سیرتِ نبیؐ اور اسلام کی تیز رفتار ترقی
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
آٹھویں نشست - سیرتِ نبیؐ اور اسلام کی تیز رفتار ترقی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین۔والصلٰوۃ والسلام علیٰ عبداللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ ومبلّغ رسالاتہ سیّدناونبیّنا ومولاناابی القاسم محمدوآلہ الطیّبین الطاہرین المعصومین۔
اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لااَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ۔سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۱۵۹
اسلام کا تیز رفتار پھیلاؤ تاریخِ عالم کے اُن اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے جن کے اسباب ووجوہات پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے۔ البتہ عیسائیت اور کسی حد تک بدھ مت بھی دنیا میں پھیلنے والے ادیان میں شامل ہیں، بالخصوص عیسائیت، جس کا گہوارہ اور جائے پیدائش تو بیت المقدس ہے، لیکن یہ دنیائے مشرق کی نسبت دنیائے مغرب میں زیادہ پھیلاہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یورپ اور امریکاکے لوگوں کی اکثریت عیسائی ہے، اگرچہ حالیہ زمانے میں اکثروہ صرف نام کی حد تک عیسائی رہ گئے ہیں، باقاعدہ اور حقیقی طور پر نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا خطہ عیسائی خطہ شمار ہوتا ہے۔ بدھ مت کا ظہور بھی ہندوستان میں ہوا ہے، گوتم بدھ ہندوستان میں ظاہر ہوئے لیکن ان کا دین زیادہ تر ہندوستان سے باہر مثلاً جاپان اور چین میں ہے، البتہ اسکے پیروکار خود ہندوستان میں بھی موجود ہیں۔ یہودیت ایک محدودقومی اور نسلی دین ہے، یہ ایک قوم اور نسل سے باہر نہیں نکلا ہے۔ زرتشتی دین بھی تقریباً ایک علاقائی دین ہے، جو ایران کے اندر ظاہر ہوا اورتمام ایرانیوں کو بھی اپنے دائرے میں نہ لاسکا، بہر صورت ایران سے باہر نہ نکل سکا اور اگرآج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر بھی کچھ زرتشتی موجود ہیں، جو ہندی پارسیوں کے نام سے مشہور ہیں، تو یہ لوگ ہندوستانی نہیں ہیں بلکہ ایرانی زرتشت ہیں جنہوں نے ایران سے ہندوستان ہجرت کی ہے اور ایران سے ہندوستان ہجرت کر کے جانے والے یہ لوگ بھی ایک زندہ حلقہ قائم نہیں کرسکے ہیں اوراپنا دین دوسروں کے درمیان نہیں پھیلاسکے ہیں۔
اسلام اس اعتبار سے عیسائیت کے مشابہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے باہر نکل کر نئے علاقوں میں داخل ہوا۔ اسلام کا ظہورجزیرۃ العرب میں ہوا اورآج ہم دیکھتے ہیں کہ ایشیا، افریقا، یورپ، امریکااور دنیا کی مختلف نسلوں کے درمیان اس کے پیروکار موجود ہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ عیسائیوں کی کوشش ہے کہ اصل سے کم ظاہر کی جائے اور ہماری کتابوں میں بھی اکثر انہی فرنگیوں سے اعداد و شمار لئے جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق شایدمسلمانوں کی تعدادعیسائیوں سے زیادہ ہو کم نہ ہو۔
لیکن اسلام میں فروغ اور وسعت اختیار کرنے کے لحاظ سے ایک خاصیت ہے جو عیسائیت میں نہیں پائی جاتی، اور وہ اسلام کا تیزرفتار پھیلاؤ ہے۔ عیسائیت نے بہت سست رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے، لیکن اسلام نے غیر معمولی تیز رفتار ترقی کی ہے، خواہ وہ سرزمینِ عرب ہو یا اُس سے باہر کے علاقے، ایشیا ہو یا افریقہ، یا دیگر مقامات۔
