سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

الف: دھوکا دہی کا اصول:

بعض اصولوں کوہم دیکھتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کرامام حسن عسکری علیہ السلام تک، سب نے انہیں مسترد کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ قطعی اور حتمی معیارات ہیں جن کی ہر صورت میں نفی کی جانی چاہئے ۔

وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اخلاق مطلقاً نسبی ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ: مثلاً ایک معیار جس پر ممکن ہے لوگ اپنی سیرت میں کاربندہوں، وہ دھوکا دہی اورفریب کاری کا اصول ہے۔ دنیا کے قریب قریب تمام ہی سیاستدان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دھوکے اور خیانت سے کام لیتے ہیں۔ بعض کی پوری سیاست دھوکے اور فریب پرمبنی ہوتی ہے اور بعض کم ازکم کچھ جگہوں پر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یعنی کہتے ہیں کہ سیاست میں اخلاق بے معنی ہے، اسے ایک طرف رکھنا چاہئے۔ ایک سیاستدان وعدہ کرتا ہے، عہد کرتا ہے، قسم کھاتا ہے۔ لیکن صرف اُس وقت تک اپنے عہد و پیمان اور قسم کا پابند رہتا ہے جب تک اس کا مفادتقاضا کرتا ہے۔ جیسے ہی اس کے مفادات ایک جانب ہوتے ہیں اور عہد و پیمان دوسری طرف، فوراً اپنے عہد کو توڑ دیتا ہے۔ چرچل نے اُس کتاب میں جواُس نے دوسری عالمی جنگ کے بارے میں لکھی ہے، اور جسے ایک زمانے میں ایران کے اخبارات شائع کرتے تھے اور میں نے اس کے کچھ حصے کا مطالعہ کیا ہے، اس میں جب وہ ایران پر اتحادیوں کے حملے کا ذکر کرتا ہے، تو کہتا ہے: ”اگرچہ ہم نے ایرانیوں کے ساتھ وعدہ کیا تھا، معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے کے مطابق ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔“پھر خود ہی اپنے آپ کو جواب دیتا ہے، کہتا ہے: ”لیکن یہ معیارات، عہد اور ایفائے عہد، چھوٹے پیمانے پر تو ٹھیک ہے، جب دو افراد ایک دوسرے سے قول وقرار کرتے ہیں تو درست ہے، لیکن سیاست میں، جب ایک قوم کے مفادات کا معاملہ آتا ہے، تواس موقع پر یہ باتیں بیکار ہیں۔ میں اس اعتبار سے کہ یہ کام خلافِ اخلاق ہے، اور کیونکہ ہم نے ایک دوسرے ملک کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور عہد شکنی انسانی اصولوں کے منافی ہے، برطانیائے عظمیٰ کے مفادات سے چشم پوشی نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ باتیں دراصل بڑے پیمانے پر اور وسیع دائرے میں درست نہیں ہوتیں۔“یہ وہی دھوکے اورفریب کا اصول ہے، یہ وہی اصول ہے جو معاویہ اپنی سیاست میں روا رکھا کرتے تھے۔ جو چیز علی ؑ کو دنیا کے دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے (البتہ پیغمبر اکرمؐ جیسے افراد کو چھوڑ کر) وہ یہ ہے کہ وہ اپنی روش میں دھوکا دہی اورفریب کاری کے اصول کی پیروی نہیں کرتے تھے، خواہ ان کا سب کچھ، حتیٰ اُن کی خلافت بھی اُن کے ہاتھ سے چلی جائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ میں اِن اصولوں کا محافظ ہوں، میری خلافت کا مقصد اِن انسانی اصول کی حفاظت ہے، سچائی کی حفاظت ہے، امانت کی حفاظت ہے، ایفائے عہدکی حفاظت ہے، درست کاری کی حفاظت ہے۔ اور میں ان کے لئے خلیفہ ہوں۔لہٰذامیں کس طرح انہیں اپنی خلافت پر قربان کردوں؟ میری خلافت انہی کے لئے ہے، کیسے ممکن ہے کہ میں انہیں اپنی خلافت پرفدا کردوں؟

