سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

ایک اور شخص ( ایسا تاریخ میں ہوا ہے) لوگوں کی ہدایت اور اُن کی رہنمائی کے لئے پیغمبرؐ یا امام ؑ سے کوئی حدیث گھڑ لیتا ہے، حالانکہ اس کی کوئی ذاتی غرض نہیں ہوتی، بلکہ وہ لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتا ہے، لیکن سوچتا ہے کہ اگر لوگوں کے لئے پیغمبرؐ یا امام ؑ سے کوئی حدیث نقل کردے، تو لوگ بہتر طور پر قبول کرلیں گے۔ مثلاً (دل میں کہتا ہے) لوگ جو اتنی غیبت کرتے ہیں اور بیہودہ باتیں کرتے ہیں، انہیں غیبت اور بیہودہ باتوں سے روکنے کے لئے بہتر ہے کہ میں فلاں دعا کی فضیلت میں ایک حدیث گھڑ لوں، تاکہ لوگ یہ حدیث دیکھیں اور پھر بیہودہ باتوں اور غیبت کی بجائے وہ دعا پڑھیں، یا قرآن کے ثواب کے بارے میں کہوں کہ قرآن کی فلاں سورت کو اگر چالیس مرتبہ مسلسل پڑھو گے تو فلاں اثر ہوگا۔

کیا یہ کوئی مستحسن عمل ہے؟

یہ ایک مسئلہ ہے۔

مقصد نیک ہے، لیکن ایک آدمی جھوٹ بول کر یا جعلی حدیث کے ذریعے اس نیک مقصد کو حاصل کرنا چاہتاہے۔

کیا یہ درست ہے؟ یا نہیں درست نہیں ہے؟

تاریخ میں بہت سے لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ ایک حدیث ہے جسے تفسیر کی زیادہ تر کتابوں میں لکھا گیا ہے، بظاہر مجمع البیان کے مقدمے میں بھی ہے اور میں نے اسے بارہا کتابوں میں پڑھا ہے۔ اس حدیث کوقرآنی سوروں کی قرأت کے مخصوص فضائل کے بارے میں اُبَیّ بن کعب سے نقل کرتے ہیں، مثلاً سورۂ سبِّح اسْمَکی قرأت کے لئے خاص فضیلت کا ذکر کرتے ہیں، سورۂ ہَلْ اَتیٰکَ حدیثُ الْغَاشِیَۃ کے لئے فضیلت اور دوسرے ثواب کا، سورۂ لَمْ یَکُنِ الَّذینَ کَفَرُواکے لئے ایک اور ثواب کا، سورۂ بقرہ کے لئے ایک اور ثواب کا، سورۂ آلِ عمران کے لئے ایک اور ثواب کا۔ ہر ایک کے لئے ایک بات کہی ہے۔یہ سب پیغمبر اکرمؐ ہی سے روایت کی گئی ہیں۔ ایک آدمی اُس شخص کے پاس گیا جو ان کی روایت کررہا تھا، اور اس سے پوچھا: آخر کیا وجہ ہے کہ صرف تم ہی نے ان احادیث کو روایت کیا ہے، تمہارے علاوہ کسی ایک شخص نے بھی ان کو روایت نہیں کیا؟ کہنے لگا: اگرسچ پوچھتے ہو تو حقیقت یہ ہے کہ ان احادیث کومیں نے رضائے الٰہی کے لئے گھڑا ہے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ محفلوں میں بیٹھتے ہیں اور زمانۂ جاہلیت کے افسانے اور تاریخ بیان کرتے ہیں اور جاہلیت کے اشعار پڑھتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اس لئے میں نے اس بیہودہ کام کی جگہ لوگوں کو تلاوتِ قرآن کی طرف مائل کرنے کی غرض سے ان احادیث کو پیغمبر اکرؐم کی زبان سے نقل کردیا، اور اس میں کوئی برائی نہیں!

دوسراآتا ہے اور فلاں مقصد کے لئے ایک خواب گھڑ لیتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ اس خواب کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کر رہا ہے۔

کیا یہ کام درست ہے کہ انسان نیک مقصد کے لئے، ناجائز ذرائع استعمال کرے؟ نہیں، یہ غلط کام ہے۔

یہ بات پہلے بھی میرے ذہن میں بار بارآتی تھی، آج ہی جب میں اس حوالے سے تفسیر المیزان کا مطالعہ کررہا تھا، تومیں نے دیکھا کہ انہوں نے تبلیغِ نبوت کے آداب میں، جنہیں انہوں نے قرآن سے اخذ کیاہے، } بیان کیا ہے {کہ مجموعی طور پر تمام انبیا، جن میں رسولِ اکرؐم بھی شامل ہیں، کن آداب کا خیال رکھا کرتے تھے۔ ان آداب میں انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ابنیاؑ کی سیرت اورروش یہ تھی کہ وہ حق تک پہنچنے کے لئے ہرگز باطل سے استفادہ نہیں کرتے تھے، حق تک پہنچنے کے لئے خود حق ہی سے استفادہ کرتے تھے۔

