سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

تبلیغ کی اہمیت اور مبلغ کی شرائط

سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

چھٹی نشست ۔ تبلیغ کی اہمیت اور مبلغ کی شرائط

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین۔والصلٰوۃ والسلام علیٰ عبداللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ ومبلّغ رسالاتہ سیّدناونبیّنا ومولاناابی القاسم محمدوآلہ الطیّبین الطاہرین المعصومین۔

اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنکَاٰا شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اﷲِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا ۔

اے رسول ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا، عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۴۵ اور ۴۶

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے حاصل ہونے والے لازمی اسباق میں سے ایک سبق، حق کی طرف دعوت کا طریقہ، اندازِ تبلیغ اور لوگوں کو پیغامِ حق پہنچانے کی روش ہے۔ شاید ابتدا میں انسانوں کو حق کی طرف بلانا، خدا کی طرف دعوت دینا اور اُن تک پیغامِ الٰہی پہنچانا بعض لوگوں کو ایک معمولی کام نظرآئے ۔لوگ یہ سوچتے ہوں کہ یہ دعوت اورپیغام رسانی دوسری دعوتوں اور پیغام رسانیوں سے کس طرح مختلف ہے۔}اس سلسلے میں {ہم سب سے پہلے اس حوالے سے خودقرآنِ کریم کے نکتۂ نظر کو عرض کریں گے، کہ قرآن اس کام کوکس قدر اہم، سخت اور دشوار سمجھتا ہے۔پھر اسکے بعد وضاحت کریں گے کہ اس دعوت اور پیغام رسانی اوردوسری دعوتوں اور پیغام رسانیوں کے درمیان کیا فرق ہے۔

 

خدا وندِ عالم سے حضرت موسیٰ کی درخواستیں

قرآنِ مجید سورۂ طہٰ میں حضرت موسیٰ بن عمران علیٰ نبیّنا وآلہ و علیہ السلام کے بارے میں ایک نکتہ بیان کرتا ہے، جو بظاہر ایک اور ماجرا ہے ۔ حضرت موسیٰ مصر کی جانب واپس لوٹ رہے تھے کہ اُن کی زوجہ کو دردِ زہ اٹھا، لہٰذا حضرت موسیٰ اپنی اہلیہ کو سردی سے محفوظ رکھنے کی غرض سے آگ کی تلاش میں نکلے۔ وادئ مقدس میں آپ پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی ۔آپ پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوتی ہے ۔پھر اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں تک پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ موسیٰ نبوت کے حامل ہیں۔پس اب آپ ایک عام آدمی نہیں رہے ہیں جنہوں نے ایسی بات کہی ہو۔ جب آپ سے کہا گیا کہ جائیں اور جاکرفرعون اور فرعونیوں کوخدا کا پیغام پہنچائیں، تووہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ اور دشوار ذمے داری ڈال دی گئی ہے۔لہٰذا آپ ان جملوں کے ذریعے خدا سے کچھ درخواستیں کرتے ہیں:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۔

پروردگار مجھے شرحِ صدر عطا فرما۔

مختصراً ”شرحِ صدر“ کے معنی ہیں ” باطنی طور پرانتہائی وسیع اور غیر معمولی طور پر زیادہ تحمل“ کا مالک ہونا۔ اے خدا! میرے باطن کے ظرف کو وسیع کردے۔ وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۔ میرے کام کو میرے لئے آسان بنادے۔پس وہ محسوس کر رہے تھے کہ اُن کا کام ایک سنگین اور دشوار کام ہے۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ۔ میری زبان کی گرہ کو کھول دے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”میری زبان کی گرہ کو کھول دے“سے مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں کچھ لکنت تھی۔ مثلاً وہ ”سین“ درست طور پر نہیں بول سکتے تھے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب وہ کم سن تھے تو فرعون نے اُن کا امتحان لینے کی خاطر ایک سرخ انگارہ اُن کی زبان پر رکھ دیا تھا (جس سے اُن کی زبان میں لکنت آگئی تھی)۔ ہمارے خیال میں یہ بے بنیاد باتیں ہیں۔ ”میری زبان کی گرہ کو کھول دے“ سے بظاہر وہی مراد ہے جس پر قرآن بار بار تاکید کرتا ہے کہ پیغمبر کی تبلیغ، تبلیغِ مبین ہونی چاہئے، اُس کی پیغام رسانی روشن، واضح، آشکار کرنے والی اورراہنما ہونی چاہئے۔ کیونکہ اس کے بعد فرماتے ہیں: یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ میں تیرا پیغام لوگوں کو سمجھا سکوں اور لوگ سمجھ سکیں۔ سمجھنا یعنی واضح ہونا، درک کرنا، انسان کے لئے کوئی بات واضح ہوجانا۔ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ ھٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِہٖٓٓ اَزْرِیْ وَ اَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَّ نَذْکُرَکَ کَثِیْرًا ۔ پروردگارا! یہ بہت بھاری بوجھ ہے، میری مدد فرما۔ خود ایک انسان کی پیشکش کرتے ہیں، ہارون اُن کے بھائی ہیں۔ پروردگار! میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (جس کے لغوی معنی ”معاون“ ہیں) اور میرا مدگار قرار دے، اور اسے میرے اس کام میں میرا شریک قرار دے۔ کیوں؟ اس لئے کہ کام کا معیار بہتر رہے، اس لئے نہیں کہ نعوذباللہ میں گریز کرناچاہتا ہوں۔ کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَّ نَذْکُرَکَ کَثِیْرًا ۔} تاکہ ہم تیری بہت زیادہ تسبیح کر سکیں اور تیرا بہت زیادہ ذکر کر سکیں۔{ (۱)

۱۔سورۂ طہ۲۰۔آیت۲۵تا۳۴