رسولِ اکرمؐ اور ذرائع کا استعمال
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
قبیلۂ ثقیف کے کچھ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن ہماری تین شرطیں ہیں، آپ ان شرائط کو مان لیجئے۔ ایک شرط یہ ہے کہ آپ ہمیں ایک سال اور ان بتوں کی پرستش کی اجازت دیجئے۔ (ان لوگوں کی طرح جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بار پیٹ بھر کر کھانے دو) آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ایک سال مزید اچھی طرح ان بتوں کی پرستش کرلیں تاکہ اس عمل سے اچھی طرح ہمارا پیٹ بھر جائے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ یہ نماز ہمارے لئے بہت سخت اور ناگوار ہے۔ (عربوں کو ان کا تکبر اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ رکوع اور سجود بجا لائیں، اورکیونکہ پوری نماز خشوع اور خضوع ہی پر مشتمل ہے، اس لئے ان کی طبیعت پر بہت گراں گزرتی تھی)۔ تیسری شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے بڑے بت کو اپنے ہاتھوں سے توڑنے کے لئے نہ کہئے گا۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان تین شرطوں میں سے آخری شرط جو یہ ہے کہ تم فلاں بت کو اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑو گے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، میں }اس کام کے لئے{ کسی اور کو بھیج دوں گا۔ لیکن تمہاری دوسری شرطیں، محال ہیں۔
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں سوچا کہ ایک قبیلہ آکے مسلمان ہونا چاہتا ہے، اس نے چالیس سال بت پرستی کی ہے، چلو ایک سال اور کرنے دو، ایک سال بعد آکے مسلمان ہوجائے۔اگر آپ ایسا کرتے تواس کا مطلب بت پرستی کی تائیدکرنا ہوتا۔ نہ صرف ایک سال بلکہ اگر وہ کہتے کہ یا رسول اللہ! ہم آپ سے معاہدہ کرتے ہیں کہ صرف ایک دن اور بتوں کی پوجا کرنے دیجئے، اس کے بعد ہم مسلمان ہوجائیں گے ( اور پیغمبرؐ معاہدے کی رو سے ایک دن کے لئے ایسا کرنا قبول کرلیتے)، تو یہ قبول کرنا محال تھا۔ اگر وہ کہتے کہ یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ایک دن نماز نہ پڑھیں، اسکے بعد مسلمان ہوکر نماز پڑھیں گے (اور یہ ایک دن نماز نہ پڑھنا پیغمبر اکرمؐ سے معاہدے کے مطابق اور ان کی رضا مندی سے ہو)تو محال تھا کہ پیغمبرؐاس بات کی اجازت دیتے۔ پیغمبرؐ ہر طریقے سے استفادہ نہیں کیا کرتے تھے۔
دین کے مفادمیں، لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھانا
میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ناجائز ذرائع کااستعمال خود ایک علیحدہ مسئلہ ہے، اس سے زیادہ حساس اور نازک بات یہ ہے کہ کیا حق کی خاطر لوگوں کی غفلت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
لوگوں کے خوابِ غفلت سے، لوگوں کی جہالت اور نادانی سے دین کے حق میں استفادہ ایک مسئلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کم ہی لوگ ہوں گے جو کہیں گے کہ اس میں کوئی مضائقہ ہے۔ کہیں گے، یہ بیچارہ ایک جاہل آدمی ہے، نادان انسان ہے، بے خبرشخص ہے، اپنی اسی بے خبری، جہالت اور نادانی کے عالم میں اسکے بعض عقائد بن گئے ہیں۔ فلاں شخص نے بی بی شہربانو کے حوالے سے مثلاً کوئی عقیدہ یا ایمان بنالیا ہے۔ اب ہمیں کیا کہ اسے اسکی اس غفلت سے بیدار کریں، اس نے بالآخر اسی راستے سے ایک عقیدہ بنالیا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مادرِگرامی شہربانو حقیقتاً کربلا میں موجود تھیں اور جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے، تو وہاں بندھے ہوئے ایک گھوڑے پر سوار ہوئیں اور اسے ایک چابک رسید کیا۔ پھر عمر سعد کے سپاہیوں نے ان کا تعاقب کیا ہے اور بی بی اُن سے بچ کر آگئیں۔ اب اگر یہ کہیں کہ بی بی شہربانو کے گھوڑے نے عزم کیا ہوا تھا، تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ لشکر عمر سعد کے گھوڑے بھی عزم کئے ہوئے تھے کہ ایک مرتبہ میں ڈیڑھ سو فرسخ تک دوڑکر آئے، بلکہ ان کا عزم تو زیادہ ہوا، کیونکہ جب بی بی شہر بانو اس پہاڑ پر پہنچی ہیں، تو اُن کا گھوڑا تھک چکاتھا اور وہ لوگ سر پر پہنچ گئے تھے، جب وہ انہیں گرفتار کرنے کے لئے ان کے قریب آئے تو انہوں نے کہنا چاہا کہ ”یاھو“ مجھے اپنی پناہ میں لے لے، لیکن اسکی بجائے غلطی سے ان کے منہ سے نکلا کہ ”یاکوہ“ مجھے پناہ میں لے لے اوریوں کوہ (پہاڑ) نے انہیں اپنی پناہ میں لے لیا!
