اسلام کی نظر میں اولیائے الٰہی اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ائمۂ اطہار علیہم السلام تک پیشوایانِ اسلام بالفاظِ دیگر معصومین ؑ کی سیرت، شناخت کا ایک ذریعہ ہے ۔ اپنے مقام پران کا کلام، ان کی شخصیت، یعنی ان کی سیرت اورروش شناخت کا ایک سرچشمہ ہے۔ سیرت النبیؐ اور اسی طرح سیرتِ ائمہ ؑ ہمارے لئے ایک منبعِ درس ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا
تم میں سے اسکے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہو ئے ہے اور اللہ کو بہت کثرت سے یاد کرتا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱
یہ بات کہ سیرت النبی ؐسے کیا مراد ہے، اور یہ کس صورت سے ہمارے لئے شناخت کا ایک منبع ہے، اس بات کی وضاحت ہم بعد میں عرض کریں گے ۔یہاں ہم صرف ایک نکتہ عرض کررہے ہیں:
ہم نے جوظلم قرآنِ کریم کے ساتھ کیا ہے، وہی ظلم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ طاہرین علیہم السلام کی سیرت کے ساتھ بھی روا رکھا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ایسے تھے، تو ہم کہتے ہیں کہ وہ تو پیغمبر ؑ تھے، یا جب کہا جاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ایسے تھے، تو ہم کہتے ہیں کہ وہ تو علی ؑ تھے، تم علی ؑ سے ہمارا موازنہ کرتے ہو؟ نبی اکرم ؐسے ہمارا تقابل کرتے ہو؟ امام جعفر صادقؑ سے ہمارا مقابلہ کرتے ہو؟ وہ حضرات تو ”زآب و خاکِ دگر و شہر و دیارِ دگرند“(وہ تو ایک د وسری آب و خاک، ایک دوسرے شہر و دیار سے تعلق رکھتے ہیں)اُن کا خمیر کسی اور جہاں سے ہے؟ اور چونکہ ان کا خمیر کسی اور جہاں سے متعلق ہے، اس لئے ہمارا ان سے کوئی ربط نہیں بن سکتا۔ ”کارِ پاکان را قیاس از خود مگیر“نیک لوگوں کے عمل کااپنی ذات سے قیاس نہ کرو۔
کبھی کبھی ایک قوم کے لئے ایک مصرع طاعون کی وبا سے سو گنا زیادہ نقصاندہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ایسے گمراہ کن مصرعوں میں سے ایک یہ ہے کہ: ”کارِ پاکان را قیاس از خود مگیر“ البتہ شاعر کے نزدیک اس مصرع کے معنی کچھ اور ہیں اور ہمارے درمیان اسکے کچھ اور معنی رائج ہیں۔ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اپنے کاموں کا پاک لوگوں کے کاموں سے قیاس نہ کرو، اسے ہم ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں کہ: ”کارِ پاکان راقیاس ازخود مگیر“ یہ مولانا روم کا شعر ہے، جو ایک داستان کے درمیان آیا ہے، اور وہ داستان کچھ اور کہہ رہی ہے اور جو ایک فرضی داستان۔ وہ کہتے ہیں کہ : ایک پرچون فروش کے پاس ایک طوطا تھا: ”بود بقالی مر او را طوطی ای“۔ یہ طوطا بولتا تھا اور اس کے ساتھ باتیں کیا کرتا تھا۔ دکاندار اس سے کبھی کبھار ایک ملازم کا کام بھی لے لیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی کسی کے وہاں آنے پر وہ شور و غل کیا کرتا تھا، یا کوئی بات کہہ دیا کرتا تھا، یا بعد میں کچھ کہتا تھا۔ دکاندار اس سے خوش تھا۔
ایک دن بے چارہ یہ طوطا شاید ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے کی طرف اُڑ رہا تھا، یا شاید ایک مرتبان سے دوسرے مرتبان کی طرف جا رہا تھا کہ روغنِ بادام کا ایک مرتبان الٹ گیا۔ مزید یہ کہ، یہ تیل دوسری چیزوں پر بھی گرا اور کئی چیزیں ضائع ہوگئیں اور دکاندار کو ایک بڑا نقصان ہوگیا۔ باوجودیہ کہ دکاندار طوطے سے بہت محبت کرتاتھا، لیکن اس روز اس نے طوطے کو پیٹ ڈالا: تیرا ستیانا س تو نے یہ کیاکردیا! اس نے طوطے کی ایسی پٹائی کی کہ اس کے سر کے بال جھڑ گئے۔ اس کے بعد سے طوطے نے خاموشی اختیار کر لی اور ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
