سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

حکمائے کلبی میں ایک مشہور حکیم (فلسفی) ہے، البتہ یہ لوگ ان کاموں میں افراط سے کام لیتے تھے، یعنی عجیب وغریب وضع قطع کے اصطلاحاً زاہد پیشہ لوگ تھے، جن کو دنیا کے مال اور ساز وسامان کی کوئی پروا نہیں تھی۔نہ ان کا گھر ہوتا تھا نہ گھریلو زندگی۔ دیوژن نامی ایک شخص تھا،

جسے مسلمان دیو جانس کہتے ہیں، اور دیوانِ شمس میں مولانا }روم {کے مشہور شعر میں اسی کی جانب

اشارہ ہے:

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزو ست

گفتند یافت می نشود گشتہ ایم ما
گفت آنچہ یافت می نشودآنم آرزوست

یہ داستان اسی دیوژن سے متعلق ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ دن کے وقت چراغ ہاتھ میں لئے چلا جارہا تھا۔ کسی نے پوچھا:تم نے} اس وقت{ چراغ ہاتھ میں کیوں لیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا: میں ایک چیز کی تلاش میں گھوم رہا ہوں۔ پوچھا: کس چیز کی تلاش میں گھوم رہے ہو؟ اُس نے کہا: انسان کی تلاش میں۔

جب سکندر نے ایران کو فتح کر لیا اوراسے بہت سی کامیابیاں نصیب ہوئیں، توسب آ آکر اسکے سامنے کورنش بجا لاتے اور اسکے سامنے گھٹنے ٹیکتے۔لیکن دیوژن نہیں آیا اور سکندر سے بے اعتنا رہا۔آخرسکندر کاپیمانۂ صبر لبریز ہوگیا، کہنے لگا ہم خود دیوژن کے پاس جائیں گے۔وہ دیوژن کو تلاش کرتا ہوا بیابان میں جا پہنچا۔ اُس وقت دیوژن آج کی اصطلاح میں غسلِ آفتاب لے رہا تھا۔ سکندروہاں پہنچا، جب دیوژن نے اپنے قریب گھوڑوں وغیرہ کی آوازیں سنیں تو سر اٹھا کے دیکھااور پھر بے پروائی سے لیٹ گیا۔یہاں تک کہ سکندر اپنے گھوڑے کے ساتھ اس کے سر پر پہنچ گیا، وہاں کھڑا ہوا اورکہا: اٹھو۔سکندر نے اُس سے دو چار باتیں کیں جن کے اُس نے جواب دیئے۔آخر میں سکندر نے اُس سے کہا: آپ کی کوئی فرمائش ہے تو کیجئے۔اُس نے کہا: میں تم سے صرف ایک چیز طلب کرتا ہوں۔ بولا: کیا؟ اُس نے کہا: اپنا سایہ مجھ پر سے ہٹا لو، میں یہاں غسلِ آفتاب لے رہا تھا، تم آگئے اور اپنا سایہ ڈال کر میرے اورسورج کے درمیان حائل ہوگئے۔

جب سکندر اپنی فوج کے افسروں کے ساتھ واپس آ گیا، تو اس کے افسر کہنے لگے :عجیب پست آدمی تھا، عجیب حقیر انسان تھا! کیا انسان ایسا پست ہو سکتا ہے! دنیا کی دولت نے اس کا رُخ کیا تھا، وہ ہر چیز مانگ سکتا تھا۔

لیکن سکندر دیوژن کی روح کے مقابلے میں ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ اس نے ایک جملہ کہا جو تاریخ میں باقی رہ گیا۔ بولا: ”اگرمیں سکندر نہ ہوتا، تو دیوژن بننا پسند کرتا“۔ وہ سکندر ہونے کے باوجودبھی دیوژن بننا پسند کرتا تھا۔ اس کا یہ کہنا کہ ”اگر میں سکندر نہ ہوتا“بھی اس لئے تھا تاکہ تقابل کی جگہ خالی نہ رہے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاقناعت اور سادگی کا پیکر تھے اور یہی اُن کی سیاست تھی، الٰہی سیاست۔ وہ بھی دلوں کوبے نیازکرتے تھے لیکن ظاہری جاہ و جلال اور شان وشوکت سے نہیں، بلکہ روحانی جلال سے جس کے ساتھ سادگیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔

پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اس جلال و حشمت سے اس قدر متنفر تھے کہ اس تنفر کی جھلک آپ کی پوری زندگی میں نظرآتی ہے۔ اگرکہیں جانا چاہتے تھے تو اگر کچھ لوگ اُن کے پیچھے چلنا چاہتے تو آپ اس بات کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ اگرآپ سواری پر ہوتے اورکوئی پیدل چلنے والاآپ کے ساتھ آنا چاہتا، تو آپ اُس سے فرماتے: بھائی! اِن دو میں سے کوئی ایک بات کرو، یاتو تم آگے چلو، میں تمہارے پیچھے آتا ہوں، یا میں جاتا ہوں، تم بعد میں آجانا۔ یا اگرکبھی ممکن ہوتا کہ دو افراد سوار ہوجائیں، تو فرماتے تھے کہ آؤ دونوں ایک ساتھ سوار ہوجاتے ہیں۔ میں سوار رہوں اور تم پیدل چلو، یہ مناسب نہیں ہے۔ محال تھا کہ آپ اس بات کی اجازت دے دیں کہ آپ توسواری پر چل رہے ہوں اور کوئی دوسرا پیدل آپ کے ساتھ چلے۔ کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، تو فرماتے :گول دائرے (کی صورت) میں بیٹھتے ہیں، تاکہ ہماری محفل میں کوئی اونچ نیچ نہ ہو۔ اگر میں صدرِ مجلس میں بیٹھ جاؤں اور تم لوگ میرے ارد گردبیٹھے ہو، تو تم میرے جلال اور دبدبے کا حصہ بن جاؤ گے، اور میں یہ نہیں چاہتا۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب تک زندہ رہے، آپ نے اپنایہ اصول نہ توڑا۔ آپ اس اصول کی پابندی کو ایک اعتبار سے خصوصیت کے ساتھ رہبر ورہنما کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی خلافت کے زمانے میں، انتہائی حد تک اس اصول کالحاظ رکھتے تھے۔ اسلام ایک قائد ورہبرکو(بالخصوص اگر وہ معنوی اور روحانی پہلوکا حامل بھی ہو) ہرگزاس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے لئے جاہ و جلال اور شان و شوکت کا قائل ہوجائے۔ اس کا جاہ وجلال اور شان و شوکت دراصل اس میں پائی جانے والی معنویت اور روحانیت ہی میں ہے، اس کی قناعت ہی میں ہے، اس کی روح میں ہے، نہ کہ اس کے جسم میں اورنہ اسکے ظاہری تکلفات میں۔

امیر المومنین علیہ السلام جب اپنی خلافت کے دور میں مدائن تشریف لائے، جو کہ بغداد کے نزدیک واقع ہے، اور جہاں نوشیرواں کا قدیم محل، یعنی قصرِ مدائن تھا، آپ اس محل میں آئے اور اس کا نظارہ کرنے لگے۔ اس موقع پرایک شخص نے دنیا کی بے وفائی کے بارے میں ایک عربی شعر پڑھنا شروع کیا کہ: ”چلے گئے وغیرہ ۔۔۔“آپ نے فرمایا :یہ کیا ہے؟ آیتِ قرآن پڑھو:

کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیْمٍ وَّ نَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْھَا فَاکِہِیْن۔

یہ لوگ کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے، اور کتنی ہی کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے، اور وہ نعمتیں(بھی) جن میں مزے اڑا رہے تھے۔ سورۂ دخان۴۴آیت ۲۵تا۲۷

