سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

امام حسین ؑ اور ذریعے کا استعمال

سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

امام حسین علیہ السلام کے لئے مسئلہ یہ نہیں تھاکہ آپ مارے جائیں گے یانہیں مارے جائیں گے، مسئلہ یہ تھا کہ کہیں دین قتل نہ ہوجائے، دین کا ایک اصول، اگرچہ وہ ایک چھوٹا سااصول ہی کیوں نہ ہو، پامال نہ ہوجائے ۔

عاشورکی صبح ہوتی ہے۔ شمر ابن ذی الجوشن، خباثت میں شاید دنیا میں اسکی مثال نہ ہو، اسے اس بات کی جلدی تھی کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے آکر حالات کا جائزہ لے لے۔ اس نے سوچا کہ خیمہ گاہ کے پچھواڑے جائے، بلکہ وہاں سے کسی جرم کا مرتکب ہو، لیکن اُسے نہیں معلوم تھا کہ امام حسین ؑ نے پہلے ہی سے انتظام کررکھا ہے، پہلے ہی سے حکم دے دیا ہے کہ خیموں کو ایک دوسرے کے نزدیک خطِ منحنی کی شکل میں نصب کریں، اِن کے پیچھے ایک خندق بھی کھود لیں اور کچھ خشک لکڑیاں اس میں ڈال کر انہیں آگ بھی لگا دیں، تاکہ دشمن پیچھے کی طرف سے نہ آسکے۔ جب شمر وہاں پہنچا اور اُسے یہ صورتحال نظر آئی، توبہت سٹپٹایا اور گالم گلوچ پر اُتر آیا۔امام حسین علیہ السلام کے بعض اصحاب نے بھی اُسے جواب دیا، البتہ گالیوں سے نہیں۔ بزرگ اصحاب میں سے ایک نے کہا: یا اباعبداللہ! اجازت دیجئے، ایک تیرپھینک کریہیں اس کا کام تمام کردیتا ہوں۔آپ نے فرمایا: نہیں۔ وہ سمجھے کہ شاید امام کو پتا نہیں ہے کہ شمر کس قسم کاآدمی ہے۔ کہنے لگے: اے فرزندِ رسولؐ! میں اسے جانتا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ یہ کتنا شقی انسان ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا: میں جانتا ہوں۔کہا:پس پھرکیوں اجازت نہیں دیتے؟ فرمایا: میں} جنگ کا{آغاز نہیں کرنا چاہتا۔ جب تک ہمارے درمیان جنگ شروع نہ ہو، اُس وقت تک ہم دو مسلمان گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ جب تک وہ جنگ اور خونریزی کی ابتدا نہیں کریں گے، میں جنگ نہیں چھیڑوں گا۔

یہ قرآنی اصول ہے، قرآن میں ہے:

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَداٰای عَلَیْکُمْ ۔

ماہِ حرام کا جواب ماہِ حرام ہے(پس اگر مشرکین ماہِ حرام میں تمہارے خلاف لڑیں، تو تم بھی ماہِ حرام کے باوجود اُن سے جنگ کرو) اورمحترم چیزوں میں قصاص جائزہے۔لہٰذا جوکوئی تم پر زیادتی کرے، تم بھی اُس پر اسی قدر زیادتی کرو ۔(سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۹۴ )

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام بھی جنگِ صفین میں اسی آیت کو سند قرار دیتے تھے، اور فرماتے تھے کہ میں اس آیت کی پابندی کی وجہ سے جنگ کاآ غاز نہیں کروں گا، لیکن اگر انہوں نے آغاز کیا، تو ہم دفاع کریں گے۔ امام حسین علیہ السلام، شمر کے معاملے میں بھی خیال رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک دشمن کی جانب سے عملاً جنگ کا آغازنہ ہو، اُس وقت تک ہماری جانب سے جنگ شروع نہیں ہونی چاہئے۔ یہ وہ نکات ہیں جو ائمہ ؑ کے روحانی مقام کی نشاندہی کرتے ہیں، کہ وہ کس طرح سے سوچا کرتے تھے۔}آپ حضرات کی سوچ یہ تھی کہ{ ایک چھوٹا سا اصول بھی، چاہے وہ ایک مستحب ہی کیوں نہ ہو، پامال نہیں ہونا چاہئے۔