کیا قرآنی داستانیں غیر حقیقی ہیں؟

مصرسے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے بعض قرآنی داستانوں کے بارے میں ایک فضول بات کہی ہے( جو کبھی کبھی مصرکے علاوہ دوسرے ممالک کے لکھنے والوں کے یہاں بھی ملتی ہے) }ان کا کہنا ہے {کہ فلاں داستان دنیا کی تاریخوں میں کہیں نہیں ملتی۔ ٹھیک ہے نہیں ملتی، لیکن کیا دنیا میں واقع ہونے والے تمام حوادث تاریخی کتابوں میں موجودہیں؟ جو تاریخی کتابیں آج ہمارے پاس موجودہیں، وہ تقریباً تین ہزار سال پہلے کی ہیں۔یعنی اسلام سے تقریباً چودہ سو سال پہلے سے} تعلق رکھنے والی{ دنیا کی تاریخ کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ کسی حد تک واضح ہے، اس سے پہلے کی کوئی درست تاریخ ہمیں دنیا میں نہیں ملتی۔ چار پانچ ہزار سال پہلے کی تاریخ کو زمانۂ قبل از تاریخ کہا جاتا ہے۔

کچھ لوگوں نے بعض قرآنی قصوں کے بارے میں کہا ہے کہ قرآن کا مقصد نیک ہے، وہ (ان) قصوں کو نصیحت حاصل کرنے اور عبرت کے لئے نقل کرتا ہے۔ قرآن، تاریخ کی کتاب تو ہے نہیں جو واقعہ نگاری کرنا چاہتی ہو، قرآن واقعات کو نصیحت کے لئے ذکر کرتا ہے۔ جب مقصد وعظ و نصیحت ہے، تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جو واقعہ قرآنِ مجید نقل کرتا ہے وہ واقع ہوا ہو، یااس نے اسے نتیجے کے حصول کے لئے ایک داستان کی صورت میں نقل کیا ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے بہت سے حکما نے جانوروں کی زبان سے انتہائی عظیم نصیحتیں بیان کی ہیں، جن کے متعلق تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہ غیر حقیقی ہیں، جیسے کلیلہ و دمنہ کی داستانیں، جن میں ہے کہ مثلاًخرگوش نے یہ کہا، لومڑی یہ بولی، شیر نے یہ کہا، شیرآیا اوراور لومڑ ی سے یوں بولا، پھر خرگوش کو ذمے داری دی گئی وغیرہ۔ جب کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو عاقل اور ہوشیار ہونا چاہئے اور جسامت اور طاقت عقل، فکر اور ہوشیاری کی برابری نہیں کرسکتی، تو کہتے ہیں کہ خرگوش اپنے اس چھوٹے سے جسم اور کم طاقت کے باوجود اتنے بڑے اور طاقتور شیر کوآخرکار کنویں میں معلق کردیتا ہے ۔ اس بات کو وعظ و نصیحت کے لئے بیان کیا جاتا ہے، وگرنہ یہ قصہ واقع نہیں ہوا ہے، کہ سچ مچ کوئی شیر، لومڑی اور خرگوش ہو اور انہوں نے آپس میں کوئی گفتگو کی ہو۔ بعض نے نعوذ باللہ یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اس بات کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں کہ ہم قرآنی قصوں کے بارے میں اس اعتبار سے غور کریں کہ آیا قرآنی قصے تاریخ کا حصہ ہیں، یا یہ وعظ و نصیحت کے لئے تمثیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لیکن یہ انتہائی فضول بات ہے۔ محال ہے کہ انبیاؑ اپنی منطقِ نبوت میں، ایک حقیقت کے لئے، نعوذ باللہ ایک ایسی بات کو جو واقع نہیں ہوئی اور ایک جھوٹ کو تمثیل ہی کی صورت میں سہی بیان کریں۔

دنیاکی ادبیات(literature)میںیہ باتیں بہت زیادہ ملتی ہیں۔ جن لوگوں نے جانوروں کی زبان سے گفتگوبیان کی ہے، ان کے علاوہ بھی ان لوگوں نے جنہوں نے جانوروں کی زبان سے گفتگو بیان نہیں بھی کی انہوں نے بھی (تمثیل سے استفادہ کیا ہے)۔ حتیٰ سعدی کی یہی داستانیں جو گلستان اور بوستان وغیرہ میں آئی ہیں اُن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ اُن کی کوئی تاریخی اہمیت ہے بھی یا نہیں، اور ان میں سے بہت سیوں کے بارے میں یقیناً شبہہ پایا جاتا ہے، اس وجہ سے کہ درحقیقت کہانی خوداپنی تردیدآپ کر رہی ہوتی ہے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ جب میں ہندوستان میں تھا، تو سومنات کے مندر میں گیا، وہاں زند}پارسیوں کی مقدس کتاب {اورپازند }زند کی ایک تفسیر{ پڑھی جارہی تھی۔ پھر میں نے بتوں کو توڑا، ایسا کیا، ویسا کیا۔ بنیادی طور پر یہی معلوم نہیں کہ سعدی اپنی زندگی میں وہاں گئے بھی تھے یا نہیں۔ اور اگر وہ سومنات کے مندر گئے بھی ہوں، تو وہاں زند اور پازند کیا کر رہی تھیں؟ یا وہ کہتے ہیں: جب میں کاشغر میں تھا، تو میں نے ایک بچے کو دیکھا جو نحو کی کتاب پڑھ رہا تھا، میں نے اُس سے یہ کہا اور اُس نے مجھے یہ جواب دیا۔ نہیں، سعدی کا مقصد وہ نصیحت ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سلطان محمود اور ایاز کی زبان سے باتیں بیان کرتے ہیں، ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