نہ صرف حضرت علی ؑ نے خوداس پر عمل کیا، بلکہ جوفرمان انہوں نے مالک اشترؓ کے نام تحریر کیا اُس میں بھی اسی فلسفے کو بیان کیا ہے۔ مالک اشترؓ سے فرماتے ہیں: اے مالک! جس کسی کے ساتھ معاہدہ کرنا، خواہ وہ کافرِ حربی ہی کیوں نہ ہو، اپنے معاہدے کو نہ توڑنا۔ جب تک وہ اپنے معاہدے پر قائم ہیں تم بھی قائم رہو۔ البتہ جب وہ توڑ دیں، تو پھر معاہدہ ہی باقی نہیں رہا۔ قرآنِ مجید بھی کہتا ہے: فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ۔(۱) یہ اُن مشرکین اور بت پرستوں کے بارے میں ہے، جنہوں نے معاہدہ کیا تھا: جب تک وہ اپنے عہد پر قائم ہیں تم بھی قائم رہو اور اسے نہ توڑو۔ لیکن اگر وہ توڑ دیں، تو تم بھی توڑ دو)۔ فرماتے ہیں: اے مالک! جو بھی عہد و پیمان کرو، جس کسی کے ساتھ بھی کرو، اپنے جانی دشمن کے ساتھ، کفار کے ساتھ، مشرکین کے ساتھ، دشمنانِ اسلام کے ساتھ، اسے نہ توڑو۔ اسکے بعد وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس لئے کہ انسان کی زندگی کی بنیاد انہی پر ہے۔ اگر یہ ٹوٹ جائیں اور ان کا احترام ختم ہوجائے، تو پھرکچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔(۲) بدقسمتی سے مجھے ہوبہو عبارت یاد نہیں ہے، وگرنہ حضرت علی ؑ نے اس بات کواس قدر خوب صورت انداز میں بیان کیاہے، کہ اس سے بہتر بیان کیا ہی نہیں جاسکتا۔

اب وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اخلاق بطورِ مطلق نسبی ہے، ہم اُن سے پوچھتے ہیں کہ کیاآپ ایک قائد کے لئے بھی دھوکے اورفریب کو ایک نسبی اصول سمجھتے ہیں؟ یعنی کیاآپ یہ کہتے ہیں کہ اسے ایک مقام پرخیانت کرنی چاہئے اور دوسرے مقام پر نہیں، بعض حالات میں دھوکا دہی اور خیانت کا اصول درست ہے اوربعض حالات میں نہیں؟ یا نہیں، دھوکا دہی اور خیانت کا اصول مطلقاً غلط ہے۔

ب: زیاد تی:

زیادتی کے اصول کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یعنی حد سے ایک قدم آگے بڑھ جانا، حتیٰ

دشمن کے ساتھ بھی۔ دشمن کے مقابلے میں خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو، اب جب کہ وہ دشمن ہے، مشرک ہے، ہمارے مسلک اور عقیدے کا مخالف ہے، تو اب کیاکوئی حد نہیں}جس کی پابندی کی جائے{؟ قرآن کہتا ہے کہ حد ہے، حتیٰ مشرک کے معاملے میں بھی حد ہے۔ کہتا ہے:

وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لااَا تَعْتَدُوْا (سورۂ بقرہ۲۔آیت ۱۹۰)

اے مسلمانو! ان کافروں کے ساتھ جنگ کرو، جو تمہارے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ لیکن وَلااَا تَعْتَدُوْا۔ }حد سے تجاوز نہ کرنا {یہاں تو بات ہی کافروں کی ہے۔ جب کفار اور مشرکین کے ساتھ بھی لڑو، تو حد سے باہر نہ نکلو۔یعنی کس حدسے باہر نہ نکلو؟ اس بات کا ذکر تفسیروں میں کیا گیا ہے، ، فقہ بھی بیان کرتی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نصیحتوں میں }بیان کیا ہے{، آپ جنگوں کے مواقع پرہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے، حضرت علی علیہ السلام بھی جنگوں میں نصیحت کیا کرتے تھے( اور نہج البلاغہ میں بھی ہے) کہ جب دشمن گرا ہوا اور زخمی ہو اور مثلاً اس کا ہاتھ ہی نہ ہوکہ تمہارے ساتھ لڑسکے، تو اب اس سے مطلب نہ رکھو۔ فلاں بوڑھے شخص نے جنگ میں شرکت نہیں کی ہے، اس سے مطلب نہ رکھو۔ ان کے بچوں سے مطلب نہ رکھو۔ ان پر پانی بند نہ کرو۔ وہ اعمال جوآج کل بہت عام ہیں( مثلاً زہریلی گیسوں کا استعمال) انہیں انجام نہ دو۔ اس زمانے میں زہریلی گیسیں نہیں تھیں، لیکن ان کا استعمال ان غیر انسانی اورخلافِ انسانیت کاموں کی طرح ہے، اور ایسے ہی ہے جیسے پانی بند کردیا جائے۔ یہ باتیں حد سے تجاوز کرنا ہیں۔