لیکن دشمنوں میں یہ سوچ نہیں پائی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ دن چڑھ آیا۔ عمر سعد کا لشکر تیار ہوتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی میمنہ(right wing) تشکیل دیتے ہیں، میسرہ (left wing) تشکیل دیتے ہیں، قلبِ لشکر تشکیل دیتے ہیں، علمدارمقررکرتے ہیں۔آپ یہ نہیں سوچتے کہ وہ تیس ہزار کا لشکر ہے اور ہم بہتّر افراد۔ میمنہ زہیر کو دیتے ہیں، میسرہ حبیب کے سپرد کرتے ہیں اور علم اپنے بھائی ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حوالے کرتے ہیں۔ تیس ہزار کے لشکر کامردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن دشمن اصول پسند نہیں ہے، اس کا کوئی اصول نہیں ہے، اس کے سامنے مردانگی اوربزدلی کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، عمر سعد کی آنکھوں پر دنیا کی محبت اور رے کی حکومت کی لالچ کی پٹی بندھی ہوئی ہے اور اس کے تمام کام چاپلوسی پر مبنی اور عبید اللہ ابن زیاد کو خوش کرنے کے لئے ہیں، }اُس کا ہم وغم یہ ہے{ کہ کونسا ایسا کام کیا جائے کہ جب میں عبید اللہ کے پاس جاؤں، تو وہ مجھ سے زیادہ خوش ہو اور پھر رے کی حکومت کے حصول میں کوئی مشکل اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔لہٰذا اس نے تیر کمان میں چڑھایا۔ امام حسین علیہ السلام کے لشکر کی طرف پہلا تیر خودعمر سعد پھینکتا ہے اور کہتا ہے: اے لوگو! اے میرے سپاہیو! تم سب امیر کے سامنے گواہی دینا کہ پہلا تیر میں نے خود پھینکا تھا۔ عمر سعد کے پاس تقریباً چار ہزار تیر انداز تھے۔ تیر بارش کی طرح اصحابِ حسینی کی طرف آرہے تھے۔ لکھا ہے کہ امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ جو تیر انداز تھے، انہوں نے مخصوص انداز میں ایک زانو کو زمین پر رکھا اور دوسرا زانو خم کر کے مردانہ وار تیر برسانا شروع کردیئے۔ ان میں سے ایک شخص جامِ شہادت نوش کرتا تھا، تو اس کے مقابلے میں دشمن کے کئی افراد گرتے تھے۔ امام حسین ؑ کے زیادہ تر اصحاب شایداسی تیراندازی میں شہید ہوئے۔ لیکن امام حسین ؑ نے جنگ کاآغاز نہیں کیا۔

عاشورکے دن، جنگ ایک تیر سے شروع ہوکر، ایک تیر پرہی ختم ہوئی۔ عمر سعد کے تیر سے جنگ کاآغاز ہوا، اور ایک تین منہ کے زہر آلود تیر سے جنگ کا خاتمہ ہوا۔ فَوَقَفَ لِیَسْتَرِیْحَ سَاعَۃً۔ حسین ؑ چند لمحے سستانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ دشمن جسے بالکل یہ خیال نہ تھا کہ حسین ؑ بھی ایک انسان ہیں اور تلوار سے جنگ کر رہے ہیں، لہٰذاان کے ساتھ نزدیک سے جنگ کرنی چاہئے۔ کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر حسین ؑ کی طاقت پورے طور پر ختم ہوجائے، تب بھی وہ ان کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا، اس لئے اُس نے دور سے پتھر پھینکنا شروع کردیئے۔ امام حسین علیہ السلام کی پیشانئ اطہر زخمی ہوجاتی ہے۔ آپ اپنے پیراہن کے دامن کو اٹھا کر خون صاف کرنا چاہتے ہیں، یہی وہ موقع تھا جب عاشور کی جنگ کا اختتام ہوتا ہے، امام حسین ؑ گھوڑے سے زمین پر تشریف لاتے ہیں۔ اب مجھ میں کچھ کہنے کی تاب نہیں، صرف اتناعرض کروں گا کہ اچانک آواز سنائی دی کہ فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ وَعلیٰ مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ۔

و صلی اللّٰہ علی محمدوآلہ الطاہرین۔

باسمک العظیم الاعظم الاجلّ الاکرم یا اللّٰہ ۔۔

بارِ الٰہا! ہم سب کا انجام نیک قرار دے۔ ہمیں اسلام او رقرآن کا قدردان بنا۔ ہمیں حق شناس اور جائز ذرائع استعمال کرنے والا قرار دے۔ اپنی محبت اور معرفت کا نور ہمارے دلوں میں قرار دے۔اپنے نبی اورآلِ نبی کی محبت اور معرفت کا نور ہمارے دلوں میں منور فرما۔ ہمارے مرحومین کواپنی عنایت اور رحمت میں شامل فرما۔

و عجّل فی فرج مولانا صاحب الزمان۔