دکاندارکو اپنی حرکت پر پشیمانی ہوئی :میں نے کتنا برا کیا، اپنے خوش خواں پیارے طوطے کے ساتھ میں نے یہ کیا کردیا! اس نے سب کچھ کر دیکھا، اسے مزے دار کھانے دیئے، پیار کیا، لیکن طوطا اسکے سامنے بول کے نہ دیا۔اسی طرح ایک مدت گزر گئی۔ ایک دِن ا یک گنجا آدمی کوئی چیز خریدنے دکان پرآیا۔ طوطے نے اسے دیکھا کہ اس کا سر گنجا ہے۔ جیسے ہی اسکے گنجے سر کودیکھا، فوراً بول اٹھا اور کہا:
از چہ ای کل با کلان آمیختی
تو مگر از شیشہ روغن ریختی
کہنے لگا: کیا تم نے بھی روغنِ بادام گرایا تھا جو تمہارا سر بھی گنجاہوگیا؟
طوطا دوبارہ بولنے لگا۔
مولانا یہاں ایک بات کہتے ہیں، اور اسکے بعد بزرگوں کو اپنی ہی طرح سمجھنے والے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہاں طوطے نے اپنے آپ کو معیار بنا لیا تھااور پھر اس گنجے کا اپنے آپ سے موازنہ کیا تھا۔ یعنی گنجے کو اپنے جیسا سمجھ لیا تھا۔ مولانا کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرو، بزرگوں کو اپنے جیسا نہ سمجھو۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ ایک انسان جو اپنے آپ میں بعض جذبات موجود پاتا ہے (وہ دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھنے لگتا ہے)۔ مثلاً ایک شخص جو ایک نماز بھی حضورِ قلب کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتا ہے: ارے صاحب! دوسرے بھی ایسے ہی ہیں۔ کیا کوئی حضورِ قلب کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے؟ یعنی وہ اپنے آپ کو دوسروں کا معیار بنا لیتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ ہمیں دوسروں کو اپنی طرح نہیں سمجھنا چاہئے۔ ”کارِ پاکان را قیاس از خود مگیر“ یعنی اپنے آپ کو نیک لوگوں کے لئے معیار قرار نہ دو۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔ لیکن ہم اکثریہ شعر پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: دوسروں کو اپنا معیار نہ بناؤ، یعنی یہ تم کیا سوچنے لگے ہو کہ میں نبی اکرم ؐجیسا بن جاؤں (یعنی نبی کی پیروی کروں)، علی ؑ کی مانند اور ان کا پیرو بن جاؤں۔
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ شعرہمارے درمیان گمراہ کن ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے قرآن کو اٹھا کر بلند طاق پر رکھ دیا ہے، اسی طرح ہم نے سیرتِ انبیا، اولیا اور خاص طور پر سیرت النبی ؐاور سیرتِ معصومین ؑ کو بھی اٹھا کر اونچے طاقوں کی زینت بنا دیا ہے۔ ہم کہنے لگے ہیں کہ: وہ تو نبی ہیں، جنابِ فاطمہ ؑ بھی جنابِ فاطمہ ؑ ہیں، امیر المومنین ؑ تو امیر المومنین ؑ ہیں، امام حسین ؑ تو امام حسین ؑ ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگرطویل عرصے تک بھی ہمارے سامنے تاریخِ پیغمبر ؐبیان کی جائے، تب بھی ہمارے لئے سبق آموز نہیں ہوگی، اور بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے یہ کہا جائے کہ: فرشتوں نے عالمِ بالا میں یہ کام کیا ہے۔ ٹھیک ہے، فرشتوں نے کیا ہے، ہمارا اس سے کیا تعلق! اگر ایک مدت تک ہمارے سامنے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بات کی جاتی رہے، تب بھی ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی۔ ہم یہی کہیں گے کہ علی ؑ تو ہمارے لئے معیار نہیں بن سکتے۔ ایک عرصے تک ہمارے سامنے حضرت امام حسین علیہ السلام کی باتیں کرتے رہیں، لیکن ہم پرکوئی اثرنہیں ہوگا، اور ہم امام حسین ؑ کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں بڑھائیں گے ۔ کیونکہ ”کارِ پاکان را قیاس از خود مگیر“ یعنی شناخت کا یہ سرچشمہ بھی ہم سے چھین لیاگیا ہے ۔ حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے پیغمبر کی بجائے کوئی فرشتہ بھیج دیتا۔
