پیغمبرؐ کے کردار کی گہرائی
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردارکی تفسیراور توجیہ میں بھی بالکل یہی بات ہے۔ جس طرح کلامِ رسولؐ بامعنی ہوتا ہے اور ایک معنی کے لئے ادا ہوتا ہے، اسی طرح آنحضورؐ کے تمام اعمال بھی بامعنی اور تفسیر کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں غور و فکر کرنا چاہئے:
”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ ۔“
بالخصوص قرآنِ کریم کی اس تعبیر کی رو سے کہ تمہارے لئے پیغمبرؐ کے وجود میں اسوہ اور تاسی ہے، اور پیغمبر کا وجود ایک ایسا منبع اور مرکز ہے جس سے تمہیں (زندگی کی راہ وروش) حاصل کرنی چاہئے، کسی ایک فرد کا آکر پیغمبرؐ کے صرف کلمات نقل کردینا (کافی نہیں ہے)۔ بہت سے راوی ایسے ہیں جوکچھ بھی نہیں سمجھتے۔ یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم آئیں اور پیغمبر اکرم کی تاریخ نقل کریں اور کہیں کہ آپ نے فلاں مقام پر ایسا کیا۔اہم بات پیغمبرؐ کے عمل کی وضاحت اور اسکی تشریح ہے۔ فلاں مقام پر نبی اکرمؐ نے اس قسم کا طرزِ عمل اختیار کیا، یہ طرزِ عمل کیوں اختیار کیا؟ آپ کا مقصد کیا تھا؟ پس جس طرح گفتارِ رسولؐ میں غور و فکر اوراسکی تفسیروتشریح کی ضرورت ہے، اُسی طرح رفتارِ نبیؐ میں بھی غور و فکر اوراسکی توضیح و تفسیر کی ضرورت ہے۔
ہم اپنے بارے میں افسوس کے اس اظہار سے گریز نہیں کرسکتے کہ ہم جو پیغمبر آخرالزماںؐ کی امت ہیں، اگرہم میں سے کسی سے پوچھا جائے تو نہ توہم پیغمبرؐ کے چند کلمات سے واقف ہیں (حتیٰ ان کے الفاظ تک سے نابلد ہیں چہ جائیکہ ان کے معنی اور تفسیر سے) اور نہ ہم آنحضرتؐ کی سیرت اورآپؐ کے کردار کے حوالے سے چند جملے کہہ سکتے ہیں۔ اس بات کو ہم نے بعض دوسرے مقامات پر بھی کہا ہے۔ ایران کے مشہورلکھنے والوں میں سے ایک شخص جس نے دو تین سال پہلے وفات پائی ہے، البتہ وہ مذہبی شخص نہیں تھا (ابتدائے عمر میں تو بالکل ہی مذہبی نہیں تھا، لیکن عمر کے آخری حصے میں ہماری شائع شدہ کتابوں کے توسط سے اس کا ہم سے رابطہ ہوااور وہ کچھ کچھ (مذہب کی طرف) مائل ہوگیا تھا) اُس نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا: میں حکمتِ ادیان کے موضوع پر ایک کتاب کا ترجمہ کر رہا ہوں، یعنی وہ حکیمانہ باتیں جو دنیا کے مختلف ادیان میں موجود ہیں۔ وہ حکیمانہ باتیں جو آج دین یہود میں موجود ہیں، وہ حکیمانہ باتیں جو انجیل میں موجود ہیں، وہ حکیمانہ باتیں جو زردشت سے منسوب ہیں، وہ حکیمانہ باتیں جو گوتم بدھ سے منسوب ہیں، وہ حکیمانہ باتیں جو کنفیوشس کی ہیں، وہ حکیمانہ باتیں جو ہمارے پیغمبر کی ہیں۔ کہنے لگا: مجھے صرف سید ہونے کے ناطے برا لگا ہے، کیونکہ اس }کتاب کے مصنف { نے ہر ایک کے بہت سے کلمات نقل کئے ہیں، لیکن جب پیغمبر اسلامؐ پر پہنچا تو صرف چند مختصر جملے نقل کئے ہیں۔کیونکہ میرا ترجمہ، آزاد ترجمہ ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ پیغمبر ؐکے کچھ اور کلمات نقل کروں۔ لیکن }یہ کلمات{ میری دسترس میں نہیں ہیں۔ کہنے لگا: میں نے ارادہ کیا ہے کہ سو آیات قرآنِ کریم کی، سو جملے کلماتِ نبیؐ کے اور سو جملے کلماتِ امیرالمومنین ؑ کے نقل کروں گا۔ قرآنِ کریم کے بارے میں کہنے لگا کہ کیونکہ ترجمہ شدہ قرآن موجود ہے (آقائے قمشہ ای کا ترجمۂ قرآن) اس لئے میں خود ہی اس سے چندآیات کا انتخاب کرسکتا ہوں۔ کلماتِ امیر المومنین ؑ کے لئے بھی کیونکہ نہج البلاغہ کے متعدد ترجمے موجود ہیں، لہٰذا میں اُن سے انتخاب کرسکتا ہوں، رہی بات کلامِ نبویؐ کی، تو کیونکہ میں کچھ زیادہ عربی نہیں جانتا اور فارسی میں بھی تلاشِ بسیار کے باوجودمجھے کچھ نہیں ملا ہے، اس لئے اگر ہوسکے تو آپ نبی اکرمؐ کے سو جملے ڈھونڈکر اُن کا ترجمہ بھی کردیجئے، جنہیں بعد میں، میں اپنے ذوق کے مطابق اپنے قلم سے تحریرکرلوں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اور پھر رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سو جملے جمع کرکے اُس کے حوالے کردیئے، ترجمہ بھی کردیا کہ کہیں وہ معنی میں غلطی نہ کر بیٹھے، بعد میں اُس نے ”حکمتِ ادیان“ نامی کتاب میں انہیں شائع کردیا۔(۱) البتہ اس نے وہاں تذکرہ نہیں کیاہے کہ نبی اکرمؐ کے یہ سو جملے اُس نے کہاں سے لئے ہیں۔ میں بھی نہیں چاہتا تھا، کیونکہ میرا مقصد تھا کہ یہ کام ہوجائے۔
بہرحال وہ ایک مرتبہ میرے پاس آیا اورکہا: جناب! ہمارے نبیؐ کے ایسے جملے ہیں؟ میں تو نہیں جانتا تھا۔ حالانکہ وہ خود ایران کا ایک معروف قلمکار تھااور ایک ایسا شخص تھا جسے بیرونی دنیا میں بھی اہمیت دی جاتی ہے اور جب ایران کے صفِ اوّل کے قلمکاروں کو شمار کرتے ہیں، تو اُن میں اسے بھی شمار کرتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو بقولِ خود سید ہے اور (پوری) زندگی اس کاواسطہ کتابوں ہی سے رہا ہے، اسے معلوم نہیں تھا کہ ہمارے نبی کا کلام ایسا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ: ہمارے نبیؐ کے ایسے کلمات ہیں، اورمجھے نہیں معلوم تھے؟ میں نے کہا: ہاں!جب کتاب شائع ہوگئی تواسکے بعد بولا: جناب!اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا کلام دوسرے تمام پیغمبروں ؑ کے کلام سے بڑھ کر ہے۔ انتہائی گہرا اور بامعنی ہے۔
ہم مسلمان اس قدر کوتاہی کے مرتکب کیوں ہوئے ہیں کہ ہمارا ایک قلمکار(جو خود بھی قصوروار ہے)یہ تک نہیں جانتا کہ نبی اکرم کا کوئی حکمت آمیز کلام ہے بھی یا نہیں، حالانکہ میں نے ان کلمات کا انتخاب نہیں کیا تھا، بلکہ ان میں سے کچھ میرے ذہن میں تھے، کچھ کو اثنیٰ عشریہ سے لیا تھا اور کچھ کو تحف العقول سے نقل کر کے اسکے حوالے کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کے بارے میں شاید ہم اس سے بھی زیادہ کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہوں گے۔ چند سال پہلے میں نے سوچا کہ اس خاص روش پرجس کے متعلق میں بعد میں عرض کروں گا سیرتِ پیغمبرؐ کے موضوع پر ایک کتاب لکھوں ۔ میں نے متعدد یادداشتیں (notes)تیار کیں، لیکن میں جتناآگے بڑھا، یہ دیکھا کہ گویا ایک ایسے سمندر میں اتر رہا ہوں جو بتدریج گہرا ہی ہوتاچلا جارہا ہے۔ البتہ میں نے اس کام کو ترک نہیں کیا ہے، البتہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں سیرتِ رسول لکھ سکتا ہوں لیکن ما لا یُدْرَکُ کُلُّہُ لا یُتْرَکُ کُلُّہُ۔ (جس چیز کو پورے طور پر حاصل نہ کیا جاسکے اسے پورے طور پر چھوڑنا بھی نہیں چاہئے) میں نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ خدا کی مدداورنصرت سے ایک دن اس موضوع پرکچھ ضرور لکھوں گا، تاکہ بعد میں آنے والے دوسرے لوگ اس سے بہتر لکھیں۔ لیکن جب انسان غوروفکر کرتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ کس قدر گہرائی ہے۔ جس طرح ہمارے نبی کا کلام عمیق ہے، اسی طرح ہمارے نبی کا کردار بھی عمیق ہے اور نبی کریمؐ کے انتہائی معمولی عمل سے بھی قوانین اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ انسان کے لئے دور ترین مسافتوں کی نشاندہی کے لئے نبی کا ایک چھوٹا سا عمل بھی ایک چراغ ہے، ایک قندیل ہے، ایک مشعل ہے ۔
۱۔ (یہ جملے کتاب کے آخر میں سو کلماتِ پیغمبر ؐ کے عنوان سے شامل کر دیئے گئے ہیں۔)