رسولِ اکرمؐ کے فرمودات پر ایک نظر
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اس عظیم شخصیت کے چند فرامین ہم آپ کی خدمت میں نقل کرتے ہیں۔پیغمبر اسلامؐ کے فرمودات بھی معجزہ ہیں (قرآنِ مجید، جوکلامِ الٰہی ہے، وہ اپنی جگہ پر) بالخصوص اُس ماضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جسے ہم نے عرض کیا۔
وہ بچہ جسے قسمت نے اُسی وقت یتیم کردیا ہوجب وہ ابھی اپنی ماں کے شکم ہی میں تھا۔ اور پانچ سال کی عمر میں وہ لطیم }یعنی جس کے ماں باپ دونوں نہ ہوں{بھی ہوگیا ہو، جس کی شیرخوارگی کا زمانہ بادیہ نشینوں کے ساتھ گزرا ہو، جو اُمیّوں اور ناخواندہ لوگوں کی سرزمین مکہ میں پل کر بڑا ہوا ہو، جس نے کسی معلم اور مربی کی شاگردی اختیار نہ کی ہو، جس نے سوائے دو مختصر سفروں کے اور وہ بھی جزیرۃ العرب سے باہر کے تجارتی سفر تھے، }سفر نہ کیا ہو{، جو کسی فلسفی، حکیم، دانشور سے نہ ملا ہو، اسکے باوجود اُس کی زبان سے قرآن جاری ہوتا ہے، اور اُس کے قلبِ مقدس پر نازل ہوتا ہے۔ اور بعد میں وہ خودایساکلام کرتا ہے، اور یہ کلام اتنا حکیمانہ ہوتاہے کہ جو نہ صرف دنیابھر کے تمام حکما کے کلام کی برابری کرتا ہے، بلکہ ان پر برترہوتا ہے۔
اب یہ بات دوسری ہے کہ ہم اتنے سارے مسلمان، اپنے پیغمبرؐ کے کلام کو جمع کرنے اور درست طریقے سے اسکی تشریح اور تبلیغ کے سلسلے میں کسی اہلیت کا مظاہرہ نہ کرسکے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات کو مختلف جگہوں پر نقل کیا گیا ہے۔ہم بالخصوص قدیم ترین کتابوں سے کچھ کلمات نقل کررہے ہیں۔ قدیم ترین کتاب جودسترس میں ہے، یا کم از کم مجھے میسّرہے، وہ جاحظ کی ”البیان و التبیین“ ہے۔ ”جاحظ“ کا تعلق تیسری صدی کے دوسرے نصف سے ہے۔ یعنی یہ کلمات تقریباً تیسری صدی کے پہلے نصف میں لکھے گئے ہیں۔ یہ کتاب فرنگیوں اور مستشرقین کی نظرمیں بھی معتبر کتابوں میں شامل ہے۔ یہ ایسے کلمات نہیں ہیں، جن کے متعلق آپ یہ کہیں کہ انہیں بعد میں لوگوں نے نقل کیا ہے۔ نہیں، یہ تیسری صدی میں ایک کتاب کی صورت اختیار کر چکے تھے، البتہ یہ تیسری صدی سے پہلے بھی موجود تھے، کیونکہ جاحظ نے انہیں سند کے ساتھ نقل کیاہے۔ مثلاً آپ دیکھئے کہ سماج کے حوالے سے ذمے داریوں کے بارے میں، اس عظیم شخصیت نے کس طرح کلام فرمایاہے؟ فرماتے ہیں: کچھ لوگ ایک کشتی میں سوار ہوکر ایک وسیع وعریض سمندر کو عبور کر رہے ہیں۔ان لوگوں نے اپنے ہم سفر ایک شخص کو دیکھا جو اپنی نشست کے نیچے کھرچ رہا ہے، یعنی سوراخ کر رہا ہے۔ ان میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کا ہاتھ نہیں روکتا۔ کیونکہ کسی نے اسے نہیں روکااس لئے کشتی میں پانی بھرگیااور وہ سب لوگ سمندر میں ڈوب گئے۔ }معاشرے میں رونما ہونے والی {برائیاں بھی اسی طرح ہوتی ہیں۔
اسکی وضاحت یوں ہے کہ: ایک شخص معاشرے میں برائیوں میں مشغول ہوتا ہے، منکرات کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایک دوسرا شخص اُسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے: مجھے اس سے کیا سروکار۔ دوسرا کہتا ہے: مجھے کونسا اسکی قبر میں جاکر حساب دینا ہے ۔ وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ معاشرہ ایک کشتی کی مانند ہوتا ہے۔ اگر کسی کشتی میں پانی داخل ہوجائے، چاہے وہ کسی ایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ سے داخل ہو، وہ صرف اسی شخص کو غرق نہیں کرتا، بلکہ تمام مسافروں کو ایک ساتھ لے ڈوبتا ہے۔