عجیب بات ہے۔۔تاریخ و حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ امام سجاد سلام اللہ علیہ کی والدۂ ماجدہ نفاس کی حالت میں، یعنی وضع حمل کے فوراً بعد وفات پا گئی تھیں اور کربلا کی جنگ میں موجود ہی نہیں تھیں۔آپ کوایک مقتل بھی ایسا نہیں ملے گا، جو یہ کہتا ہو کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی والدہ (خواہ وہ بی بی شہربانو ہوں یا کوئی اور خاتون) کربلا میں موجود تھیں۔ یہ افسانہ سازوں کا بنایا ہوا ایک افسانہ ہے۔ کچھ لوگ اس کے بھی معتقد ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا، جھوٹ ہے تو ہوا کرے، لیکن آخر کارلوگوں میں اسی راہ سے ایک ایمان اور ایک اعتقاد پیدا ہوگیا ہے۔ یہ درست ہے یا نہیں؟ یعنی لوگ خوابِ غفلت کی وجہ سے، جہالت و نادانی کے سبب سے، کچھ خرافات کی باعث، آخرکار ایک درست عقیدے تک پہنچ گئے ہیں۔
کیا ہمیں اس بات کا حق ہے کہ ہم اس کی تائید کریں؟
نہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام کا وہ کلام جس کاذکر ہم پہلے کرچکے ہیں، اس میں ایک نکتہ تھا، جسے عرض کرنا ہم بھول گئے تھے۔ جہاں آپ فرماتے ہیں:
طبیبٌ دَوّارٌ بطِبِّہ قَدْ اَحْکَمَ مَراہِمَہُ وَاَحْمیٰ مَواسِمَہُ۔
اسکے بعد اسکے کی ذیل میں فرماتے ہیں:
یَضَعُ مِنْ ذٰلِکَ حَیْثُ الْحَاجَۃُ اِلَیْہِ مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ وَ آذانٍ صُمٍّ وَاَلْسِنَۃٍ بُکْمٍ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۰۶)
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ذرائع اور جو وسائل استعمال کیا کرتے تھے، کہیں تو طاقت اورداغنے کے اوزار کا استعمال کرتے تھے، اور کہیں مرہم کا۔ ایک مقام پر تندی اور سختی کا رویہ رکھتے تھے، ایک جگہ نرمی کا۔ لیکن وہ اسکے موقع محل سے واقف تھے۔
اسکے بعد یوں بیان کرتے ہیں: جس مقام پربھی ان ذرائع سے استفادہ کرتے تھے، وہ لوگوں کی بیداری اورآگہی کی خاطرہوتا تھا۔ تلوار کو اس مقام پر کام میں لاتے تھے جہاں لوگوں کو بیدار کرنا مقصود ہوتا تھا، انہیں سُلانے کے لئے اسے استعمال نہیں کرتے تھے۔ اخلاق کو اس جگہ کام میں لاتے تھے، جہاں وہ آگہی اور بیداری کا سبب بنتاتھا۔ تلوار کو اس جگہ استعمال کرتے تھے جہاں نابینا کے دل کو بینا کرتے تھے، بہرے کے کانوں کو سننے والا بناتے تھے، اندھے کی آنکھ کو دیکھنے والا بناتے تھے، گونگے کی زبان کو گویا کرتے تھے۔ یعنی پیغمبرؐجو بھی ذرائع استعمال کرتے تھے، وہ لوگوں کی بیداری کے لئے تھے۔
پیغمبرؐ کے بچے کی وفات اور سورج گرہن
ایک داستان ہے، جو ہماری حدیث کی کتابوں میں موجودہے، حتیٰ اہلِ سنت نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ ماریہ قبطیہ سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بیٹاتھا، جس کا نام ابراہیم تھا۔ یہ بیٹا، جس سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت پیار تھا، ڈیڑھ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔
قدرتی بات ہے رسولِ اکرمؐ جوپیکرِ محبت تھے، غمگین ہوجاتے ہیں، حتیٰ ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں:دل جلتا ہے اورآنسو بہتے ہیں، اے ابراہیم ہم تمہاری خاطر غمگین ہیں، لیکن رضائے الٰہی کے برخلاف کوئی بات زبان پر نہیں لائیں گے۔
کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل مغموم تھا، اسلئے تمام مسلمان بھی حزن و ملال کا شکار تھے۔ اتفاق سے اسی دن سورج گرہن ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو یقین ہے کہ سورج گرہن، پیغمبر ؐکے غم میں عالمِ بالا کا ساتھ دینا ہے۔ یعنی رسولؐ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے سورج کوگرہن لگا ہے۔(۱)
