سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

تیسری نشست ۔ سیرت اور اخلاق کی نسبیت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العٰلمین بارئ الخلائق اجمعین۔ و الصلٰوۃ و السلام علیٰ عبد اللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ سیّدنا و نبیّنا و مولانا ابی القاسم محمد و آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا (سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱)

وہ گفتگو جسے ہم نے اس سے پہلے اس بارے میں پیش کیا تھاکہ کیا ایک انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ مختلف زمانی، مکانی اور اجتماعی حالات میں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے کے باوجود مستقل معیارات اور مستقل عملی منطقوں کا مالک ہوسکے، یہ }گفتگو{اس لئے ضروری تھی کہ جو کچھ ہم نے کہا ہے، اگر اسکے علاوہ کچھ اور ہو، تو بنیادی طور پر( قرآن کی اصطلاح میں) اسوے کی بحث، یعنی یہ بحث کہ ہم ایک انسانِ کامل کو اپنا امام اور پیشوا قرار دیں اور اس کی زندگی سے شناسائی حاصل کریں لامحالہ ایک بے معنی بحث ہوجائے گی۔

ایک انسان نے چودہ سو سال پہلے ایک خاص منطق کے تحت عمل کیا ہے، میرے وہ حالات نہیں ہیں، وہ بھی میرے جیسے حالات میں نہیں تھا، اور ہر حالت اپنے لئے ایک مخصوص منطق کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کوئی شخص نمونۂ عمل نہیں ہوسکے گا۔

ہم نے اس بات کا جواب دینے ہی کے لئے پچھلی گفتگو چھیڑی تھی، اوراگر خداوند متعال نے توفیق دی، توانشاء اللہ آئندہ کی جانے والی گفتگوؤں میں بھی ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس بات پر مزید زور دیں۔ کیونکہ ہمارے دور میں ایک مسئلہ بیان کیا جارہا ہے، اورکیونکہ اسے درست طور پر سمجھا نہیں گیا ہے، اس لئے بعض غلط چیزوں کے رواج پا جانے کا سبب بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ نسبیتِ اخلاق کا مسئلہ ہے۔ یعنی یہ کہ کیا انسانی معیارات، }یعنی{ یہ کہ کیاچیز اچھی ہے اور کیا چیزبری، اچھا ہے کہ انسان ایسا ہو اور اچھا ہے کہ انسان ایسا نہ ہو، ایک نسبی(comparative)امرہے یا مطلق (absolute)امر؟ اگریہ مسئلہ کثرت کے ساتھ آج کی تحریروں میں، کتابوں میں، مقالوں میں، اخباروں میں، مجلوں میں زیرِ بحث نہ ہوتا، تو ہم اس کا ذکر نہ کرتے، لیکن کیونکہ بہت زیادہ زیرِ بحث ہے، اسلئے ضروری ہے کہ ہم بھی اس پر بات کریں۔

کیا اخلاق نسبی ہے؟

بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اخلاق کلی طور پر نسبی (comparative)ہے۔ یعنی اچھے اور برے اخلاق کے معیار نسبی ہیں، بالفاظِ دیگر انسان ہونا ایک نسبی امر ہے۔ کسی چیز کی نسبیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز مختلف زمان ومکان میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ایک چیز ایک زمانے اور ایک خاص حالت میں اخلاقی اعتبار سے اچھی ہوتی ہے، اور وہی چیز کسی اور زمانے اور کسی اور حالت میں خلافِ اخلاق ہوتی ہے۔ ایک چیز خاص احوال وظروف (circumstances) میں انسانی ہوتی ہے اور وہی چیز دوسرے حالات وشرائط میں خلافِ انسانیت بن جاتی ہے۔ یہ ہیں نسبیتِ ِ اخلاق کے معنی جس کا ذکرآج بہت سی زبانوں پر ہے۔

ایک نکتہ ہے جس کے بارے میں وضاحت ہم ابھی اصل مدعابیان کرنے کے بعدکریں گے، اوروہ} نکتہ { یہ ہے کہ اخلاق کے بنیادی اصول، انسانیت کے بنیادی معیار کسی صورت نسبی نہیں ہیں، مطلق (absolute)ہیں، لیکن ثانوی معیارات نسبی ہیں، اور اسلام میں بھی ہم اس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں اور سیرتِ نبوی ؐکے بارے میں ہم جو یہ بحث کر رہے ہیں، وہ تدریجاً اس نکتے کی وضاحت کرے گی۔

ہم سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں (۱)کچھ ایسے اصولوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو باطل اور بیکاراصول ہیں۔ یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرت، اپنی روش اور اپنی عملی منطق میں کبھی اور کسی بھی صورت میں ان اصولوں سے استفادہ نہیں کیا ہے، اسی طرح دوسرے ائمہ ؑ نے بھی ان اصولوں اور معیارات سے استفادہ نہیں کیا ہے۔ اسلام انہیں ہر حالت، ہر زمان اورہر مکان میں بُراسمجھتا ہے ۔

شیعوں کا سرمایہ

ہم شیعوں کے پاس ایک سرمایہ ہے، جس سے اہلِ تسنن محروم ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ اُن کے پاس معصوم کا دور، یعنی ایک ایسا دور جس میں ایک معصوم ہستی موجود ہو جس کی سیرت سے بے کھٹک استفادہ کیا جاسکے ۲۳ سال سے زیادہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معصوم سمجھتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان ۲۳ برسوں میں مختلف حالات کے ساتھ زندگی بسر کی اور سیرتِ نبیؐ میں مختلف حالات کے لئے بہت سے اسباق موجود ہیں۔ لیکن ہم شیعوں کے پاس یہ ۲۳ برس بھی ہیں اور ان کے علاوہ مزیدتقریباً دوسوپچاس سال اور بھی ہیں۔ یعنی ہمارے پاس مجموعی طور پرتقریباًدوسوتہترسال پر مشتمل دورِ عصمت موجود ہے اور ہم سیرتِ معصوم ؑ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کرامام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے زمانے تک، یعنی سن دو سو ساٹھ ہجری تک۔ہجرت کے دوسوساٹھ سال بعد غیبتِ صغریٰ کی ابتدا ہوتی ہے، جس میں عام لوگ امامِ معصوم تک دسترس نہیں رکھتے تھے۔ یہ دوسوساٹھ سال اور بعثت سے ہجرت تک کے مزید تیرہ سال، شیعوں کے لئے عصمت کا دور ہے۔ ان دوسو تہتر برسوں میں حالات کئی طرح سے تبدیل ہوئے اور ان تمام ادوار میں }کوئی نہ کوئی{ معصوم ہستی موجود تھی، اس لئے ہم مختلف حالات میں درست روش تلاش کرسکتے ہیں۔ مثلاً امام جعفرصادق علیہ السلام، بنی عباس کے دور میں بھی تھے، جبکہ بنی عباس کے دور جیسے کسی دورسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے ہمارے پاس زیادہ اور جامع سرمایہ موجود ہے۔

۱۔ واضح رہے کہ جب ہم سیرتِ رسولؐ کہتے ہیں، تو یہ نہ کہیں کہ سیرتِ امام حسین ؑ بھی ایسی ہی ہے، سیرتِ علی ؑ بھی ایسی ہی ہے۔ ہاں ایسی ہی ہے، لیکن ہم فی الحال ذاتِ رسولِ اکرمؐ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، وگرنہ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