حتیٰ دیکھئے کہ کفارِ قریش کے بارے میں قرآن کیا حکم دیتا ہے؟ یہ لوگ پیغمبرؐکے جانی دشمن تھے، اورایسے لوگ تھے جو نہ صرف مشرک، بت پرست اور دشمن تھے، بلکہ تقریباً بیس سال تک پیغمبرؐ سے لڑتے رہے تھے اور ان سے جو کچھ ہوسکتاتھا، انہوں نے اُس سے دریغ نہ کیا تھا۔انہی لوگوں نے پیغمبر ؐکے چچا کو قتل کیا تھا، انہی نے پیغمبرؐ کے عزیزوں کوقتل کیا تھا، مکہ کے دور میں پیغمبر کو، اُن کے اصحاب کو اور اُن کے عزیزوں کوکس قدر تکلیفیں پہنچائی تھیں!انہی نے پیغمبرؐ کے دندانِ مبارک شہید کئے تھے، رسول کی پیشانی کو انہی نے زخمی کیاتھا۔ الغرض کوئی ایسا کام نہ تھا جو نہ کیا ہو۔ لیکن آخرکار فتحِ مکہ کا دورآتا ہے۔ سورۂ مائدہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی آخری سورت ہے۔ کچھ دشمن باقی بچے ہیں، لیکن اب طاقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس سورے میں ارشاد ہوتا ہے:

”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا ۔۔۔۔۔۔وَ لااَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی“ (سورۂ مائدہ۵۔آیت ۸)

مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ: اے صاحبانِ ایمان! ہم جانتے ہیں کہ تمہارے دل ان سے ناراضگی اور کدورت سے بھرے ہوئے ہیں، ان کی طرف سے تمہیں انتہائی دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن کہیں یہ ناراضگیاں اس بات کا سبب نہ بن جائیں کہ تم حتیٰ ان دشمنوں کے بارے میں بھی عدالت کی حدود سے تجاوز کر جاؤ۔

یہ کیسا اصول ہے؟ (مطلق ہے یا نسبی؟) کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض موقعوں پرحد سے تجاوز کرنا جائز ہے؟ نہیں، کسی بھی موقع پرحد سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔ ہر چیز کا ایک پیمانہ اور حد ہوتی ہے، اس حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔

دورانِ جنگ حد سے تجاوز کرنا کیا ہے؟

ہم پوچھتے ہیں کہ آپ دشمن سے کیوں لڑتے ہیں؟ ایک مرتبہ آپ کہیں گے کہ اسلئے تاکہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ نہیں، یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ لیکن ایک مرتبہ آپ کہتے ہیں کہ میں دشمن سے اس لئے لڑ رہا ہوں تاکہ بشریت کے راستے سے ایک کانٹا دور کر دوں۔ ٹھیک ہے، اب جبکہ آپ نے کانٹا دور کردیا، کافی ہے۔ وہ شاخ تو کانٹا نہیں ہے، اُس شاخ کو کیوں کاٹنا چاہتے ہیں؟ یہ ہیں حد کے معنی۔

ج: ظلم قبول کرنے اور رحم طلب کرنے کا اصول:

ظلم کے سامنے سر جھکا دینے اور رحم طلب کرنے کا اصول ان اصولوں میں سے ہے جن کی پیروی نہ پیغمبرؐ نے کی اور نہ وصئ پیغمبرؐ نے۔ یعنی کیا ایسا ہوا ہے کہ کسی موقع پر جب دشمن کو طاقتور دیکھا توانہوں نے اِن دو میں سے کسی ایک طریقے کو استعمال کیا ہو؟ ایک یہ کہ رحم کی بھیک مانگی ہو، یعنی اپنی گردن جھکا دی ہو اور رحم کی درخواست کی ہو، روئے پیٹے ہوں کہ ہم پر رحم کرو؟

ہرگز نہیں۔

ظلم پذیری، یعنی ظلم کے سامنے سر جھکا دینا، اس بارے میں کیا رَویّہ تھا؟ یہ بھی کبھی نہیں کیا۔ یہ ان اصولوں میں سے ہیں جن پر نہ توپیغمبر اکرمؐ نے، نہ اُن کے اوصیا نے، بلکہ اسی طرح اُن کے مکتب کے تربیت شدہ شاگردوں نے بھی کبھی عمل نہیں کیا۔

لیکن کچھ اصول ایسے ہیں جن سے ہمیشہ استفادہ کیا ہے، اگرچہ نسبی طور پرہی سہی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بعض موقعوں پر نسبیت کا مسئلہ پیش آتا ہے۔

 

طاقت کا اصول اور طاقت کے استعمال کا اصول

ہمارے پاس ایک اصول ہے جس کا نام طاقت ہے، اور ایک دوسرا اصول بھی ہے جس کا نام طاقت کا استعمال ہے۔ طاقت کا اصول، یعنی طاقتورہونے کا اصول۔اس لئے طاقتور ہونا تاکہ دشمن ترنوالہ نہ سمجھے، دشمن پر حملے کے لئے طاقتور ہونانہیں۔ قرآنِ مجید صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ:

وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ

اور تم سب ان سے مقابلے کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کردو۔ سورۂ انفال۸۔آیت ۶۰

طاقت کا اصول، مضبوط ہونے کا اصول، اس حد تک طاقتور ہونے کا اصول کہ دشمن حملہ کرنے سے ڈرے۔ تمام مفسرین نے کہا ہے کہ تُرْھِبُوْنَ سے مراد یہ ہے کہ دشمن حملہ کرنے کی ہمت نہ کرے۔

اب یہ کہ یہ اصول ایک مطلق اصول ہے یا نسبی اصول ہے؟ کیا اسلام اس اصول کو ایک

خاص زمانے میں معتبر سمجھتا ہے، یا تمام زمانوں میں؟ تمام زمانوں میں۔ جب تک دشمن ہے، طاقتور ہونے کا اصول بھی ہے۔

لیکن ایک اور اصول بھی ہے، جسے طاقت کے استعمال کا اصول کہتے ہیں۔ طاقت کا استعمال، طاقتور اور توانا ہونے سے ہٹ کر ایک الگ چیز ہے اور طاقت کے استعمال کے معنی میں ہے۔

کیا اسلام طاقت کے استعمال کو جائز اور روا سمجھتا ہے، یا نہیں؟

پیغمبر اکرمؐ اپنی سیرت میں طاقت کا استعمال کیا کرتے تھے، یا نہیں؟

}آپ طاقت کا{استعمال کیا کرتے تھے، لیکن نسبی طور پر۔ یعنی بعض موقعوں پر طاقت کے استعمال کی اجازت دیا کرتے تھے، اُن مواقع پر جہاں کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچا ہو۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے:آخِرُ الدَّواءِ الْکَیُّ۔ آخری دوا کے طور پر اجازت دیا کرتے تھے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایک تعبیرہے۔

نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک جملہ ہے، یہ جملہ پیغمبر اکرؐم کی سیرت کے ایک گوشے کو بیان کرتا ہے۔آپ فرماتے ہیں: طبیبٌ۔ پیغمبر لوگوں کے لئے ایک طبیب تھے۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ یہاں جسم کے طبیب مراد نہیں ہیں، }ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر{لوگوں کومثلاً گل گاؤ زبان کا نسخہ دیا کرتے تھے، بلکہ مراد ہے روح کے طبیب، سماج کے طبیب۔ طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّہِ۔ پہلی تشبیہ میں کہ جب پیغمبر کوطبیب سے تشبیہ دیتے ہیں، کہنا چاہتے ہیں کہ پیغمبر کی روش اپنے مریضوں کے ساتھ ایک معالج کی سی روش تھی۔

