حضرت علی ؑ اور جنابِ زہراؑ کی وفات
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
آخری شب ہے اورآج خصوصی طور پر مصائب کا ذکر ہونا چاہئے۔ معمول کے مطابق اور خصوصاً ایام کی مناسبت سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب بیان ہونے چاہئیں۔
حضرت علی علیہ السلام پرحضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا غم غیر معمولی طور پر سخت اور دشوار تھا۔ حضرت زہراؑ کی طبیعت ناساز تھی اور وہ بستر پر دراز تھیں۔ حضرت علی ؑ، حضرت زہرا ؑ کے سرہانے تشریف فرما تھے۔ حضرت زہراؑ نے کلام کرنا شروع کیا۔ آپ نے انکساری اور عاجزی کے ساتھ چند جملے فرمائے، حضرت علی ؑ پرحضرت زہراؑ کی اس غیر معمولی انکساری سے رقت طاری ہوگئی، اور آپ رونے لگے۔ بی بی کے جملوں کا مضمون یہ ہے: اے علی ؑ ! میری زندگی کا چراغ گُل ہواچاہتا ہے، میں دنیا سے رخصت ہورہی ہوں، میں نے آپ کے گھر میں ہمیشہ اچھی طرح رہنے کی کوشش کی ہے، کوشش کی ہے کہ کبھی آپ کی حکم عدولی نہ کروں، میں نے ہرگزآپ کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت زہراؑ نے اسی قسم کی مزید باتیں کیں۔ یہ باتیں حضرت علی ؑ پر اس قدراثر انداز ہوئیں کہ آپ ؑ نے حضرت زہراؑ کا سر اپنے سینے سے لگا لیا اور رونے لگے: اے دخترِرسولؐ!آپ ان باتوں سے کہیں بڑھ کر ہیں، آپ اس سے کہیں عظیم تر ہیں کہ ان باتوں کا فرماناآپ کے لئے درست ہو، یعنی آپ اس قدر انکساری کیوں کر رہی ہیں؟ میں آپ کی اس بہت زیادہ انکساری سے پریشان ہوں۔
علی ؑ اور زہراؑ کے درمیان ایسی غیر معمولی محبت پائی جاتی ہے جو ناقابلِ بیان ہے، لہٰذا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زہراؑ کے بعد تنہائی نے علی ؑ کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔ ہم صرف چند جملے عرض کرتے ہیں جو مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی قبر پر فرمائے اورجو نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔
حضرت فاطمہ زہراعلیہاالسلام نے وصیت کی تھی:
”اے علی! مجھے آپ خود غسل دیجئے گا، خود میری تجہیز و تدفین کیجئے گا۔ مجھے رات میں دفن کیجئے گا، میں نہیں چاہتی کہ جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے وہ میرے جنازے میں شرکت کریں۔“
تاریخ ہمیشہ آلودہ رہی ہے۔ کچھ لوگ ظلم کاارتکاب کرتے ہیں اور پھر تاریخ کو مسخ کرنے کی خاطر خود ہی ہمدرد بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہی عمل جو مامون نے انجام دیا: وہ امام رضا علیہ السلام کو شہید کرتا ہے اور پھر خود ہی سب سے زیادہ سر پیٹتا ہے، نالہ وفغاں بلند کرتا ہے، نوحہ و مرثیہ پڑھتا ہے۔لہٰذا وہ تاریخ میں یہ ابہام چھوڑ گیا جس کی وجہ سے بعض لوگ یہ یقین نہیں کرتے کہ مامون نے امام رضا ؑ کو شہید کیا تھا۔ یہ ہے تاریخ کامسخ ہونا ۔
جنابِ زہراؑ نے تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانے کے لئے فرمایا کہ مجھے رات میں دفن کیجئے گا۔تاکہ تاریخ میں کم از کم یہ سوالیہ نشان باقی رہ جائے کہ پیغمبرؐ جن کی صرف ایک بیٹی تھی، اُس ایک بیٹی کو رات میں کیوں دفن کیاگیا؟ اورکیوں اُس کی قبر نامعلوم ہے؟ یہ زہرائے مرضیہؑ کی عظیم ترین سیاست تھی، جس کے ذریعے آپ تاریخ میں یہ باب کھلا چھوڑ گئیں کہ ہزار سال بعد ہی سہی لوگ آئیں اور کہیں:
وَ لِاَیِّ الْاُمُورِ تُدْفَنُ لَیْلاً
بِضْعَۃُ الْمُصْطَفیٰ وَ یُعْفیٰ ثَراھا
تاریخ کہے کہ: سبحان اللہ! کیوں دختررسول کو رات میں دفنایا گیا؟ کیا جنازے میں شرکت ایک مستحب عمل نہیں ہے، اور وہ بھی مستحبِ موکد، اور وہ بھی دختر رسول کا جنازہ؟ آخر کیوں صرف گنتی کے چند افرادنے اُن کی نمازِ جنازہ پڑھی؟ اورکیوں ان کی قبر کا مقام پوشیدہ رہے، اور کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ زہرا کو کہاں دفن کیا گیا ہے؟
حضرت علی ؑ نے زہراؑ کو دفن کیا۔ زہراؑ نے یہ وصیت بھی کی تھی: اے علی ؑ ! جب آپ مجھے دفن کردیں اور میری قبر کوچھپادیں، تو چند لمحے میری قبر پر کھڑے رہئے گا، دور نہ ہویئے گا، کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جس میں مجھے آپ کی ضرورت ہے۔
حضرت علی ؑ نے اس تاریک رات میں جنابِ زہرا ؑ کی تمام وصیتوں پرپوراپوراعمل کیا۔ اب علی پر کیا گزر رہی ہے، یہ میں بیان نہیں کرسکتا: آپ نے اپنی زہراؑ کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور اپنے ہاتھوں سے اُن کی قبر کوچھپا دیا، لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ تاریخ کہتی ہے:
فَلَمّا نَفَضَ یَدَہُ مِنْ تُرابِ الْقَبْرِ ہاجَ بِہِ الْحُزْنُ۔
حضرت علی علیہ السلام نے جنابِ زہراسلام اللہ علیہا کی قبر کو چھپایااور اپنے لباس کی گرد اور خاک کو جھاڑا۔ وہ اس وقت تک کام میں مشغول تھے اور کسی کا م میں مشغول ہونے سے انسان کا ذہن کسی حد تک بٹ جاتا ہے۔ آپ کاکام ختم ہوگیا۔ اب آپ حضرت زہرا کی وصیت پر عمل کرناچاہتے ہیں، یعنی وہیں موجود رہنا چاہتے ہیں۔ جب آپ اس مقام پر پہنچے، تو دنیا جہاں کاغم واندوہ علی ؑ کے دل میں امڈآیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ دردِ دل کے اظہار کی ضرورت ہے۔ کبھی علی ؑ اپنا دردِ دل کنویں سے بیان کیا کرتے تھے، اپنا سر کنویں میں ڈال دیتے تھے، لیکن جو دردِ دل زہرا ؑ کے حوالے سے ہے، اسکے اظہار کے بارے میں سوچتے ہیں کہ پیغمبرؐ سے بہتر اور کوئی نہیں ہے، لہٰذا پیغمبر اکرؐم کی قبرِ مقدس کی طرف رُخ کرکے فرماتے ہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسْوْلَ اللّٰہِ عَنِّیْ وَ عَنِ ابْنَتِکَ النَّازِلَۃِ فِیْ جِوَارِکَ وَالسَّرِیْعَۃِ اللِّحَاقِ بِکَ قَلَّ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَنْ صَفِیَّتِکَ صَبْرِیْ۔
اے اللہ کے رسول !آپ کو میری جانب سے اور آپ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپ سے جلد مل جانے والی آپ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔اے رسول اللہ!آپ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت )سے میرا صبر وضبط جاتا رہا۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۲۰۰
ولا حول ولا قوّۃ الّا باللّہ العلیّ العظیم و صلّی اللّہ علی محمد وآلہ الطاہرین۔