قرآنِ مجید، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ اطہار علیہم السلام اور وہ لوگ جو اس مکتب کے تربیت یافتہ افراد ہیں، محال ہے کہ وہ پاکیزہ مقصد کے لئے ایک غیر پاکیزہ چیزسے، مثلاً ایک کھوکھلی چیزسے، ایک باطل چیزسے، ایک بے حقیقت چیزسے، خواہ وہ ایک تمثیل ہی کیوں نہ ہو استفادہ کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کی تمام داستانیں، جس طرح سے قرآن نے بیان کی ہیں، عین حقیقت ہیں۔ وہ داستان جو قرآن نے نقل کی ہے، اسکے قرآن میں نقل ہونے کے بعد ہمارے لئے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم دنیا کی تاریخوں میں اس کی تائید تلاش کریں۔ دنیا کی تاریخوں کو قرآن سے تائید لینی چاہئے۔انہوں نے(علامہ طباطبائی نے) تفسیر المیزان میں اس اصول کوآیاتِ قرآنی کی دلیل سے ثابت کیاہے کہ بنیادی طور پر انبیا کی سیرت میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی کہ انہوں نے اپنے مقدس مقصد کے لئے بھی کسی غیر مقدس چیز سے استفادہ کیا ہو۔

 

جدّت پسند اور قدامت پسند علما کے درمیان مشہور دو باطل خیالات

اس حوالے سے ایک بات ہمارے متجدّدین(modernist) کے یہاں مشہورہوگئی ہے اور ایک بات ہمارے متقدّمین کے یہاں، اور ان دونوں ہی نے حقیقت کو ایسا نقصان پہنچایا ہے جسے خدا ہی جانتا ہے۔ وہ بات جوجدّت پسندوں کے یہاں بیان کی جاتی ہے اور اس پر بہت زیادہ زور بھی دیا جاتا ہے، وہ فرنگیوں سے لی گئی ہے اوراسے مصری اس قاعدے اور ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں: الغایاتُ تُبَرِّرُ المَبادِی۔ یعنی مقصد ذریعے کو جواز فراہم کردیتا ہے۔ لہٰذا کوشش کرو کہ تمہارا مقصد نیک ہو۔ اپنے نیک مقصد کے لئے، تم ہرذریعے سے، حتیٰ ناجائز ذریعے سے بھی استفادہ کر سکتے ہو۔

اور جو چیز ہمارے قدامت پسندوں میں کسی حد تک عام ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ایک حدیث نقل کرتے ہیں (البتہ) یہ حدیث ہے اور حتیٰ شیخ انصاری رضوان اللہ علیہ نے ”مکاسبِ محرمہ“ میں اسے نقل کیا ہے، اور دومقامات پر نقل کیا ہے، ایک مقام پر تفسیر نہیں کی ہے، لیکن دوسرے مقام پر تفسیر کی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ اگر تم بدعت کرنے والوں کو دیکھو، یعنی ایسے افراد کو دیکھو جو دین میں بدعت پیدا کرتے ہیں، فَباھِتُوھُمْ۔ (۱) جو لوگ دین میں بدعت ایجاد کرتے ہیں، یعنی وہ افراد جو دین میں ایسی چیزیں بناکر داخل کرتے ہیں، اور ایسی چیزیں لاتے ہیں، جو دین کا حصہ نہیں ہیں۔ اِدْخالُ مَا لَیْسَ فِی الدِّینِ فِی الدِّین۔ کو بدعت کہتے ہیں، یعنی کوئی شخص ایک ایسی چیز کولاکر جو دین کا حصہ نہیں ہے، دین کے نام سے دین میں داخل کردے، اس انداز سے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ دین کا حصہ ہے۔ اس کے برعکس بھی ہے۔ ایک ایسی چیزجودین کاحصہ ہے، اسکے ساتھ ایسا کام کریں کہ لوگ سمجھیں کہ یہ دین کا حصہ نہیں ہے۔ دونوں صورتیں بدعت ہیں۔ (اس مقام پر حدیث کی وضاحت سے پہلے ایک نکتے کا ذکر ضروری ہے)

۱۔ تو انہیں مبہوت کردو۔