کیا بنی نوعِ انسان کے درمیان برابری اور مساوات کے بارے میں اس سے اعلیٰ درجے کی بات کہی جاسکتی ہے کہ:
اَلنَّاسُ سَواءٌ کَاَسْنانِ الْمَشْطِ
تمام انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔ تحف العقول۔ص۳۶۸میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے
(اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کنگھی نکال کر دکھائی تھی یا نہیں؟ ) کنگھی پر نگاہ ڈالئے، اسکے دندانوں کو دیکھئے۔ دیکھئے، کیا ان میں سے کوئی ایک دندانہ بھی دوسرے سے بڑا ہے؟ نہیں۔ انسان بھی کنگھی کے دندانوں کی طرح ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ غور کیجئے، اُس ماحول میں، اُس زمانے میں، ایک انسان انسانی مساوات کے بارے میں ایک ایساجملہ کہتا ہے کہ آج چودہ سو سال بعد بھی، کوئی اتناعالی جملہ نہیں کہہ سکا ہے!
حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے ہیں:
اَیُّہَاالنّاسُ!اِنَّ رَبَّکُمْ واحِدٌ وَ اِنَّ اَباکُمْ واحِدٌ کُلُّکُمْ لِآدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرابٍ، لافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلیٰ عَجَمِیٍّ اِلّا بِالتَّقْویٰ۔(۱)
اے لوگو! تمام افرادِ بشر کا پروردگار ایک ہے، تمام انسان ایک ہی باپ کی اولاد ہیں، تم سب فرزندِ آدم ہو، آدم کو خاک سے پیدا کیا گیاہے۔ لہٰذا کسی کے پاس اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ نسل و نژاد، اپنے حسب ونسب، اپنی ذات اورقومیت اور ان جیسی دوسری باتوں پر فخر کرے۔ ہم سب کے سب مٹی سے خلق ہوئے ہیں، اور خاک سے خلق ہوناکسی صورت باعثِ افتخار نہیں۔ پس روحانی اور معنوی فضائل اور تقویٰ پرافتخار کرنا چاہئے۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے، اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث ہم یہاں ”کافی“ سے نقل کررہے ہیں:
ثلاثٌ لَایُغِلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ امْرِءٍ مُسْلمٍ:اِخْلاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ وَ النَّصیحَۃُ لِاَءِمَّۃِ الْمُسْلِمینَ، وَاللُّزومُ لِجَماعَتِہِمْ۔(۲)
تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مومن کے دل میں اخلاص کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا ہے۔ یعنی محال ہے کہ کوئی مومن ان تین چیزوں کے بارے میں خیانت کا مرتکب ہو۔ان میں سے ایک چیز، اللہ رب العزت کے لئے عمل میں اخلاص ہے، مومن اپنے عمل میں ریانہیں کرتا۔ دوسری چیز، مسلمانوں کے حقیقی رہنماؤں کے لئے خیرخواہی رکھنا ہے، یعنی مسلمانوں کی بھلائی کے امور میں خیرخواہی، اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں ان رہنماؤں کو ہدایت ونصیحت ۔ تیسری چیز، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا مسئلہ ہے، یعنی نفاق کا مرتکب نہ ہونا، مسلمانوں کی صفوں میں شگاف نہ ڈالنا، مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
