سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کاایک جملہ ہے، جورسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کی تفسیر کرتا ہے، اور}یہ جملہ {بہت عجیب بھی ہے۔ جب اس نکتے سے میرا سامنا ہوا، تو میں اس سے اتنا متاثر ہوا کہ کوئی حد ہی نہیں۔ فرعون کو دعوت دینے کی غرض سے حضرت موسیٰ اورحضرت ہارو ن کے اُس کے پاس جانے کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جب انہیں حکم دیا گیا، تو وہ دونوں چرواہے کے لباس میں، دو چرواہوں کی مانند (چرواہے کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے) فرعون کے پاس پہنچے۔ وَ عَلَیْھِمَا مَدارعُ الصّوفِ۔ دونوں نے اون کا لباس پہنا ہوا تھا، جو سادہ ترین لباس تھا۔ وَ بِأیْدیھِمَاالْعِصِیُّ۔ اور دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک عصا تھا اور ان دونوں کا کل سرمایہ یہی تھا۔ اب فرعون اپنے اُس جاہ وجلال کے ساتھ} بیٹھا ہے، اور{ دو افراد اس کے پاس بوسیدہ اونی لباس پہنے، لاٹھیاں ہاتھ میں لئے آتے ہیں(۱) اور پوری روحانی طاقت و توانائی کے ساتھ اس سے مخاطب ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک پیغام ہے، ایک پیام ہے، ہم یہ پیغام پہنچانے آئے ہیں۔ اس اصل نکتے پر وہ قطعی یقین رکھتے ہیں کہ ہم اپنی دعوت میں کامیاب ہیں، ہم تم پراتمامِ حجت کے لئے آئے ہیں۔ کہتے ہیں: ہم سب سے پہلے تیرے پاس آئے ہیں کہ اگرتو اپنی فرعونیت کو چھوڑ دے اور سچے دل سے اسلام(۲) قبول کرلے، تو ہم تیرے اقتدار اور سلطنت کی ضمانت دیتے ہیں، لیکن اسلام کی حدود میں۔ فرعون نے اپنے اردگرد دیکھا اورکہا: اَلاٰ تَرَوْنَ ھٰذَیْنِ؟ انہیں دیکھ رہے ہو؟ جو پرانا بوسیدہ لباس پہنے اور خشک لکڑی کی دو لاٹھیاں ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں؟ اصل مسئلے کے بارے میں انہیں کامل یقین ہے کہ کامیابی ان کامقدر ہے، میرے پاس یہ شرط لے کرآئے ہیں کہ اگر آئندہ بھی تم عزت چاہتے ہو اور خاکِ مذلت میں گرنے سے بچنا چاہتے ہو، توآؤ اوراسلام قبول کرلو۔

اب فرعون کی منطق کیا ہے؟

فَھَلاَّ اُلْقِیَ عَلَیْھِمَا اَسَاوِرَۃٌ مِنْ ذَھَبٍ اگر واقعی ان کا مستقبل اتنا ہی تابناک ہے، توپھر اِن کی یہ وضع قطع اور حلیہ کیوں ہے؟ ان کا سونا چاندی اور جواہرات کہاں ہیں؟ ان کالشکر اورجاہ وحشم کہاں ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِعْظَاماً لِلذَّھَبِ وَ جَمْعِہٖ وَاِحْتِقَارًا لِلصُّوْفِ وَ لُبْسِہٖ۔

اس کی نظر میں پیسے کو بڑی حیثیت حاصل تھی اور سادہ لباس کو وہ حقیر سمجھتا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر یہ سچا ہے اور ایک خدائی سرچشمے سے منسلک ہے، تو وہ خدا آئے اور اسے ہمارے مقابلے میں دس گُنا زیادہ خزانہ اور جواہرات اور دبدبہ عطا کردے۔پس اس کے پاس یہ کیوں نہیں ہے؟

حضرت علی علیہ السلام بعدمیں اس فلسفے کی جانب( اشارہ کرتے ہیں)کہ کیوں خدا اپنے پیغمبروں کو اس طرح مبعوث کرتا ہے، اور ان کو یہ ظاہری شان و شوکت، ہٹو بچو، پیسہ اور جواہرات نہیں دیتا ہے؟ فرماتے ہیں: اگر یہ چیزیں انہیں خدا دیدے توپھر درحقیقت اختیار ختم ہوجاتا ہے۔

اگر جبری ایمان کا معاملہ ہو، تو سب ہی لوگ ایمان لے آئیں گے لیکن وہ ایمان نہیں ہے۔ ایمان یہ ہے کہ لوگ اسے حقیقت کی بنیاد پر اور اختیارکے ساتھ (قبول کریں) وگرنہ (خود امیر المومنین ؑ کی تعبیر ہے) خدا ان کے لئے حیوانات کو مسخرکرسکتا ہے (جیسے کہ اُس نے اپنے پیغمبرسلیمانؑ کے لئے یہ کیا) پرندوں کو ان کے لئے مسخر کر سکتا ہے اور جب یہ لوگ فرعون کے پاس آتے تو پرندے ان کے سروں پر اڑ رہے ہوتے، جانور ان کی تعظیم کر رہے ہوتے، تاکہ پھرلوگوں کے لئے کوئی شک باقی نہ رہتا اور اختیار مکمل طور پر ختم ہوجاتا۔ فرماتے ہیں، اس صورت میں لَا لَزِمَتِ الْاَسْمَآءُ مَعَانِیْھَا۔ پھریہ ایمان، ایمان نہ ہوتا۔ اُن کا ایمان، ایساایمان ہونا چاہئے جس میں کسی قسم کا جبر نہ ہو۔ معجزہ اور کرامت بھی صرف دلیل کی حد تک (استعمال ہوتے ہیں)۔ جب تک دلیل کی حد تک ہے، توقرآن کہتا ہے آیت، معجزہ، لیکن اگر دلیل کی حد سے زیادہ چاہیں، تو کہتا ہے پیغمبر معجزہ سازی کا کارخانہ لے کر نہیں آیا ہے۔ وہ اس لئے آیا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے اپنا دین پیش کرے۔ اس کی نبوت و رسالت کی صداقت کی گواہی کے لئے خدا اس کے ہاتھ سے معجزہ بھی ظاہر کرتا ہے۔

