تبلیغ کے مسئلے کی اہمیت
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
بعض مسائل کی اہمیت کو ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ کیونکہ ہم نے اُن کی اہمیت کو، یعنی اُن کی منزلت کو جان لیا ہے، لہٰذااُنہیں اُن کی منزلت کے ساتھ جانتے ہیں۔ مثلاً فتویٰ دینے کا مسئلہ۔ خوش قسمتی سے، بڑی حد تک ہمارے معاشرے کے کم از کم پچانوے فیصدی افراد یہ جانتے ہیں کہ فتویٰ دینا ایک مشکل اور انتہائی اعلیٰ سطح کا کام ہے۔ نہ کوئی جلد مفتی ہونے کا دعویٰ کرنے کی جرأت کرتا ہے اورنہ ہی معاشرہ اس دعوے کے شوقین افراد کا دعویٰ جلد قبول کرتا ہے۔ معاشرے نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ یہ ایک اعلیٰ سطح کاکام ہے۔ لیکن لوگوں کو حق کی دعوت دینے، لوگوں کو تبلیغ کرنے، لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرنے، لوگوں کو خدا کی جانب حرکت دینے (اس کی اہمیت کونہیں پہچانا گیا ہے)۔ یہاں ہم حرکت دینے کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔
}شاعر نے{ کہا ہے:
در این رہ انبیاء چون ساربانند
دلیل و رہنمای کاروانند
و ز ایشان سید ما گشتہ سالار
ھمو اوّل ھمو آخر در این کار
جمال جانفزایش شمع جمع است
مقام دلگشایش جمعِ جمع است
روان از پیش و دلھا جملہ از پی
گرفتہ دست جانھا دامن وی
انسان کو حرکت دینا ہے، البتہ کس طرف حرکت دینا ہے؟ مفادات کی جانب؟ نہیں۔ بہت سے مکاتیب (schools of thought)انسان کو حرکت دیتے ہیں، بہت اچھی طرح حرکت دیتے ہیں، لیکن کس طرف؟ مفادات کی طرف، اُس کے منافع کی جانب۔
ہم کچھ نسبتاً مقدس مقاصد کی بات بھی کر لیتے ہیں: لوگوں کے حقوق کے جانب، }حرکت دیتے ہیں{ اس لئے کہ آخرکارلوگوں کے مفادات ا ن کے حقوق میں پوشیدہ ہیں، اور یہاں تک ہم بھی ان سے متفق ہیں۔ انبیا ؑ بھی لوگوں کو اُن کے حقوق کے حصول کی جانب حرکت دیتے ہیں۔ انبیا ؑ کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام لوگوں کو حرکت دینا ہے، لیکن یہ، وہ معمولی سی حرکت ہے جو انبیاؑ دیتے ہیں، وہ محروم کو اس بات پرابھارتے ہیں کہ اے محروم! جاؤ اور اپنا حق لے لو، اے مظلوم! جاؤ اور ظالموں سے اپنا حق چھین لو۔ یہ بھی انبیا کی تحریکوں کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ بہت معمولی حرکت ہے، کیونکہ انسان کے مفادات اور اس کا طبیعی رجحان بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ ”ستم زدہ لوگو! متحد ہوجاؤ اورظالموں سے اپنا حق چھین لو“۔
البتہ اس راہ پر چلانا بھی ایک کام ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک معمولی کام ہے، لیکن انبیا ؑ کے پروگرام کے مطابق یہ وہ معمولی کام ہے جو انبیا ؑ نے انجام دیا ہے اور دوسروں کی نسبت اس کام کو بہتر طور سے انجام دیا ہے۔ وہ عظیم حرکت جو انبیا ؑ پیدا کرتے ہیں، وہ حرکت ہے جو انسان کو اپنی ذات کی منزل سے حق کی جانب دھکیلتی ہے۔}شاعر نے{ کہاہے:
صلای بادہ زد پیرِ خرابات
بدہ ساقی کہ فی التاخیر آفات
سلوک راہِ عشق از خود رہائی است
نہ طیّ منزل و قطعِ مسافات