ایک معالج بیمارکے ساتھ کیا طرزِ عمل رکھتا ہے؟

اپنے مریض کے حوالے سے طبیب کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے حال پررحم کھاتا ہے۔ جیسا کہ خودحضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

وَاِنَّمَا یَنبَغِیْ لِاَھْلِ الْعِصْمَۃِ وَالْمَصْنُوْعِ اِلَیْھِمْ فِی السَّلاَمَۃِ اَنْ یَّرْحَمُوْآ اَہْلَ الذُّنُوْبِ وَالْمَعْصِیَۃِ۔

جن لوگوں کو خدا نے پاک رہنے کی توفیق دی ہے، اُنہیں چاہئے کہ وہ بیمارانِ معصیت پر رحم کھائیں۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۳۸

گناہ گار لوگ قابلِ رحم ہیں۔ }اس سے {کیامراد ہے؟ کیا مراد یہ ہے کہ کیونکہ وہ لوگ قابلِ رحم ہیں اس لئے اُن سے کچھ نہ کہا جائے؟ یا نہیں، }مراد یہ ہے کہ{ مریض قابلِ رحم ہے، یعنی اس کو برا بھلا نہ کہو اور اس سے لاپروائی بھی نہ برتو، اس کا علاج کرو۔ پیغمبر اکرم کی روش علاج کرنے والے ایک طبیب کی سی روش تھی۔البتہ آپ فرماتے ہیں: طبیب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں ساکن طبیب بھی ہوتا ہے اور متحرک mobile) (طبیب بھی۔ ایک طبیب نے اپنا مطب کھولا ہوا ہے، بورڈبھی لگایا ہوا ہے، اور اپنے مطب میں بیٹھا ہوا ہے۔ جوکوئی وہاں اپنے علاج کی غرض سے اُسکے پاس آتا ہے، یہ اُس کو نسخہ دے دیتا ہے، اور جو کوئی اس کے پاس نہیں آتا، تو اسے بھی اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن ایک طبیب، متحرک طبیب ہوتا ہے۔ وہ بس اسی بات پراکتفا نہیں کرتا کہ مریض اس کے پاس آئیں}تو وہ اُن کا علاج کرے{، بلکہ وہ خود مریضوں کے پا س جاتا ہے، اور اُنہیں تلاش کرتا ہے۔ پیغمبرؐ خود اخلاقی اور روحانی مریضوں کو تلاش کرتے تھے۔ اپنی پوری زندگی آپ کا یہی کام رہا۔

آپ طائف کیوں گئے تھے؟

مسجد الحرام میں جوآپ کبھی اِس کے پاس اور کبھی اُس کے پاس جایا کرتے تھے، قرآن کی جوتلاوت کیا کرتے تھے، کبھی اِسے قریب لاتے تھے، کبھی اُسے دعوت دیتے تھے، بنیادی طور پریہ سب کچھ کس لئے تھا؟

جب حرام مہینوں میں آپ کو تحفظ حاصل ہوتا تھا اور عرب قبیلے اپنے اُسی بت پرستانہ طریقے سے حج کرنے آیا کرتے تھے، جب وہ عرفات اور منیٰ میں اور خاص طور پر عرفات میں جمع ہوا کرتے تھے، تو پیغمبرؐ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور اُن کے درمیان چلے جاتے تھے۔ ابولہب بھی آپ کے پیچھے پیچھے آجاتا تھااورچیختا چلّاتاتھا، کہتا تھا: اِس کی باتیں نہ سنو، یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، میں جانتا ہوں کہ یہ (نعوذوباللہ) جھوٹا ہے، یہ دیوانہ ہے، یہ ایسا ہے، یہ ویسا ہے۔ لیکن آپ اپنا کام جاری رکھتے تھے۔ یہ کس لئے تھا؟ فرماتے ہیں: پیغمبر کی روش ایک طبیب کی سی روش تھی، لیکن متحرک طبیب کی سی، ایک ساکن طبیب کی سی نہیں جو صرف اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے کہ جوکوئی آکر ہم سے سوال کرے گا، تو ہم اسے جواب دیں گے، اگر کسی نے نہیں پوچھا تو اسے بتانا ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ نہیں، آپ ان باتوں سے بڑھ کر اپنی ذمے داری کے قائل تھے۔ ہماری روایات میں ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ایک بدکار عورت کے گھر سے نکل رہے ہیں۔ }یہ دیکھ کر{اُن کے مرید حیران رہ گئے:اے روح اللہ!آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ فرمایا: ”طبیب بیمار کے گھر جاتا ہے۔“یہ بہت بڑی بات ہے۔

طَبیبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّہِ، قَدْ اَحْکَمَ مَرَاہِمَہُ واَحْمیٰ مَواسِمَہُ۔

وہ ایک ایسے طبیب تھے جو اپنی حکمت اور طب کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو، جس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لئے ہوں اور داغنے کے آلات تپا لئے ہوں۔ نہج البلاغہ۔خطبہ۱۰۶

حضرت علی علیہ السلام اسالیب اور سیرتوں کی نسبیت(comparative)کویوں بیان کرتے ہیں۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے یا سختی سے؟

لطف و مہربانی سے کام لیتے تھے یا درشتی اور طاقت سے؟

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرتؐ دونوں طریقوں سے کام لیتے تھے، لیکن ہر طریقے کے موقع محل سے واقف تھے۔آپ کے پاس مرہم بھی تھااور میسم بھی (میسم، یعنی جراحی کاآلہ، داغنے کا آلہ)۔ یہ خود امیر المومنین ؑ کے الفاظ ہیں: آنحضرت ؐ کے ایک ہاتھ میں مرہم ہوتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں میسم ۔ جب آپ کسی زخم کا ایک نرم دوا سے علاج کرنا چاہتے تھے، تواُس پر مرہم رکھتے تھے۔ جہاں مرہم سے علاج ممکن ہوتا تھا، وہاں مرہم سے علاج کرتے تھے، لیکن جہاں مرہم کارگر نہیں ہوتاتھا، تو وہاں پھرخاموش ہوکرنہیں بیٹھ جاتے تھے، }یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ{ ٹھیک ہے، اب جبکہ میرامرہم کارگر ثابت نہیں ہورہا، تواسے اس کے حال پرچھوڑ دیتا ہوں۔ اگرایک خراب عضو کا مرہم سے علاج ممکن نہ ہو، تو اسے داغنا چاہئے اور اس طرح سے اس کا علاج کرنا چاہئے۔ جراحی کے ذریعے اسے کاٹ ڈالنا چاہئے، جدا کر کے دورپھینک دینا چاہئے۔پس کہیں طاقت کا استعمال، تو کہیں نرمی و مہربانی ۔ دونوں کو اُن کی مناسب جگہ پر استعمال کیا کرتے تھے۔

پس طاقت کا اصول ایک الگ چیز ہے اور طاقت کا استعمال ایک دوسری چیز۔ اسلام کا یہ اصول ہے کہ اسلامی معاشرے کو دنیا کا طاقتور ترین معاشرہ ہونا چاہئے، تاکہ دشمن اس کے سرمائے، اس کے منابع(resources)، اس کی سرزمینوں، اس کے لوگوں اور اس کی ثقافت پرمیلی نگاہ نہ ڈال سکے۔ یہ کوئی نسبی اصول نہیں ہے، ایک مطلق اصول ہے۔ لیکن طاقت کا استعمال ایک نسبی اصول ہے، کہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے اور کہیں نہیں۔

