ذریعے کے استعمال کی کیفیت
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
چوتھی نشست - ذریعے کے استعمال کی کیفیت
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العٰلمین بارئ الخلائق اجمعین۔ و الصلٰوۃ و السلام علیٰ عبد اللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ سیّدنا و نبیّنا و مولانا ابی القاسم محمد و آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱
ایک اور مسئلہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت سے سیکھنا چاہئے، وہ ہے ”ذریعے سے استفادے کی کیفیت“۔ سب سے پہلے تو انسان کواپنے اہداف میں مسلمان ہونا چاہئے۔ یعنی اس کا مقصد مقدس، بلند اور الٰہی ہو۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان کوان اہداف کے حصول کےلئے ذریعے کے استعمال میں بھی سچا مسلمان ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ہدف ومقصد کے اعتبار سے مسلمان نہیں ہوتے، یعنی زندگی میں ان کامقصد صرف کھانا، پینا، پہننا اور لذت اٹھانا ہوتا ہے، واحد مقصد جس کے بارے میں وہ سوچتے ہیں، وہ یہ ہوتاہے کہ کس طرح سے زندگی گزاریں تا کہ زیادہ سے زیادہ تن آسانیاں حاصل ہوں۔درحقیقت ان کے مقاصدایک حیوان کے مقاصدسے آگے نہیں بڑھتے۔
ایسے لوگوں کو نہ صرف مسلمان نہیں کہا جاسکتا، بلکہ انہیں انسان بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ایک انسان کو انسان ہونے کے ناطے حیوانی شہوات کی حدوں سے بالاترایک مقصد کا حامل ہونا چاہئے۔ اور اگر انسان سچا مسلمان ہو، تو اس کے تمام اہداف ومقاصدکا خلاصہ ایک کلمے میں ہوجاتا ہے اور وہ ہے خدا اور خوشنودئ خدا۔
اگلے مرحلے میں انسان مجبورہے کہ اپنے پاک، مقدس اوربلند مقاصد کے حصول کے لئے کچھ ذرائع سے استفادہ کرے۔ جو مسئلہ یہاں درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ کیا مقصد وہدف کا محض انسانی یا اس سے بڑھ کر اس کا الٰہی ہونا کافی ہے؟ اگرمقصد الٰہی ہو، تو پھر }اسکے حصول کے لئے { جو بھی ذریعہ اختیار کیا جائے، کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس مقدس مقصد} کے حصول{ کی خاطر ہر ذریعے سے کام لیا جاسکتا ہے؟
بالفرض ہمارامقصد ایک مقدس مقصد ہے۔ کیا مقدس مقصد کے لئے ہرذریعے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟ خواہ وہ ذریعہ غیرمقدس اورناپاک ہی کیوں نہ ہو، یا نہیں، مقدس مقصد کے لئے مقدس ذریعہ ہی استعمال کرنا چاہئے، غیر مقدس اورناپاک ذریعہ نہیں۔
اب ہم کچھ مثالیں ذکر کرتے ہیں، تاکہ بات واضح ہوجائے۔
تبلیغِ دین کے لئے ناجائز ذریعے کا استعمال
ہمارامقصددین کی تبلیغ ہے۔ اب اس سے بہتر }مقصد{توکوئی ہوہی نہیں سکتا۔ ایک مرتبہ ہمارا مقصد کوئی ذاتی کام ہوتا ہے، ہم ایک کام خود اپنے لئے انجام دیناچاہتے ہیں، اپنی رفاہ اور اپنے فائدے کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔اس صورت میں تو بالکل واضح ہے۔ لیکن اگرہم چاہیں کہ کوئی کام اپنے لئے نہیں، بلکہ دین کے لئے انجام دیں، تو کیا اس صورت میں اس کام کی انجامدہی کے لئے ہمارا کسی بھی ذریعے سے استفادہ کرنا جائز ہوگا؟
اگرہم اپنے ذاتی فائدے کے لئے کوئی کام کرنا چاہیں۔ مثلاً جب میرا کام روپے پیسے کی وجہ سے یا کسی دفتر میں پھنس جائے، تومیں آپ کے پاس پہنچ جاؤں(کیونکہ آپ میری مشکل کو حل کرسکتے ہیں)اور اپنی مشکل کو حل کرنے کے لئے دو چار جھوٹ گھڑ لوں، تو اس موقع پر ہر کوئی مجھے ملامت کرے گا، کہیں گے اسے دیکھو، اپنا مسئلہ حل کرنے کے لئے چاپلوسی کر رہا ہے، خوش آمد کر رہا ہے، جھوٹ بول رہا ہے، تہمت لگا رہا ہے۔
لیکن ایک مرتبہ مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ میں ایک مسجد بنانا چاہتا ہوں۔ اپنے لئے تو نہیں بنانا چاہتا۔ واقعاً مسجد بنانے میں میرا کوئی برا مقصد بھی نہیں ہے۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے فلاں علاقے میں، جہاں مسجد نہیں ہے، مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے، تا کہ لوگ وہاں آکر نماز پڑھیں، وعظ کی مجالس کا اہتمام ہو، بچے وہاں آکر دینی احکام سیکھیں اورنشستیں منعقد ہوں۔ اس مسجد کے لئے سازو سامان درکار ہے، دوسری مشکلات ہیں، ممکن ہے دفتری کارروائیوں میں کوئی رکاوٹ پیش آجائے، اس کے لئے لوگوں سے پیسے بھی جمع کرنے ہوں گے۔اب کوئی مخیر شخص مسجد کے معاملات کے حل کے لئے کمر کستا ہے، کسی کے پاس جاتا ہے، اُس سے بات چیت کرتا ہے تاکہ کسی بھی طرح اُس سے رقم حاصل کرے، چار جھوٹ بولتا ہے، اور آخر کار مسجد کے لئے پانچ ہزار تومان(۱) نکلوا لیتا ہے، ایک اور آدمی سے دو جھوٹ بولتا ہے، کسی اور کی تھوڑی سی خوش آمد کرتا ہے کہ آپ کے کیا کہنے آپ تو ایسے ہیں، ویسے ہیں، ہم توعرصہ دراز سے آپ کے عقیدت مند ہیں، میں نے خواب دیکھا ہے کہ مثلاً آپ جنت میں گھر بنا رہے ہیں، یقیناًایسا ہی ہے، اوراس طرح اس شخص سے بھی دس ہزار تومان حاصل کر لیتا ہے، پچاس ہزار تومان کسی اور سے لےلیتا ہے۔
اب اسے ہم کیا کہتے ہیں؟
شاید بہت سے لوگ اس کا م کومقدس سمجھتے ہوں اور اسے ایک قسم کی قربانی قرار دیتے ہوں، کہتے ہوں کہ دیکھئے یہ بیچارہ اپنے لئے تو یہ سب کچھ نہیں کررہا، صبح سے شام تک مسجد کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ دیکھئے یہ شخص اس کام کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا؟ جس کسی کے بھی پاس جاتا ہے، جس طرح سے بھی ہوتا ہے بالآخر اس مسجدہی کے لئے پیسے لاتا ہے۔ واقعاً یہ ایک ایثار و قربانی کرنے والا انسان ہے۔
یہ عمل درست ہے، یا نہیں؟ یہ ایک مسئلہ ہے۔
۱۔ ایرانی کرنسی