انسان کوخوداپنے آپ سے آزاد کروانا اور حق تک پہنچانا۔ یعنی انسان کو اس کے اپنے اندر سے خود اس کے اپنے خلاف اٹھانا۔}اسلام {نہ صر ف یہ کہ مظلوم کو ظالم کے خلاف ابھارتا ہے، بلکہ بسا اوقات ظالم کو خوداسکے اپنے خلاف ابھارتا ہے، جس کا نام توبہ ہے، پلٹنا، انسان کو خودپرستی اور نفس پرستی سے حقیقت پرستی کی طرف حرکت دینا۔ مشکل کام یہ ہے۔
جس کسی نے بھی اس کام میں انبیا ؑ کا مقابلہ کیا، ہم اسے اہمیت دے سکیں گے۔ فلاں انقلابی رہنما نے عوام کو ان کے مفادات کی طرف حرکت دی ہے، چاہے اُن کے حقوق کے حصول کے نام پر، ہم نہیں کہتے کہ اُن کے حقوق کے نام پر، بلکہ سچ مچ ان کے حقوق کے حصول کے لئے، ہم اس کے لئے مقدس لفظ بھی استعمال کرتے ہیں، کہ یہ ایک عظیم کام ہے، لیکن یہ انبیا ؑ کا ایک بہت معمولی سا کام ہے۔ انبیا ؑ کے کام کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، خدا کی طرف دعوت دینے والے ہر شخص، ہر مبلغ اور خدا کا پیغام پہنچانے والے ہر انسان کو اس کی پیروی کرنی چاہئے، اُسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورحضرت علی علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔ انسانوں کو خود غرضی، خود پرستی، نفس پرستی اور مفاد پرستی سے حق و حقیقت پرستی کی طرف لانا ہی مشکل کام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بہت مشکل اوردشوار کام ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ ہم نے بعض کاموں کی، بعض امور کی اہمیت کو کسی حد تک اُن کے مقام کے مطابق درک کر لیا ہے اوربجا طور پر درک کیا ہے اورہمیں انہیں اسی طرح درک کرنا چاہئے۔ لیکن ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے بعض کاموں کی اہمیت کو اُن کے مقام کے مطابق درک نہیں کیا ہے۔
آج رات ہمارا موضوع سیرتِ نبیؐ سے تبلیغ و دعوت کے معاملے میں سبق حاصل کرنا ہے، اور اتفاق یہ پیش آیا ہے کہ عالم و فاضل خطیب جناب آقائے فلسفی بھی اس مجلس میں موجود ہیں، جن کے بارے میں بجا طور پر یہ کہنا چاہئے کہ وہ اس فن میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، اور انہوں نے اس شہر اور اس ملک کے لئے انتہائی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہم نے عرض کیا یہ ایک اتفاق ہے۔ ہماری مرا د یہ ہے کہ ہم نے ایسا نہیں سوچا تھا لیکن ایسا ہوا اور بہت خوب ہوا۔ ہمیں جنابِ عالی کی اور اُن حضرات کی جنہوں نے ایک داعی اور ایک لائق خطیب(ممکن ہے آپ کہیں کہ اسلام کا مقام بہت بلند ہے، ہم نسبی( comparative) طور پر لائق کہیں تب بھی کافی ہے)بننے کے لئے مشکلات سہی ہیں قدر کرنی چاہئے ۔}شاعر{ کہتا ہے:
یَرَی النَّاسُ دُھْناً فِی الزُّجَاجَۃِ صَافِیاً
وَ لَمْ یَدْرِ مَا یَجْرِیْ عَلیٰ رَأْسِ سِمْسِمِ
یعنی لوگ تلوں کا صاف شدہ تیل بوتلوں میں دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ تلوں کے ان دانوں پر کیا گزری ہے جس کے بعد اب وہ یہ صاف شدہ تیل دیکھ رہے ہیں۔ صاف شفاف اور پاک و پاکیزہ تبلیغ لوگ دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان بیچاروں پر کیا گزری ہے جس کے بعد انہیں آج یہ صاف شفاف تیل نظرآرہا ہے۔
بہر صورت قرآنِ مجید اس معاملے کو بہت ہی بلند سطح پر لے گیا ہے۔
کیوں؟