یہ جملے آپ نے بار ہا سنے ہوں گے:
کُلُّکُمْ راعٍٖ وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ۔
تم میں سے ہر ایک گلّے بان ہے اور اس سے اسکے گلّے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ الجامع الصغیر۔ ص۹۵
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسانِہِ وَ یَدِہِ۔
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۲۳۴
لَنْ تُقَدَّسَ اُمَّۃٌ حَتّٰی یُؤْخَذَ لِلضَّعیفِ فیھا حَقُّہُ مِنَ الْقَوِیِّ غَیْرَ مُتَعْتِعٍ۔
کوئی قوم مقامِ قداست نہیں پاسکتی، جب تک اسکے ضعیف اور کمزور افراکو، اپنی قوم کے قوی اور طاقتور افراد سے بلا جھجک اپنے حق کے مطالبے کی قدرت حاصل نہ ہو۔ نہج البلاغہ۔ مکتوب ۵۳
دیکھئے عملی کردار کیا ہوتا ہے اور کیاتاثیررکھتا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نقل کرتے ہیں کہ عہدِ رسالت میں، ایک سفر کے دوران، ہم آپ کے ہمراہ تھے۔ ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور طے پایا کہ یہاں کھانا پکایا جائے گا۔ ایک مویشی کاانتظام کیا گیا، تاکہ کچھ لوگ اسے ذبح کریں اور اس سے مثلاً آب گوشت تیار کرکے کھایا جائے۔ ایک صحابی نے دوسروں سے کہا اس کا سر میں کاٹوں گا، دوسرے نے کہا اسکی کھال میں اتاروں گا، تیسرے نے کہا مثلاً اسے پکاؤں گا میں اور اسی طرح اصحاب نے ذمے داریاں بانٹ لیں، پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: صحرا سے لکڑیاں جمع کرکے میں لاؤں گا ۔اصحاب نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! ہم اس خدمت پر افتخار محسوس کرتے ہیں، آپ آرام سے اپنی جگہ تشریف رکھئے، ہم خودسارے کام کرلیں گے۔آپؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے معلوم ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ یہ امورانجام نہ دیں، لیکن بات کچھ اور ہے۔ اسکے بعد آپ نے ایک جملہ فرمایا، کہا:
اِنَّ اللَّہَ یَکْرَہُ مِنْ عَبْدِہِ اَنْ یَراہُ مُتَمَیِّزاً بَیْنَ اَصْحابِہِ۔(۳)
خدا اپنے بندوں میں ایسے بندے کو دیکھنا پسند نہیں کرتاجو دوسرے بندوں کے درمیان اپنے لئے کسی امتیاز کا قائل ہو۔ میں اگر یہاں بیٹھارہوں اور صرف آپ لوگ جاکر کام کریں، تواس صورت میں، میں آپ کے مقابل اپنے لئے امتیازکا قائل ہوں گا۔اور خداوند عالم پسند نہیں کرتا کہ کوئی بندہ اپنے لئے یہ حالت اختیار کرے۔(۴) دیکھ لیجئے کتنی گہری بات ہے!
آج کی اصطلاح میں دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے ”اپنی ذات پر بھروسہ“ ایک صحیح بات ہے، البتہ یہ خدا پربھروسے کے مقابل نہیں ہے۔ اپنے اوپر اعتماد بالکل صحیح بات ہے، یعنی دوسرے انسانوں پر تکیہ نہ کرنا، جہاں تک ممکن ہواپنا کام خودکرنا، کسی سے تقاضا نہ کرنا۔
دیکھئے یہ تربیت کا کیسا عالی شان انداز ہے ! یہ }جو فرمایا ہے{: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکارِمَ الْاَخْلاقِ۔ اسکے کیامعنی ہیں؟