یہ بات مدینہ کے لوگوں میں پھیل گئی، اور مرد وزن ایک زبان ہوکرکہنے لگے کہ دیکھا! سورج پیغمبر اکرمؐ پر طاری ہونے والے غم میں گہنا گیا۔ حالانکہ پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں سے نہیں کہا تھا کہ (نعوذباللہ) سورج گرہن اس وجہ سے ہوا ہے۔ اس بات کی وجہ سے رسولِ اکرمؐ پر لوگوں کا ایمان اور اعتقاد بڑھ گیا، اور لوگ بھی اس قسم کے مسائل میں اس سے زیادہ غور و فکر نہیں کرتے۔
لیکن نبی اکرؐم کیا کرتے ہیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں چاہتے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اُن میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں، وہ اُن کی قوی چیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، پیغمبر اکرؐم نہیں چاہتے کہ اسلام کے مفاد میں لوگوں کی جہالت اور نادانی سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ لوگوں کے علم و معرفت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر نہیں چاہتے کہ لوگوں کی لاعلمی اور غفلت سے فائدہ اٹھائیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی بیداری سے استفادہ کریں، کیونکہ قرآن نے انہیں حکم دیا ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ(۲) اورکچھ ذرائع کا ذکر کیا ہے۔
(پیغمبر اکرمؐ نے یہ نہیں سوچا کہ) عوام الناس نے اپنی جہالت سے یہ بات کہی ہے، خُذِالْغَایَاتِ وَ ا تْرُکِ الْمَبَادِیَ۔ (۳) آخرانہوں نے اس سے اچھا نتیجہ حاصل کیا ہے، میں نے تو ان سے نہیں کہا، میں یہاں خاموش رہتا ہوں۔}نہیں، آپ نے{ خاموشی بھی اختیار نہیں کی، آپ منبر پرتشریف لائے، گفتگو فرمائی اور لوگوں کو مطمئن کردیا۔آپ نے فرمایا: یہ جو سورج گرہن ہوا تھا، یہ میرے بیٹے کی وجہ سے نہیں تھا۔
جو شخص حتیٰ اپنی خاموشی سے بھی غلط فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے ایسا ہونا چاہئے، کیوں؟ اس لئے کہ اولاً تو اسلام کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ لوگ جن کے دین کی کوئی منطق نہیں، جو دلیل وبرہان نہیں رکھتا، جن کے دین کی حقانیت کے آثار واضح اور نمایاں نہیں ان کے لئے چھوڑ دووہ جھوٹے خوابوں، جعلی باتوں اور اس قسم کی خاموشیوں سے استفادہ کریں ۔ اسلام کو اس قسم کی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ثانیاً جو شخص ان چیزوں سے استفادہ کرتا ہے، وہ بھی آخرکار غلطی کرتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ سب لوگوں کو ہمیشہ جہالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یعنی کچھ لوگوں کو ہمیشہ جہالت میں رکھا جاسکتا ہے، تمام لوگوں کو بھی ایک عرصے تک جہالت اور بے خبری میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے، لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے جاہل نہیں رکھا جاسکتا۔ قطع نظر اسکے کہ خدا اس بات کی اجازت نہیں دیتا (بالفاظِ دیگر) اگر یہ اصول نہ بھی ہوتا، تب بھی ایک پیغمبرؐ جو اپنے دین کو تاابد قائم رکھنا چاہتا ہے، کیا وہ نہیں جانتا کہ سو سال بعد، دو سو سال بعد، ایک ہزار سال بعد لوگ آکر ایک دوسرے طریقے سے فیصلہ کریں گے؟ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ خدا اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔
۱۔البتہ اس بات میں اپنی حد تک کوئی مانع نہیں ہے۔نبی اکرؐم کی خاطر دنیاکا زیر و زبر ہوجانا ممکن بات ہے ۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
۲۔ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت (عقلی دلائل) اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دو اور بہترین طریقے سے ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرو۔)سورۂ نحل ۱۶۔آیت ۱۲۵)
۳۔مقاصدکوپیش نظر رکھو، ذرائع پر توجہ نہ دو۔