مسئلہ یہ زیرِ بحث ہے کہ کس طرح اسلام نے اتنی تیزرفتارسے ترقی کی؟ حتیٰ مشہور فرانسیسی شاعر ”لامارٹین“ کہتا ہے: اگر ان تین چیزوں کو مدِ نظر رکھا جائے، تو کوئی بھی پیغمبر اسلام کی برابری نہیں کرسکتا۔ پہلی چیز مادّی وسائل کا فقدان ہے۔ ایک شخص اٹھتا ہے، دعوت دیتا ہے، حالانکہ اسکے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی، حتیٰ اس کے نزدیک ترین افراد اور اس کا خاندان بھی اسکی دشمنی پرکمر بستہ ہوجاتاہے، وہ تن تنہا اٹھتاہے، اُس کاکوئی معاون و مددگار نہیں ہوتا، وہ اپنے آپ سے آغاز کرتا ہے، اُسکی شریکِ حیات اس پر ایمان لاتی ہے، جو بچہ اسکے گھر میں ہے اور اس کا چچازاد بھائی ہے(حضرت علی علیہ السلام) وہ اس پر ایمان لاتا ہے، رفتہ رفتہ دوسرے افراد ایمان لاتے ہیں اور وہ بھی کن مشکلات اور مشقتوں کے عالم میں! دوسری چیز، }اسلام کی {تیز رفتار ترقی یا زمانے کا عامل ہے اور تیسری چیز، مقصد کی عظمت ہے۔
اگر مقصد کی اہمیت کو وسائل کے فقدان اوروسائل کے فقدان کے باوجو تیزی سے اس مقصد تک رسائی کو دیکھا جائے، تو پیغمبر اسلامؐ( بقول لامارٹین اوراس نے درست کہا ہے) دنیا میں بے مثل و بے نظیر ہیں۔ اگر عیسائیت نے دنیا میں ترقی اور فروغ حاصل کیا ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھا لئے جانے کے کئی سو سال بعد اس نے دنیا میں ایک حد تک اپنی جگہ بنائی ہے ۔
ہم اپنی گفتگو کی مناسبت سے جو سیرت النبیؐ کے بارے میں ہے، اسلام کی تیز رفتار ترقی کے حوالے سے بات کریں گے۔ قرآنِ مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے، اور تاریخ نے بھی واضح طور پر اس بات کی تائید کی ہے کہ اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وجوہات اور اسباب میں سے ایک وجہ اور سبب ”سیرت النبی“ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقۂ دعوت ہے۔ یعنی نبی کریمؐ کا اخلاق، عادات، رفتار و کردار اور طرزِ دعوت اور اندازِ تبلیغ ۔ البتہ دوسرے اسباب بھی کارفرما رہے ہیں۔ خود قرآنِ مجید جوپیغمبر کا معجزہ ہے، قرآن کی وہ زیبائی، وہ گہرائی، وہ ولولہ آفرینی، وہ جاذبیت، بے شک اوّلین عامل ہے۔ ہر مقام پر اسلام کی اثر انگیزی اور فروغ کا پہلا عامل خود قرآنِ مجید اور اس کا مواد(content) ہے۔ لیکن اگر ہم قرآن سے صرفِ نظر کریں، تو رسالتمآب کی شخصیت، اُن کا اخلاق، اُن کی سیرت، ان کا کردار، اُن کی قیادت اور تدبر اسلام کی ترقی اور اسکی اثر انگیزی کا دوسرا سبب ہے۔ حتیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعدآنحضرتؐ کی سوانح حیات، یعنی آپ کی سیرت، جو بعد میں تاریخ میں نقل ہوئی ہے( خود یہ تاریخی سیرت) اسلام کی ترقی کا بڑا سبب رہی ہے۔
آغازِ کلام میں ہم نے جس آیت کی تلاوت کی، اُس میں ارشاد ہوتا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ ۔
اللہ اپنے نبیؐ سے خطاب کرتا ہے: اے رسولِ گرامی! آپ پر خدا کی رحمت کی وجہ سے، آپ پر لطفِ الٰہی کے سائے کے سبب، آپ مسلمانوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں، آپ کے اندر نرمی پائی جاتی ہے، آپ خوش خلُق ہیں، آپ ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی، حلم، بردباری، حسنِ اخلاق، حسنِ رفتار، تحمل، عفو و درگزر وغیرہ سے پیش آتی ہے۔
وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لااَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔
اگر آپ اس اخلاق کے مالک نہ ہوتے، اگرآپ اس نرم خوئی کی جگہ، سخت گیر اور بداخلاق ہوتے، تو مسلمان آپ کے گردسے دور ہوجاتے، یعنی خودآپ کا یہ اخلاق مسلمانوں کو جذب کرنے کا ایک عامل (factor) ہے۔