زندگی میں سادگی اپنانے اورجاہ وحشم کے اظہار سے پرہیزکا اصول

ایک اور اصول جو ایک اعتبار سے مطلق ہے، اگرچہ اسے ایک اعتبار سے نسبی کہنا چاہئے، زندگی میں سادگی کا اصول ہے۔ زندگی میں سادگی کا انتخاب پیغمبراکرؐم کاایک اصول تھا۔ پیغمبر اکرؐم کی سیرت اور ان کے احوال کے بارے میں ہمارے پاس بہت سے ماخذ (sources) ہیں۔ ہم نے سیرتِ نبی کو حضرت علی ؑ کی زبان سے سنا ہے، امام جعفرصادقؑ کی زبان سے سنا ہے، دوسرے ائمہ ؑ کی زبان سے سنا ہے، بہت سے صحابہؓ کی زبان سے سنا ہے، اس باب میں بالخصوص دو روایتیں ہیں، اوروہ روایت جو سب سے زیادہ مفصل ہے، وہ ہے جسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے سوتیلے ماموں سے روایت کیا ہے۔ شایدآپ نے کم ہی سنا ہوگا کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ایک سوتیلے ماموں بھی تھے۔ آپ کے اِن سوتیلے ماموں کا نام ”ہند ابن ابی ہالہ“ ہے۔ وہ پیغمبر اکرمؐ کے منہ بولے بیٹے تھے اور درحقیقت حضرت فاطمہ ؑ کے سوتیلے بھائی شمار ہوتے تھے، یعنی وہ رسولِ اکرمؐ سے قبل حضرت خدیجہؑ کے پہلے شوہر کے فرزند تھے۔ ہند، اسامہ بن زید کی طرح، جن کی ماں کا نام زینب بن جَحش تھا، رسولِ اکرمؐ کے منہ بولے فرزند تھے۔ لیکن اسامہ ان سے چھوٹے تھے، اور انہوں نے پیغمبرؐ کے صرف مدینہ کے دورکو دیکھاتھا، لیکن ہند کیونکہ بڑے تھے اس لئے وہ مکہ کے اُن تیرہ برسوں میں بھی پیغمبرؐ کے ہمراہ تھے اور مدینہ کے دس سال بھی آپ کے ساتھ تھے۔ حتیٰ پیغمبر اکرمؐ کے گھر میں رہتے اور حضوؐر کی اولاد کی طرح تھے۔ پیغمبر اکرمؐ کے حالات کی جزیات انہوں نے بیان کی ہیں اور امام حسن ؑ نے (انہیں نقل کیا ہے)۔

ہماری روایات میں ہے کہ امام حسن علیہ السلام ابھی چھوٹے سے تھے، انہوں نے ہند سے فرمایا: ہند! تم نے میرے نانا نبی اکرم کو جس طرح دیکھا ہے اس طرح میرے لئے بیان کرو۔ہند نے ننھے امام حسن ؑ کے سامنے بیان کیا اور جو کچھ ہند نے بتایا تھا بالکل وہی امام حسن ؑ نے دوسروں سے نقل کیا اور ہماری روایات میں موجود ہے۔آپ لوگ اگر مطالعہ کرنا چاہیں تو تفسیر المیزان کی چھٹی جلد میں یہ جملے موجود ہیں، جو شاید تقریباً دو ورق یعنی چار صفحات پر مشتمل ہوں گے۔انہوں نے اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی پیغمبر کی زندگی کی جزیات کو نقل کیا ہے۔ جن لوگوں نے پیغمبر اسلام کی حیات کا کچھ حصہ نقل کیا ہے، اُن افراد میں سے ایک آپ کے ایک مشہور صحابی ہیں، جو میرے خیال میں ابو سعید خُدْریؓ ہوں گے۔ ایک جملہ جو تقریباً سب ہی نے کہا ہے، یہ ہے (لیکن یہ الفاظ اُن میں سے کسی ایک کے ہیں):

کانَ رَسولُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ خَفیفَ الْمَؤونَۃِ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کی ہر چیز میں سادگی کی روش اپنائی تھی۔ خوراک میں، پوشاک میں، مسکن میں، معاشرت میں اور لوگوں کے ساتھ میل جول میں آپ کی روش سادگی پر مبنی تھی۔ تمام خصوصیات میں سادگی اور کم مصرفی پر عمل کرتے تھے۔ اور یہ آپ کی زندگی کا ایک اصول تھا۔ پیغمبر اکرمؐ رعب ڈالنے کی روش (جو کہ بذاتِ خود ایک روش ہے) سے اجتناب کیا کرتے تھے۔ دنیا کے اکثر صاحبانِ اقتدار رعب ڈالنے کی روش سے استفادہ کرتے ہیں، اور بعض نے اس روش کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ کہتے ہیں کہ کوئی تصورمیں بھی نہ لائے۔

