دیا ہے۔ امانتداری قیمت کو بڑھا دیتی ہے اور خیانت قیمت کو کم کر دیتی ہے۔ انسانیت جان و مال کی قیمت بڑھاتی ہے اور اس کے مقابل، جھوٹ اور دروغ، غیبت اور انسان کشی اورلوگوں کے حقوق اورآزادی پر تجاوز وغیرہ اسکی قیمت کواس قدر کم کردیتے ہیں کہ بے قیمت چیز سے بھی زیادہ بے قیمت ہوجاتی ہے۔
کفارِ قریش جنہوں نے اس زمانے تک کم از کم تیرہ برس اپنی تمام کوششیں اس بات پر صرف کی تھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گلا گھونٹ دیں، تاکہ لوگوں تک صدائے حق نہ پہنچ سکے، کیونکہ یہ ان کے مفادات کے خلاف ہے، مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچائیں، اذیتیں دے کر ان کو قتل کردیں اور کسی ظلم سے دریغ نہ کریں، جبکہ وہ جانتے تھے کہ وہ حق بات کہہ ر ہے ہیں، پھر بھی ہم کہیں کہ ان کا مال محترم ہے، ان کا تجارتی مال قابلِ احترام ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ یہ تجارتی مال انہوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے؟ قرآنی نص کے مطابق مکہ کے کچھ لوگ سود خور تھے، ان کے پاس جو بھی مال تھا وہ چوری اور سود خوری سے حاصل کیاہوا تھا۔ کیا ان کا مال قابلِ احترام ہے؟
لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ ان کا مال محترم ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر قبضہ کرنے کی اجازت اس لئے دی تھی کہ آپ کا مقصد نیک تھا۔ بلکہ اگر کوئی نیک مقصد نہ بھی ہوتا، تب بھی ان کے مال کی کوئی حرمت نہیں تھی۔
دوسرے مواقع پرمسئلہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اہم اوراہم ترین کا مسئلہ ہے۔ فقہا نے مقدمۂ واجب میں بالخصوص اس کا ذکر کیا ہے۔ اس بارے میں ہم آپ کی خدمت میں ایک وضاحت عرض کریں گے: اس حوالے سے ہماری گفتگوکہ ہدف، ذریعے اوروسیلے کو جائز قرار نہیں دیتا (اور نبوت کے مقصد کے حوالے سے علامہ طباطبائی کی گفتگو) یہ تھی کہ ہم ایمان کے راستے میں، لوگوں کے ایمان کی تقویت اور حفاظت کے لئے، لوگوں کو حق و حقیقت اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے، باطل سے استفادہ نہ کریں۔ یعنی ایمان اور راہِ حق کی جانب دعوت کا مزاج ایسا ہے جو جھوٹ اور باطل کو قبول نہیں کرتا۔ ہماری بات اس حوالے سے تھی نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ جس قرآنی آیت سے وہ استدلال کرتے ہیں، وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے بہت عتاب آمیز آیت ہے:
وَ لَوْ لااَآ اَنْ ثَبَّتْنکَاٰالَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْءًا قَلِیْلااً اِذًا لَّااَذَقْنکَاٰا ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ۔
اور اگر ہماری خاص توفیق نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا، تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے، اور پھر ہم دنیاوی زندگی اور موت دونوں مرحلوں میں دُہرا دُہرامزہ چکھاتے۔ سورۂ بنی اسرائیل ۱۷۔آیت۷۴، ۷۵
اے پیغمبر! اگر خدا کی عنایت نہ ہوتی، تو نزدیک تھا کہ آپ سے لغزش سرزد ہوجاتی۔ اب پیغمبر کی لغزش کیا تھی؟ جیسا کہ تفاسیر میں لکھا گیا ہے، ایسا نہیں تھا کہ پیغمبر نے کوئی لغزش کی ہے، شاید ان کے ذہن میں کوئی معمولی سا تصور پیدا ہوا ہوگا لیکن آپ نے فوراً ہی اس کے برخلاف فیصلہ کر لیا ۔ اسکے باوجودقرآن انہیں سرزنش کرتا ہے۔
}ایک قبیلے کے لوگ آنحضرت ؐ کے پاس آئے اور{انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول!
ہمیں اسلام اختیار کرنے کے عوض اس بات کی اجازت دیجئے کہ ہم ایک سال نماز نہ پڑھیں، یا ایک سال تک ہمیں بتوں (کی پوجا)سے نہ روکیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات ماننے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، لیکن شاید ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ ان کی ہدایت کے لئے اور خدا کی خاطرکچھ لچک، کچھ توافق، کچھ سازباز کرلیتاہوں (جیسا کہ بعض لوگ حضرت علی علیہ السلام سے تقاضا کرتے تھے کہ خدا کی خاطر معاویہ کے ساتھ کچھ سازباز کر لیں) نہیں، ایمان کا مزاج ان لچکوں اور ان ساز بازوں سے موافقت نہیں رکھتا۔
اگر ایمان اور حقیقت کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا، بلکہ اجتماعی اور انفرادی حقوق کا (معاملہ ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا)۔ مثلاً کسی انسان کی جان بچانے کی خاطر جھوٹ بول دینے میں بھی کیا مضائقہ ہے۔ بعد میں جب پتا چل جائے کہ اس نے یہ جھوٹ اس کی جان بچانے کے لئے بولا تھا، تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن اگر میں چاہوں کہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دوں، اور} اس مقصد کے لئے{ ایک غیر حقیقی اورجھوٹی دلیل پیش کروں، بعد میں پتا چلے کہ جو دلیل میں نے دی تھی اور جو راستہ میں نے طے کیا تھا وہ جھوٹا تھا اور میں نے جھوٹ بول کر لوگوں کو مومن بنایا تھا، تو یہ عمل ایمان پر ایسی کاری ضرب لگاتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے۔لہٰذا ہماری گفتگو تبلیغ کے موضوع پر تھی۔ ہم پہلے مثال عرض کر چکے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تقویتِ ایمان کی خاطر اہلِ بدعت پر تہمت بھی لگائی جاسکتی ہے۔ بالفاظِ دیگر تقویتِ ایمان کے لئے اہلِ بدعت کی جانب جو جھوٹی نسبت دینا چاہو دے دو۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہانے سے کہ ہمارا مقصد نیک ہے، ایک اجازت نامہ جاری کردیں، اور یہ کہیں کہ جب بھی مقصد نیک ہو اسلام نے ہمیں اپنے دشمنوں پر جھوٹی نسبت دینے کی اجازت دی ہے۔ ہم نے عرض کیاتھا کہ نہیں، اسلام ایمان اور حق و حقیقت کی طرف دعوت دینے کے لئے ہرگز جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا، کسی بھی شکل میں اور کسی بھی صورت میں۔ تمام نیک کام اسی قبیل سے ہیں۔
۱۔ مصلحت اور بھلائی کی خاطر بولا جانے والا جھوٹ، فتنہ پیدا کرنے والے سچ سے بہتر ہے۔