یہ بات خود اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قائد، رہنما اور جوشخص لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا اور اسکی طرف بلاتا ہے، اس کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ ذاتی اخلاق کے حوالے سے نرم مزاج ہو۔ یہاں ہم کچھ وضاحتیں پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے بعض سوالات کا جواب دیا جاسکے۔
ذاتی مسائل میں نرمی اور اصولی مسائل میں سختی
یہ جوہم نے عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم طبیعت کے مالک تھے، اور ایک رہبر و رہنما کو نرم خو ہونا چاہئے، اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ انفرادی اور ذاتی مسائل میں نرم تھے، اصولی اور کلی مسائل میں نہیں، وہاں پیغمبر سو فیصدسخت تھے۔ یعنی کسی لچک کامظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص نبی اکرؐم کی ذات سے برا سلوک کرتاہے، مثلاً نبی کریمؐ کی ذات کی توہین کرتاہے۔ یہ مسئلہ آنحضرؐت کی ذات سے متعلق ہے، اورایک مرتبہ کوئی شخص اسلامی قانون کو توڑتا ہے، مثلاً چوری کرتاہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نرم خو تھے، اس سے کیامراد ہے؟ کیا اسکے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شراب پیتا تھا، تو پیغمبر کہا کرتے تھے کہ کوئی بات نہیں، اسے کوڑے نہ لگاؤ، اسے سزا نہ دو؟ یہ باتیں پیغمبرکی ذات سے متعلق نہیں تھیں، ان کا تعلق اسلامی قانون سے تھا۔ اگر کوئی چوری کرتا تھا، تب بھی کیا رسالتمآبؐ یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی بات نہیں، اسے سزا دینے کی ضرورت نہیں؟ ہرگز ایسا نہ تھا۔ پیغمبر اسلامؐ انفرادی اور ذاتی معاملات میں نرم تھے لیکن اجتماعی قواعد وضوابط اورذمے داریوں کے معاملے میں انتہائی سخت تھے۔
ایک مثال عرض کرتے ہیں:
سرِ راہ ایک شخص آتا ہے اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روک لیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ آپ میرے مقروض ہیں، ابھی اسی وقت میرا قرض ادا کیجئے۔ پیغمبرؐ فرماتے ہیں: پہلی بات تو یہ کہ میں تمہارا مقروض نہیں ہوں، تم بلاوجہ دعویٰ کر رہے ہو، اور دوسری بات یہ کہ اس وقت میرے پاس رقم بھی نہیں ہے، مجھے جانے دو۔ وہ کہتا ہے : میں آپ کو ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔ (رسولِ اکرمؐ نماز کے لئے جا رہے تھے) آپ یہیں میرے پیسے دیجئے اور میرا قرض ادا کیجئے۔ نبی کریمؐ اس سے انتہائی نرمی برت رہے تھے، وہ مزید سختی کرتاجا رہاتھا، یہاں تک کہ وہ پیغمبرؐ کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیتا ہے اور آپ کی چادر کی رسی بنا کرآپ کی گردن میں ڈال کراسے کھینچنا شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ آپ کی گردن پرسرخ نشان نمودار ہونے لگتا ہے۔جب دیر ہوجاتی ہے توتاخیر کی وجہ جاننے کے لئے مسلمان آنے لگتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے۔ مسلمان اسکے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہتے ہیں، لیکن نبی کریمؐ فرماتے ہیں :تم درمیان میں نہ آؤ، میں خود جانتا ہوں کہ اپنے اس دوست کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے۔آپ نے اس قدر نرمی سے کام لیا کہ وہ یہودی وہیں کہہ اٹھا کہ: اَشْہَدُ اَنْ لااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہَ وَاَشْہَدُاَنَّکَ رَسولُ اللّٰہِ۔ اور کہنے لگا کہ آپ اتنی طاقت رکھنے کے باوجود اتنی برداشت (کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ ) اتنی برداشت ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے، یہ پیغمبرانہ برداشت ہے۔