ایک کتاب جو چند برس پہلے ”میلوان۔۔۔“نے لکھی تھی، اس میں، میں نے پڑھا (میں نے کسی اور تاریخ میں نہیں پڑھا ہے) کہ محمد خان قاچار جب کرمان میں تھا، اوراُس نے وہاں وہ قتلِ عام کئے، اتنے لوگوں کو اندھا کیا، اتنے کنویں پاٹ دیئے، اس قدر خرابکاری کی جس پر واقعاً تعجب ہوتا ہے۔ ایک دن ایک سپاہی اسکے پاس آیا اور اس نے اُسے بتایا کہ فلاں سپاہی یا افسرآپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔اُس نے اس خبر کی تحقیق کاحکم دیا۔ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہ خبرجھوٹ ہے۔ اِس سپاہی اور اُس سپاہی یا افسر کے درمیان ایک لڑکی کی وجہ سے رقابت تھی۔ اُس سپاہی یا افسر نے اس لڑکی کو حاصل کرلیا تھا، اور اِس نے انتقام لینے کے لئے یہ غلط رپورٹ دی تھی۔

فتح علی شاہ، جس کی عرفیت باباخان ہے، اُس زمانے میں اُس کا ولی عہد تھا (اس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی، یہ اُس کا بھتیجا تھا) اُس نے فتح علی شاہ یعنی اُس وقت کے بابا خان سے کہا: باباخان! جاؤ اس معاملے کی تحقیق کرو۔ وہ گیا اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مسئلہ یوں ہے اور جھوٹا ہے۔ محمد خان نے پوچھا: تمہارے خیال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس نے کہا: ظاہر ہے اس سپاہی نے جھوٹی اطلاع دی ہے، اس لئے اس کو سزا ملنی چاہئے۔ وہ بولا: جو کچھ تم کہہ رہے ہو، وہ عدالت کی منطق میں تودرست ہے، لیکن سیاست کی منطق میں درست نہیں ہے۔ منطقِ عدالت کے لحاظ سے یہی بات درست ہے، اس نے غلطی کی ہے اور اسے سزا ملنی چاہئے۔ لیکن کیا تم نے یہ سوچا ہے کہ ان چند دنوں کے دوران، جن میں تم اس معاملے کی تحقیق کر رہے تھے، ہر طرف محمد خان قاچار کے قتل کی باتیں ہو رہی تھیں، ہر جگہ میرے قتل کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ کہتا ہے تو قتل کرنا چاہتا تھا، وہ کہتا ہے میں قتل نہیں کرنا چاہتا تھا، گواہ آئے اور انہوں نے گواہی دی کہ نہیں قتل کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ان چند دنوں میں ان کے ذہنوں میں میرے قتل ہی کا تصور ہے، گواہوں کے ذہن میں ہے، ملزم کے ذہن میں ہے، الزام لگانے والے کے ذہن میں ہے۔ جن لوگوں نے چند دن اپنے ذہنوں میں مجھے قتل کرنے کا تصور رکھا ہوا ہو، وہ ایک دن مجھے قتل کرنے کا ارادہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے جن لوگوں نے چند دنوں تک مجھے قتل کرنے کا تصور اپنے ذہنوں میں رکھا ہے، ان کا زندہ رہنا قرین مصلحت نہیں ہے ۔میں نے حکم دے دیا ہے کہ ان سب کو، الزام لگانے والے کو، ملزم کو اور حتیٰ گواہوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، کیونکہ چند دنوں تک یہ تصوراُن کے ذہن میں رہا ہے۔

چنگیز کیا کرتا تھا؟ تیمور کیا کرتا تھا؟ کم سے کم درجہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے اوہام سے فائدہ اٹھاتے تھے، یعنی رعب و دبدبہ پیدا کرتے تھے، تاکہ لوگ ان سے متاثر ہوجائیں۔

۱۔سورۂ توبہ۹ ۔آیت ۷

۲۔نہج البلاغہ۔ مکتوب ۵۳