یہ بھی اصحاب نے نقل کیا ہے(۵) کہ ایک سفر کے دوران ہم نے ایک منزل پرپڑاؤکیا۔ سب لوگ وضو کی تجدید اور نماز کی تیاری کے لئے مصروف ہوگئے۔ ہم نے دیکھا کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی سواری سے اترنے کے بعد ایک سَمت روانہ ہوگئے ۔ کچھ دور جانے کے بعد اچانک واپس پلٹے ۔ اصحاب سوچنے لگے پیغمبرؐ نہ جانے کیوں واپس آرہے ہیں؟ کیا آپ نے آج یہاں پڑاؤ کا ارادہ بدل دیا ہے؟ سب انتظار کرنے لگے، شاید آپ یہاں سے چلنے کا حکم دیں گے؟ لیکن انہوں نے دیکھا کہ پیغمبرؐ نے کچھ نہ کہا، اپنی سواری کے پاس تشریف لائے، اور تھیلے میں سے اونٹ کا زانو باندھنے کی رسی نکالی، اپنے اونٹ کا زانو باندھااور دوبارہ اسی طرف روانہ ہوگئے۔ اصحاب تعجب سے کہنے لگے: پیغمبرؐ اتنے سے کام کے لئے آئے تھے؟ یہ تو بہت معمولی ساکام تھا! اگر وہیں سے کسی کو آوازدے دیتے کہ ذرا میرے اونٹ کا زانو باندھ دینا، تویہ کام کرنے کے لئے ہم میں سے ہر کوئی سر کے بل دوڑ پڑتا۔اصحاب نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہؐ! آپ ہمیں حکم دیتے، ہم میں سے جس سے بھی کہتے وہ کمالِ افتخار کے ساتھ یہ کام کردیتا۔
دیکھئے آنحضرؐت کس موقع، کس محل پر کس قدرعالی شان سخن فرماتے ہیں!کہتے ہیں: لایَسْتَعِنْ اَحَدُکُمْ مِنْ غَیْرِہِ وَلَوْ بِقُضْمَۃٍ مِنْ سِواکٍ۔ جس قدر ممکن ہو اپنے کاموں میں دوسروں کی مدد نہ لو، چاہے ایک مسواک مانگنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ جو کام خود کر سکتے ہو، اسے خود انجام دو۔
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مدد نہ لو اور جن کاموں کو خود نہیں کرسکتے اُن میں دوسروں سے تعاون طلب نہ کرو۔ نہیں، وہ تعاون طلب کرنے کا مقام ہے۔
اگر کسی کو معتبر کتب میں سے رسولِ اکرمؐ کے کلمات جمع کرنے کی توفیق نصیب ہو، اور یہ توفیق بھی ملے کہ وہ قابلِ اعتبار ماخذ(sources)سے سیرتِ رسول کو تحلیلی انداز سے جمع کرے اور اس کا تجزیہ و تحلیل کرے، تو اس وقت معلوم ہوگاکہ پوری دنیا میں اس عظیم الشان شخصیت سے بلند مرتبہ کوئی شخصیت پیدا نہیں ہوئی۔ پیغمبر اکرؐم کا پورا وجود معجزہ ہے۔ نہ فقط آپ کا لایا ہوا قرآن معجزہ ہے، بلکہ آپ سرتاپا معجزہ ہیں۔ ہم اپنی گزارشات کو دعا کے چند کلمات پر ختم کریں گے:
باسمک العظیم الاعظم الاعزّالاجلّ الاکرم، یا اللّٰہ۔۔۔
پروردگارا! ہمارے دلوں کو نورِ ایمان سے منور فرما۔ اپنی معرفت اور محبت کے انوارکو ہمارے قلوب پر تاباں فرما۔ ہمیں اپنی مقدس ذات کی معرفت عطا فرما۔
ہمیں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر کی معرفت عطا فرما۔ہم سب کے دلوں میں اپنی نبی اکرؐم کی محبت قرار دے۔ اہلِ بیت رسولؐ کی محبت اور معرفت کا نور ہم سب کے دلوں میں ڈالدے۔ ہمیں اپنے پیغمبرؐ اور ائمۂ اطہار ؑ کی سیرت سے آشنائی عطا فرما۔ ہمیں اسلام، قرآن اور ان مقدس ہستیوں کا قدردان بنا۔ ہمارے مرحومین کو اپنی عنایات اور رحمت میں شامل فرما۔
و عجّل فی فرج مولانا صاحب الزمان۔
۱۔تاریخ یعقوبی۔ ج۲۔ ص۱۱۰۔ معمولی فرق کے ساتھ۔
۲۔اصولِ کافی۔ ج۱۔ ص۴۰۳
۳۔ہدیۃ الاحباب۔ ص۲۷۷
۴۔یہ داستان شیعہ کتابوں میں موجود ہے۔ مرحوم شیخ عباس قمی رضوان اللہ علیہ نے اپنی متعدد کتب میں اسے نقل کیا ہے ۔
۵۔اسے بھی شیخ عباس قمی رضوان اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔ البتہ دوسروں نے بھی اسے نقل کیا ہے۔