بظاہر فتحِ مکہ کا موقع ہے: قریش کے کسی بڑے خاندان کی ایک عورت نے چوری کی۔ اسلامی قانون کی رُو سے چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ جب واقعہ ثابت اورقطعی ہوگیا اور عورت نے اقرار کرلیا کہ میں نے چوری کی ہے، تو اس کے بارے میں حکم کا نفاذ ہونا تھا۔اس موقع پر سفارشیں اور وساطتیں شروع ہوگئیں۔ کسی نے کہا: یا رسول اللہؐ! اگر ہوسکے تو سزا سے صرفِ نظر فرمائیں، یہ عورت فلاں شخص کی بیٹی ہے، اورآپ جانتے ہیں کہ وہ کتنا معزز انسان ہے، ایک معزز گھرانے کی عزت خاک میں مل جائے گی ۔ اس عورت کا باپ آیا، اُ س کا بھائی آیا، اورلوگ آئے کہ ایک معزز گھرانہ بے عزت ہوجائے گا۔لوگوں نے بہت کچھ کہالیکن آپ نے فرمایا: ناممکن اور محال ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اسلامی قانون کو معطل کردوں؟ اگر یہی عورت کوئی بے کس عورت ہوتی اور کسی بڑے خاندان سے وابستہ نہ ہوتی، تو تم سب کہتے کہ ہاں چور ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔ ایک لوٹا چوری کرنے والے کو سزا دی جائے، ایک غریب جس نے مثلاً اپنی غربت کی وجہ سے چوری کی ہو اسے سزا دی جائے، لیکن اس عورت کو اس وجہ سے کہ اس کا تعلق ایک بڑے خاندان سے ہے اور تم لوگوں کے بقول ایک معزز خاندان کی عزت خاک ہو جائے گی، سزا نہ دی جائے؟ خدا کا قانون معطل نہیں ہوسکتا۔ آپ نے کسی صورت سفارشوں اور شفاعتوں کو قبول نہ کیا۔
پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصولی معاملات میں کسی صورت نرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے، حالانکہ آپ ذاتی مسائل میں انتہائی نرم خو اور رحمدل تھے، اور غیر معمولی عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔ لہٰذا ان دونوں باتوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت علی علیہ السلام انفرادی اور ذاتی مسائل میں انتہائی نرم دل، مہربان اور ہنس مکھ تھے، لیکن اصولی مسائل میں ذرّہ برابرلچک نہ دکھاتے تھے ۔ہم دلیل کے طور پر دو نمونے پیش کرتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام ایک کشادہ رواور خوش مزاج انسان تھے، ہمارے اُن مقدس مآب لوگوں کے برخلاف جو ہمیشہ لوگوں سے اپنے تقدس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں، ہمیشہ جن کے چہرے پر غصہ اور پیشانی پر بل رہتا ہے اور کبھی لبوں پر تبسم بکھیرنے کوتیار نہیں ہوتے، گویا ترش روئی تقدس اور تقویٰ کا لازمہ ہے۔ کہتے ہیں:
صبا از من بگو یار عبوساً قمطریراً را
نمی چسبی بہ دل زحمت مدہ صمغ و کتیرا را
ایسا کیوں ہو حالانکہ : اَلْمُؤمِنُ بِشْرُہُ فِیْ وَجْہِہِ وَ حُزْنُہُ فِیْ قَلْبِہِ۔(۱) مومن کے چہرے پر بشاشت اور اسکے دل میں غم واندوہ ہوتا ہے۔ مومن اپنے غم واندوہ کو( ہر معاملے میں: غمِ دنیا، غمِ آخرت، انفرادی زندگی سے تعلق رکھنے والا غم، عالمِ آخرت سے متعلق غم، جوکچھ ہو) اپنے دل میں رکھتا ہے اور جب لوگوں کے سامنے آتا ہے تو اپنے چہرے سے خوشی کااظہار کرتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی ہمیشہ لوگوں سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملا کرتے۔آپ باطل کی حدود کاخیال رکھتے ہوئے لوگوں کے ساتھ مزاح کیا کرتے تھے، جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ مزاح کرتے تھے۔ مولا ؑ کے مخالفین نے آپ کو منصبِ خلافت سے دور رکھنے کے لئے آپ کا جوواحدعیب بیان کیا تھا (وہ کوئی واقعی عیب تو نکال نہیں سکتے تھے) وہ یہ تھا کہ ان لوگوں نے کہا: علی ؑ کی برائی یہ ہے کہ وہ ہنستے مسکراتے اور مزاح کرنے والے انسان ہیں، خلیفہ ایسے شخص کو بننا چاہئے جس کا چہرہ غصیلہ ہو اور لوگ اس سے خوفزدہ رہیں، جب اسے دیکھیں تو بلاوجہ ہی اس سے ڈرتے رہیں۔ پس پیغمبر ؐایسے کیوں نہیں تھے؟ خداوند عالم پیغمبرؐ کے بارے میں فرماتا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لااَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔
اگرآپ سخت گیر، غصیلے اور سنگدل ہوتے، تو مسلمانوں کو جذب نہیں کرسکتے تھے اور وہ آپ سے دور ہوجاتے۔ لہٰذااسلام قیادت اوررہبری کے لئے جس روش کو، جس انداز کو اور جس منطق کو پسند کرتا ہے وہ نرم ہونا، خوش اخلاق ہونا اور پرکشش ہوناہے، نہ کہ غصیلہ اورسخت مزاج ہونا، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام خلیفۂ دوم کے بارے میں فرماتے ہیں:
فَصَیَّرَھَا فِیْ حَوْزَۃٍ خَشْنَآ ءَ یَغْلُظُ کُلَامُھَا وَ یَخْشُنُ مَسُّھَا وَ یَکْثُرُ الْعِثَارُ فِیْھَا۔ وَالْاِعْتِذَارُمِنْھَا۔(۲)
ابوبکر نے خلافت ایک ایسے شخص کے سپرد کر دی جس کا مزاج سخت تھا، لوگ اس سے ڈرتے تھے، سخت گیر (ہمارے مقدس مآب لوگوں کی طرح) اور تندخو ایسے کہ ابن عباس کہتے ہیں، جب تک عمر زندہ رہے میں فلاں مسئلے کے ذکراور اس پر گفتگو کی جرأت نہ کرسکا، اور میں نے کہا: دِرَّ ۃُ عُمَرَ اَھْیَبُ مِنْ سَیْفِ حَجَاج۔ عمر کے کوڑے کی ہیبت حجاج کی تلوار سے زیادہ تھی۔ ایسا کیوں ہونا چاہئے؟ علی ؑ ذاتی معاملات میں خندہ رو تھے، مزاح کیاکرتے تھے، لیکن اصولی مسائل میں بے لچک تھے۔ ان کے بھائی عقیل چند دنوں تک اپنے بچوں کو بھوکا رکھتے ہیں، تاکہ ماحول بنا سکیں، ان بے چارے بچوں کواس قدر بھوکا رکھتے ہیں کہ بھوک سے ان کے چہرے سیاہ پڑجاتے ہیں کَالْعِظْلِمِ۔(۳) اسکے بعد حضرت علی ؑ کو دعوت دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے بھائی کے ان بھوکے بچوں کو دیکھئے، میں مقروض ہوں، بھوکا ہوں، میرے پاس کچھ نہیں، میری مدد کیجئے۔ آپ فرماتے ہیں: ”ٹھیک ہے، مجھے بیت المال سے جو حصہ ملتا ہے، میں اس میں سے تمہیں دے دوں گا۔“}عقیل کہتے ہیں{بھائی جان!آپ کو ملتا ہی کیا ہے؟ کتنا آپ خرچ کریں گے اور کتنا مجھے ملے گا؟ آپ حکم دیجئے کہ مجھے بیت المال میں سے کچھ دیا جائے۔حضرت علی ؑ حکم دیتے ہیں کہ لوہے کو گرم اور سرخ کریں، پھر آپ یہ گرم اور سرخ لوہا عقیل کے سامنے کر دیتے ہیں جو نابینا تھے، اور فرماتے ہیں: بھائی اٹھا لو! عقیل سمجھتے ہیں کہ رقم کی تھیلی ہے۔ جوں ہی ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں وہ جل جاتا ہے ۔ خود عقیل کہتے ہیں کہ میں ایک گائے کی طرح چلّا اٹھا۔ جب وہ چلائے توآپ نے فرمایا:
ثَکَلَتْکَ الثَّوَاکِلُ یَا عَقِیْلُ، أَتَءِنُّ مِنْ حَدِیْدَۃٍ اَحْمَاھَااِنْسَانُھَا لِلَعِبِہَ، وَ تَجُرُّنِیْ اِلٰی نَارٍ سَجَرَھَاجَبََّارُھَا لِغَضَبِہِ۔ (۴)
وہی علی ؑ جو ذاتی اور انفرادی مسائل میں اس قدر نرم ہیں، اصولی مسائل میں، اُن مسائل میں جن کا تعلق قوانینِ الٰہی اور حقوقِ اجتماعی سے ہے اس حد تک سخت گیر ہیں۔ اور وہی عمر جو انفرادی مسائل میں اتنے سخت گیر تھے اور اپنی بیوی کے ساتھ بھی سخت رویہ رکھتے تھے، اپنے بیٹے کے ساتھ بھی سخت طرزِ عمل رکھتے تھے، اپنے ملنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے، وہ اصولی مسائل میں نرم رو تھے۔ بیت المال میں امتیازبرتنے کا سلسلہ حضرت عمر ہی کے دورسے شروع ہوا۔ ایک قسم کی مصلحت اور سیاست کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مختلف حصے مقرر کئے گئے۔ یعنی سیرتِ رسولؐ کے برخلاف۔ وہ اصولی مسائل میں لچکدار اور انفرادی مسائل میں سخت رویہ اختیار کرتے تھے، حالانکہ نبی اکرمؐ اور حضرت علی ؑ انفرادی مسائل میں نرم مزاج اور اصولی مسائل میں سخت گیرتھے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ پروردگار کے لطف کی وجہ سے مسلمانوں کے ذاتی اور انفرادی مسائل میں آپ کا رویہ نرم ہے اور اسی لئے آپ نے مسلمانوں کو جذب کیاہوا ہے اور اگرآپ ایک سخت اور سنگدل انسان ہوتے، تو مسلمان آپ کے گرد سے چھٹ جاتے ۔ فَاعْفُ عَنْہُمْ ۔ عفو و درگزر سے کام لیجئے (عفو و درگزر سے کام لینا بھی ایک قسم کی نرمی ہے) وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ۔ مسلمانوں کے لئے استغفار اور مغفرت طلب کیجئے۔ جب وہ کوئی لغزش کرکے آپ کے پاس آئیں، توآپ ان کے لئے دعا کیجئے، مغفرت طلب کیجئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ اس قدر نرم رَویہ رکھتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے۔ مسلمان غیر معمولی طور پر پیغمبر اکرم پر فریفتہ اور ان کے دلدادہ تھے۔ پیغمبر اکرمؐ مسلمانوں کے ساتھ اس قدرگھل مل کر رہتے تھے کہ مثلاً کسی عورت کے یہاں بچے کی ولادت ہوتی، تو وہ دوڑ ی دوڑی آتی اور کہتی: یا رسول اللہؐ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہیں، یا ایک دوسری عورت آتی اور اپنے سال بھرکے بچے کوآنحضرتؐ کی خدمت میں لاکر کہتی: یا رسول اللہؐ! میرا دل چاہتا ہے کہ کچھ دیر میرے بچے کو اپنے زانو پر بٹھالیں اور اس پر نظر ڈالیں تاکہ برکت ہو، یا میرے بچے کے لئے دعا کیجئے۔اور آپؐ فرماتے: اچھا، ٹھیک ہے ۔
حدیث ہے، شیعہ اور سنی دونوں نے روایت کی ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاکہ کوئی بچہ پیغمبر اکرؐم کی گود میں پیشاب کردیتا۔جب وہ پیشاب کرنا شروع کرتا تواسکے ماں باپ پریشان اور غضبناک ہوکر دوڑتے تا کہ بچے کو رسول اللہ کی گود سے لے لیں۔ آپ فرماتے: لا تُزْرِموا۔ نہیں، نہیں، ایسا نہ کرو، بچہ ہے، اس کو پیشاب آرہا ہے، ایسا نہ کرو جس سے وہ پیشاب روک لے، یہ بیماری کا سبب ہوسکتا ہے۔یہ وہ مسئلہ ہے جوآج کے علمِ طب اور نفسیات میں ثابت ہوچکا ہے کہ یہ عمل بہت بڑی غلطی ہے۔ کبھی ماں باپ اپنے بچے کو کسی جگہ بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں، یہ بچہ پیشاب کردیتا ہے، اپنے بچے کا پیشاب روکنے کے لئے فوراً اسے غصے سے دور پھینک دیتے ہیں، یا اس کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں، }ایسا کرنے سے{ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ا س بچے کو ایسی بیماری لاحق ہوجاتی ہے جس کا اثر پوری زندگی نہیں جاتا، کیونکہ اس میں ایک ہیجان اور گمراہی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ بچے کے اعتبار سے پیشاب کرنا ایک طبیعی امر ہے، لیکن اس پر اس کے ماں یا باپ شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کی طبیعت کہتی ہے کہ پیشاب کرو، باپ یا ماں کا حکم کہتا ہے کہ پیشاب نہ کرو، جس کے نتیجے میں وہ ہیجان، اضطراب اور نفسیاتی عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حد تک (نرم خو تھے)۔
۱۔نہج البلاغہ۔کلماتِ حکمت ۳۳۳
۲۔نہج البلاغہ۔ خطبہ ۳۔شقشقیہ
۳۔جیسے نیل پڑے ہوں۔
۴۔نہج البلاغہ ۔خطبہ۲۲۱۔( اے عقیل! رونے والیاں تم پر روئیں، کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں تپایا ہے، اور مجھے تم اُس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جسے خداوندِ جبار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے؟ )