پیغمبر ؐ، یعنی انسانِ کامل، علی ؑ یعنی انسانِ کامل، حسین ؑ یعنی انسانِ کامل، زہراؑ یعنی انسانِ کامل۔ یعنی ان میں بشری امتیازات فرشتوں سے بھی بالاتر کمال کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ یعنی انہیں ایک بشر کی طرح بھوک لگتی ہے تو کھانا کھاتے ہیں، پیاسے ہوتے ہیں تو پانی پیتے ہیں، انہیں نیند کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں، ان میں جنسی جبلّت بھی پائی جاتی ہے، جذبات بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے قابلِ اقتدا بن سکتے ہیں۔ اگر ایسے نہ ہوتے، تویہ لوگ امام اور پیشوا نہ ہوتے۔
اگر نعوذ باللہ امام حسین علیہ السلام میں ایک انسان کے جذبات نہ ہوتے، یعنی جس طرح ایک انسان کو اپنے بچے کی تکلیف دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، اس طرح امام ؑ اپنے بیٹے کو پہنچنے والی تکلیف سے رنجیدہ نہ ہوتے او راگر ان کے بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا، تب بھی ان کا دِل نہ پسیجتا اور بالکل ایسے ہوتے جیسے ان کے سامنے ایک لکڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہاہو، تویہ کوئی کمال نہ ہوتا۔ میں بھی اگر ایسا ہوتا تو یہی کرتا۔
اتفاقاً ان کے انسانی جذبات اور بشری پہلو ہم سے زیادہ قوی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی کمالات کے پہلوؤں سے فرشتوں او رجبرئیلِ امیں سے بالاتر ہیں۔ اسی لئے امام حسین ؑ امام ہوسکتے ہیں، کیونکہ وہ تمام انسانی امتیازات کے مالک ہیں۔ ان سے بھی جب ان کا جوان بیٹا اجازت لینے آتا ہے تو ان کا دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ ان میں ہم اور آپ سے سوگنا زیادہ شفقتِ پدری پائی جاتی ہے }اور جذبات واحساسات کا تعلق انسانی کمالات میں سے ہے{ لیکن خوشنودئ حق کے لئے وہ ان سب جذبات و احساسات کو کچل ڈالتے ہیں۔
فَاسْتَاْذَنَ اَبَاہُ فَأَذِنَ لَہُ۔ آئے اور کہا: باباجان! مجھے اجازت دیجئے؟ فرمایا: جاؤ بیٹا۔ یہاں مورخین نے کئی اہم عمدہ نکات بیان کئے ہیں۔ لکھا ہے: فَنَظَرَ اِلَیْہِ نَظَرَ آءِسٍ مِنْہُ وَ اَرْخیٰ عَیْنَیْہِ۔ ایک نگاہ ڈالی، اُ س شخص کی سی نگاہ جوکسی کی زندگی سے مایوس ہوکر اس کو دیکھتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے اور روحانی حالات کے انسانی جسم پر اثرات کے حوالے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب انسان کو کوئی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ بے اختیار کھل اٹھتا ہے اور اس کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں۔ اور اگر انسان اپنے کسی عزیز کے سرہانے بیٹھا ہوتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ مر جائے گا، تو وہ اس کو نیم بازآنکھوں سے دیکھتا ہے، یعنی اس کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں، گویا ان میں اچھی طرح دیکھنے کی طاقت نہ رہی ہو۔ برخلاف اس وقت کے کہ جب اس کے بیٹے نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، یا اس کی شادی کی رات ہو، تو اُ سے چمکتی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے حسین ؑ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کی آنکھیں نیم باز تھیں اور وہ اپنے جوان بیٹے کو دیکھ رہے تھے: فَنَظَرَ اِلَیْہِ نَظَرَ آءِسٍ مِنْہُ۔ گویا علی اکبر ؑ کی کشش نے حسین ؑ کو چند قدم اپنے پیچھے آنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ چلے تو دیکھا کہ حسین ؑ بھی ان کے پیچھے چندقدم چلے اور بولے:
در رفتن جان از بدن
گویند ہر نوعی سخن
من خود بہ چشمِ خویشتن
دیدم کہ جانم می رود
چلتے رہے اورآگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ مردانگی کے ساتھ صدا بلند کی اور عمر سعد کو مخاطب کرکے فرمایا: اے ابن سعد! خدا تیری نسل کو منقطع کردے، جیسے تو نے میری نسل کو منقطع کیاہے۔
قَطَعَ اللّٰہُ رَحِمَکَ کَمَا قَطَعْتَ رَحِمِیْ۔