خدا صرف اپنے پیغمبر سے کہہ سکتا تھا:اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً۔، یا :’اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ لیکن یہ سب امت کے لئے تعلیم ہے۔
اس حقیقت کو خدا کس لئے اپنے پیغمبر تک پہنچاتا ہے اورپوری امت کے حوالے کرتا ہے؟
خدا اور نبی ؐکے درمیان بہت سے معاملات ہیں، لیکن کیونکہ اُن کا تعلق عوام سے نہیں ہے، اس لئے صرف خدا جانتا ہے اور اس کا نبی ؐاور دوسروں سے اس کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ جب کوئی مسئلہ بیان کیا جاتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسے سیکھا جائے۔ دعوت کا کام ہے، تبلیغ کا کام ہے، آسان کام نہیں ہے۔پس ہم قرآن سے سیکھتے ہیں کہ دعوت اور تبلیغ میں سب سے پہلی شرط شرحِ صدر ہے، وسیع القلبی ہے، ایک دنیا کے برابروسیع ظرفیت ہے۔
عقل اور فکر کو ابلاغ
ممکن ہے آپ کہیں کہ تبلیغ اور پیام رسانی کا کام اس قدر مشکل کیوں ہوگا؟ جواباً ہم عرض کرتے ہیں کہ: ہر پیغام رسانی اتنی مشکل نہیں ہوتی۔ ایک پیغام رسانی کا تعلق صرف حِس کوپیغام پہنچانا ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ ایک آسان کام ہے۔ کورٹ کا بیلف جو پیغام پہنچاتا ہے اورایک شخص کو اطلاع کے طور پر یا الزام کے طور پر جو وارننگ پہنچاتا ہے، تویہ حِس کو پیغام پہنچاناہے، جو وہ اسے دکھا دیتا ہے۔ اگرآپ کوئی پیغام پہنچانا چاہتے ہیں، اور اگر آپ کی ذمے داری دوسرے کی صرف حِس تک پیغام پہنچانا ہو، پیغام اس کو فقط دکھانا یا سنانا ہو، تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لوگوں کی آنکھوں یا کانوں تک کوئی بات پہنچائی جاسکتی ہے۔ لیکن انبیا ؑ، جن کے پاس بلاغِ مبین ہے، کیا اُن کی ذمے داری محض اتنی ہے کہ وہ لوگوں تک بات کو پہنچا دیں، اور بس کیا یہی کافی ہے؟ بس اتنا کافی ہے کہ }پیغام{ لوگوں کی آنکھوں تک پہنچ جائے؟ نہیں، حس تک پہنچانے، آنکھ یا کان تک پہنچانے سے بڑھ کر، عقل اور فکر تک پہنچانا ہے۔ یعنی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ وہ عقل میں داخل ہو جائے۔کسی چیزکا صرف آنکھ سے نظر آنا اس بات کے لئے کافی نہیں ہے کہ عقل بھی اسے قبول کر لے۔ جو چیز کسی پیغام کو عقل تک پہنچاتی ہے، وہ صورت، شکل یا تحریر نہیں ہوتی، وہ کوئی اور چیز ہوتی ہے۔ عقل نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں، وہ صرف برہان اور استدلال کے ذریعے اور قرآنِ مجید کی تعبیر کے مطابق حکمت کے سوا کسی اور ذریعے سے کوئی پیغام قبول نہیں کرتی ۔
انبیا ؑ پہلے مرحلے میں اپنی بات عقلوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگرآپ دیکھتے ہیں کہ مسیحیت نے اس کے برخلاف مؤقف اختیار کیا ہے اوروہ کہتی ہے کہ: ایمان کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، تو ان کا یہ کہنا مسیحیت میں ہونے والی تحریف کی وجہ سے ہے۔ اصل مسیح ہرگز یہ بات نہیں کہتا۔ اصل مسیح نے نہ تثلیث کی بات کی ہے اورنہ ہی یہ دیکھنے کے بعد کہ تثلیث کسی عقلی معیار پر پوری نہیں اترتی اور عقل کسی صورت اسے نہیں مانتی یہ کہا ہے کہ : ایمان کا معاملہ عقل سے جدا ہے، ایمان کا علاقہ عقل کے لئے ممنوعہ علاقہ(prohibited area) ہے۔ عقل کو }ایمانیات میں{مداخلت کا حق نہیں ہے! اس چیز کا تعلق مسیحیت میں ہونے والی تحریف سے ہے۔ کسی نبیؐ نے ایسی بات نہیں کہی۔تمام انبیا ؑ کے حوالے سے جو کچھ حقیقتیں ہیں، وہ قرآنِ مجید میں مزید اضافے کے ساتھ درج ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں۔ سورۂ نحل۱۶۔آیت ۱۲۵