جیسے ہی اتمامِ حجت ہوجاتا ہے، معجزہ سازی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی ایک معجزہ یہاں، کبھی ایک معجزہ وہاں}دکھایا جارہا ہو {۔ ایک کہے: ذرافلاں معجزہ تو دکھاؤ، اور وہ کہے، بہت خوب }دکھاتا ہوں{۔ کوئی دوسرا ایک اور مطالبہ کرے، اور وہ کہے : بہت اچھے} ابھی دکھاتا ہوں{۔ ان شعبدہ بازوں کی طرح۔ ایک کہے کہ میں کہتا ہوں کہ اس آدمی کو لال بیگ بنا دیں، دوسرا کہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اس گدھے کو گھوڑے میں تبدیل کردیں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ یہ نہیں ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر ایسا ہوتا، تو ایمان، ایمان نہ ہوتا۔امام ؑ کا اگلا جملہ جس سے ہم استدلال کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ فرماتے ہیں: خدا اس قسم کے تکلفات، شان و شوکت اور دبدبے ہرگز اپنے نبی کو نہیں دیتا، اس قسم کی طاقتیں جو لوگوں کے واہمے کو متاثر کردیں، خدااپنے پیغمبروں کو نہیں دیتا اورپیغمبر بھی اس روش کی پیروی نہیں کرتے: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ جَعَلَ رُسُلَہُ اُولِی قُوَّۃٍ فِیْ عَزَاءِمِھِمْ۔ خدا نے اپنے پیغمبروں کو جو طاقت بھی دی ہے، وہ ان کی ہمت میں دی ہے، ان کے ارادے میں دی ہے، ان کے عزم میں دی ہے، ان کی روح میں دی ہے، کہ وہ وہی اونی لباس پہن کر، لکڑی کا عصا ہاتھ میں لے کرآتے ہیں اور ایک فرعون کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک قوت کے ساتھ بات کرتے ہیں: وَ ضَعَفَۃً فِیْمَا تَرَی الْاَعْیُنُ مِنْ حَالَاتِھِمْ۔(۳) اسکے بعد فرماتے ہیں:

مَعَ قَنَاعَۃٍ تَمْلَاُ الْقُلُوْبَ وَالْعُیُوْنَ غِنیً، وَخَصَاصَۃٍ تَمْلَأُ الْاَبْصَارَ وَالْاَسْمَاعَ اَذًی۔“(۴)

(شاید میں آپ کے لئے اس عبارت کا ترجمہ اور تفسیر نہ کرسکوں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ کرسکوں اورآپ بھی اسے اچھی طرح سمجھ لیں)

خدا نے انہیں ایسی قناعت کے ہمراہ جو }دیکھنے والوں کے {دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے، خود اُن کے اندر سے عزم و ارادے کی قوت دی ہے۔

آپ ایک شخص کودیکھتے ہیں جس کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے، اور جو میرے پاس یہ ہے، وہ ہے کہہ کرآپ کوحیرت میں ڈالنا چاہتا ہے، جبکہ ایک اور شخص کو دیکھتے ہیں جو}یہ کہہ کر کہ{ ”میرے پاس کچھ نہیں ہے، لیکن میں بے نیازہوں اورمجھے پروا نہیں۔“ لوگوں کی آنکھوں کوبے نیازی سے بھردیتا ہے۔

حضرت علی ؑ فرماتے ہیں انبیا بھی آنکھوں کو بے نیازی سے بھردیا کرتے تھے لیکن یہ کہہ کر کہ ”میرے پاس نہیں ہے اور میں بے نیاز ہوں۔“ یہ کہہ کر نہیں کہ یہ میرا باغ ہے، یہ میرا گھر ہے، میرے پیچھے اتنے گھوڑے چلتے ہیں، اتنے ملازم میرے ساتھ ہوتے ہیں، اتنا جاہ و جلال اور شان و شوکت ہے۔ انبیا میں سے کسی نے بھی اس شان و شوکت کو اپنے آپ سے وابستہ نہیں کیا۔ انتہائی سادگی میں}رہا کرتے تھے{، لیکن ان کی یہی سادگی اُس جاہ و حشم اور اُس شان و شوکت کوبرباد کر دیتی تھی۔

۱۔ یہاں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے کہ انہیں فرعون تک پہنچنے کے لئے کیسی کیسی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑاتھا۔

۲۔ اسلام یعنی وہی دین حق جو ہر زمانے میں رہا ہے اور پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھوں اپنے کمال تک پہنچا ہے ۔ قرآن سب کو اسلام قرار دیتا ہے اور انہیں اسلام سے تعبیر کرتا ہے۔

۳۔ دوسروں کو ان کے جو حالات نظر آتے ہیں ان میں انہیں کمزور وناتواں قرار دیتا ہے۔

۴۔نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۹۰