سب سے پہلے وہ حکمت کاذکر کرتاہے۔ لوگوں کو اپنے پروردگار کی جانب بلاؤ۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنکَاٰا شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والااور عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ سورۂ احزاب ۳۳۔آیت۴۵
ہم نے تمہیں اس امت پر گواہ بننے کے لئے بھیجا ہے (اب گواہ کے کوئی بھی معنی ہوں، اس پر فی الحال ہماری گفتگو نہیں)ہم نے تمہیں اس امت کے لئے خوش خبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے، آپ انہیں بشارت دیجئے، نوید سنایئے، تشویق کیجئے۔ یعنی اس راستے پرچلنے کے جو عالی شان نتائج انہیں حاصل ہوں گے، اُن سے اُنہیں آگاہ کیجئے۔ و نَذِیْراً، ہم نے آپ کو نذیر بنا کر بھیجاہے۔
ہم نے بارہا عرض کیاہے کہ ”نذیر“ کے معنی ڈرانے والا نہیں ہیں، دراصل ڈرانے والا ”مُخَوِّف“ کا ترجمہ ہے۔ ”نذیر“ ایک خاص انداز کے ڈرانے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی ہیں، خطرے کا اعلان کرنے والا۔ مثلاً اگرایک انسان دروازے سے باہرنکلنا چاہتا ہو، اور اس اثنا میں کوئی شخص ناگوار آواز پیدا کرے، تو اسکے اس عمل سے انسان خوفزدہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ انذار نہیں ہے۔ انذار اس ڈرانے کو کہتے ہیں جس میں خطرے کا اعلان ہو۔ ایک شخص فیصلہ کرکے ایک راہ پر چل پڑتا ہے، ایک اور شخص آتا ہے اور اسے خطرے سے آگاہ کرتا ہے ۔یعنی اس سے کہتا ہے کہ تمہارے اس عمل اور اس راہ پر چلنے کے نتیجے میں فلاں خطرہ ہے ۔
(قرآنِ مجیدکہتا ہے) اے پیغمبر! ہم نے آپ کو نذیر بننے کے لئے بھیجا ہے، آپ اس معنی میں ڈرانے والے بنئے، خطرے کا اعلان کرنے والے بنئے۔ لہٰذاآپ اپنی بعثت کے ابتدائی برسوں میں آکر کوہِ صفا کے دامن میں کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے فرمایا (جیسا کہ اس زمانے میں اس طرح سے آواز لگانے کارواج تھا) یا صباحا، یاصباحا (اور ان جملوں کے ذریعے) یعنی خطرہ! خطرہ! لوگ کوہِ صفا کے دامن میں جمع ہوگئے اور کہنے لگے :کیا ہوا ہے؟ اُن لوگوں نے پہلی مرتبہ محمد امین صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے خطرہ خطرہ سناتھا! کہنے لگے: کیا خطرہ ہے؟ کیا عام الفیل جیسا کوئی واقعہ پیش آگیا ہے؟ آپ نے سب سے پہلے لوگوں سے تصدیق طلب کی کہ : اے لوگو! اب تک تم نے مجھے اپنے درمیان کیسا پایا ہے؟ سب بولے: صادق اور امین۔ فرمایا: اگر اس وقت میں تم لوگوں کو انذار کروں اوراس خطرے کا اعلان کروں کہ ان پہاڑیوں کے پیچھے(۱) دشمن ایک لشکرِجرار کے ساتھ موجود ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟ وہ بولے: کیوں نہیں۔ جب آپ نے ان لوگوں سے یہ گواہی لے لی، تو فرمایا:
اِنِّیْ نَذِیْرٌ لَکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔
میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں تنبیہ کرنے والا ہوں۔
میں تمہارے لئے خطرے کا اعلان کرتا ہوں، کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو اس کا انجام دنیا اورآخرت میں سخت عذابِ الٰہی ہے۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنکَاٰا شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اﷲِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت۴۵، ۴۶
آپ لوگوں کو خدا کے حکم سے خدا کی جانب بلانے کے لئے آئے ہیں۔ لوگوں کو پروردگار کی جانب حرکت دینے کی غرض سے آئے ہیں۔آپ خدا کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔
خدا کی جانب دعوت کا یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ہے۔
اب جبکہ خدا کی طرف دعوت دینے کا کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے، تو لوگوں کویہ دعوت کس ذریعے سے دی جائے؟
کیا یہ ہوسکتا ہے کہ مثلاً انسان خواب دیکھ لے اور خواب کے ذریعے لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دے؟ ہر روز صبح آکر کہے کہ آج میں نے اس کام کے لئے خواب دیکھا ہے، آؤ لوگو! ایسا کرلو؟ نہیں، قرآنِ کریم نے اس کاراستہ معین کیا ہے، خدا کی جانب دعوت ہے، کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کی جانب دعوت ہے، ایسی چیز کی جانب دعوت ہے جس کی جانب انسانی عقول کو ہدایت اور حرکت دی جاسکتی ہے۔ ایک ایسی چیز کی جانب دعوت ہے، جسے عقلوں کو قبول کرنا چاہئے۔ کس طریقے سے؟ دلیل سے، برہان سے، حکمت سے اور منطقی گفتگو سے۔
دل کو ابلاغ
ایک پہلو اس کام کو دشوار کر دیتا ہے۔ کیا انبیا ؑ کی تبلیغ میں اور دعوتِ الٰہی پہنچانے کے عمل میں صرف اتناکافی ہے کہ یہ پیغام عقل تک پہنچا دیا جائے؟ حِس کے بارے میں تو ہم بتا چکے ہیں کہ یہ قطعاً کافی نہیں ہے، اس پیغام کو عقل کے مرحلے تک بھی پہنچنا چاہئے۔ کیا یہ کافی ہے؟ نہیں، یہ تومسئلے کا اوّلین مرحلہ ہے۔ ایک معلم (teacher) کی ذمے داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنی بات کو، اپنے علم کو طالبِ علم کی عقل تک پہنچا دے۔ وہ آکر تختۂ سیاہ(blackboard) کے پاس کھڑا ہوجاتا ہے، ادھر شاگرد بیٹھا ہوا ہے، وہ اسکے لئے ریاضی کا مسئلہ بیان کرتا ہے۔جب وہ پہلے پہل مسئلہ بیان کر رہا ہوتا ہے، تو طالبِ علم کی عقل یہ نہیں سمجھ پاتی کہ واقعاً ایسا ہے یا نہیں۔اسکے لئے دلیل درکار ہوتی ہے ۔ جب معلم ریاضی کی دلیل اور برہان قائم کرتا ہے، تب طالبِ علم کی عقل میں اس کا مدعا بیٹھتا ہے۔
لیکن انبیا ؑ صرف اپنا مدعا لوگوں کی عقل میں داخل کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ فلسفی حضرات جو کام کرتے ہیں، اُن کی زیادہ سے زیادہ کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بات کو لوگوں کی عقل تک پہنچا دیتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے ۔ پیغامِ الٰہی کوعقلوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے دلوں میں بھی اتارنا چاہئے، یعنی اسے انسان کی روح کی گہرائیوں میں پہنچنا چاہئے اور اس کے تمام احساسات، یعنی اس کے پورے وجودپر چھا جانا چاہئے۔ لہٰذا صرف انبیا ؑ ہی لوگوں کو راہِ حقیقت پر حرکت دے سکے ہیں، فلسفی ایسا نہیں کرسکے۔ فلسفی بے چارہ مشکلات اٹھاتاہے، تکلیفیں جھیلتا ہے، اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے، اُس کی ان تمام محنتوں کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فکر لوگوں کی عقل تک پہنچا دیتاہے، وہ بھی تمام لوگوں کی عقول تک نہیں، بلکہ صرف ان چند لوگوں تک جو اس کے شاگردہوتے ہیں اورجنہیں اسکی زبان سے واقف ہونے کے لئے کئی برس تک اس کے پاس آکردرس پڑھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اُس کا بلاغ، بلاغِ مبین نہیں ہوتا، اس میں بلاغِ مبین کی قابلیت نہیں ہوتی اور اسے سیکڑوں اصطلاحات میں لپیٹ کر اپنی بات بیان کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ایک عظیم استاد کے بقول: فلسفی جو اتنی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے، اس کی وجہ اسکی کمزوری اور ناتوانی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے: امکانِ ذاتی، امکانِ استقبالی، امکانِ استعدادی، واجب الوجود بالذات، عقلِ اوّل، عقلِ دوّم۔ اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات کو ان اصطلاحات میں لپیٹے بغیربیان ہی نہیں کر سکتا، اور یہ اس کی کمزوری ہے۔ اسکے برخلاف انبیا ؑ، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی اصطلاح درمیان میں لائے بغیراُس آخری بات کو جسے سیکڑوں اصطلاحات میں لپیٹ کر بیان کیا گیا ہے بلاغِ مبین کے ذریعے، صرف دو کلموں اورفقط دو جملوں میں بیان کردیتے ہیں۔ اورفلسفی حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح سہلِ ممتنع بات اتنی آسانی سے بیان کردی گئی ہے:
قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ اَﷲُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔
کہہ دیجئے کہ اﷲ ایک ہے ۔ اﷲ بے نیاز ہے۔ اسکی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد، اور نہ اسکا کوئی ہمسر ہے۔ سورۂ اخلاص ۱۱۲
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔
زمین اور آسمان میں موجود ہر چیز پروردگار کی تسبیح میں مصروف ہے اور وہ پروردگار صاحبِ عزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی۔ آسمان اور زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات اور موت کا دینے والا ہے اور ہر شئے پر اختیار رکھنے والا ہے۔ وہی اوّل ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے اور وہی ہر شئے کا جاننے والا ہے۔ سورۂ حدید۵۷۔ آیات ۱ تا۳
انتہائی سادگی کے ساتھ۔
لہٰذا انبیا ؑ نہ صرف فلسفیوں سے بہتر انداز سے اپنا پیغام لوگوں کی عقلوں تک پہنچاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ پیغام کو دل تک پہنچادیتے ہیں۔ یعنی پورے وجودپر، جس کے بعد پھر کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔ جو شخص کسی پیغمبر کا مرید ہوجاتا ہے، یعنی ایک پیغمبرپر
ایمان لے آتا ہے، اس کا پورا وجوداس پیغمبرسے وابستہ ہوجاتا ہے۔
۱۔آپ جانتے ہیں کہ مکہ پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