جب آپ ایران پہنچے اور ایرانیوں کو معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لارہے ہیں، تو گاؤں کے کچھ بڑے، کسانوں کے کچھ سردارآپ کے استقبال کے لئے آئے، اورآپ کے آگے آگے دوڑنے لگے۔ حضرت نے انہیں آواز دی اور پوچھا: یہ کیا کر رہے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم اپنے بزرگوں کا اسی طرح سے احترام کیا کرتے ہیں، اُن کی سواری کے آگے آگے دوڑا کرتے ہیں۔ ہم یہی کام آپ کے احترام میں بھی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تم لوگ اس عمل کے ذریعے اپنے آپ کو حقیر اور پست کر رہے ہو، اور اس سے اس بزرگ کو بھی ذرّہ برابر فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ کیا حرکت ہے؟ مجھے یہ تکلفات پسند نہیں ہیں۔ تم لوگ انسان ہو اور آزاد۔ میں بھی ایک انسان ہوں اور تم بھی ایک انسان ہو۔

یہ ہے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک اصول اور پیغمبراکرمؐ جن اسالیب پر گامزن ہوا کرتے تھے، ان کے اصول میں سے ایک اصول سادگی تھا کہ: کانَ رَسولُ اللّٰہِ خَفیفَ الْمَؤونَۃِ۔ اور آپ نے ساری عمر اس اصول کو ملحوظ رکھا۔

ایک حدیث میں نقل کیا گیا ہے (اہلِ سنت نے بھی نقل کیا ہے) کہ عمرا بن خطاب، رسول اللہ کے کمرے میں داخل ہوئے، اس ماجرے کے دوران جس میں آنحضرتؐ نے اپنی بیویوں سے دوری اختیار کرلی تھی اور اُنہیں اختیار دیا تھا کہ یا توطلاق لے لیں یا سادہ زندگی پر صبر کریں۔

آنحضرت کی بعض ازواج کہتی تھیں کہ ہماری زندگی بہت ہی زیادہ سادہ ہے، ہمیں بھی زر و زیور چاہئے، مالِ غنیمت میں سے ہمیں بھی دیجئے۔ آپ نے اُن سے فرمایا: میری زندگی توسادگی کے ساتھ بسر ہوگی۔ میں تمہیں طلاق دینے کے لئے تیار ہوں اور معمول کے مطابق ایک طلاق یافتہ عورت کو(قرآن کے الفاظ میں) تسریح کرناچاہئے، یعنی اُنہیں کچھ حوالے کرنا اورکچھ دینا چاہئے، میں تمہیں کچھ دینے کے لئے بھی تیار ہوں۔ اگر میری سادہ زندگی کے ساتھ گزارا کرسکتی ہو، تو ٹھیک ہے، لیکن اگر چاہتی ہو کہ میں تمہیں چھوڑ دوں، تومیں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ البتہ }اسکے جواب میں{تمام ازواج نے کہا کہ نہیں، ہم سادہ زندگی کے ساتھ گزارا کرلیں گے۔یہ کافی طویل قصہ ہے۔

لکھا ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب کو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ؐ اپنی بیویوں سے ناراض ہیں، تووہ آپ سے بات کرنے آئے۔ کہتے ہیں کہ وہاں ایک سیاہ فام شخص تقریباً دربان کی حیثیت سے موجود تھا، جسے حضورؐ نے کہہ رکھا تھا کہ کسی کو آنے نہ دے۔}حضرت عمر کہتے ہیں{ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے اُس سے کہا کہ حضرتؐ سے کہو کہ عمرآئے ہیں۔ وہ گیا اور واپس آکر کہا کہ حضورؐ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں چلا گیا اور دوبارہ آیااور اجازت طلب کی، دوسری بار بھی مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ گیاتو فرمایا:آجاؤ۔ جب میں گیا تو میں نے دیکھا کہ پیغمبرؐ ایک کمرے میں لیٹے ہوئے آرام فرما رہے ہیں، اس کمرے کا فرش صرف کھجور کے درخت کی چھال تھی۔ جب میں گیا تو حضورؐ نے شایداپنی جگہ سے کچھ حرکت کی، میں نے دیکھا کہ فرش کی سختی کے اثرات آپ کے بدنِ مبارک پرنظر آرہے تھے۔مجھے بہت افسوس ہوا۔ پھر کہتے ہیں (شاید روتے ہوئے): یارسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ قیصر و کسریٰ تو نعمتوں میں غرق ہوں اورآپ جو اللہ کے نبی ہیں، آپ کا یہ حال ہو؟ حضوؐرگویا ناراض ہوکر اپنی جگہ سے اُٹھتے ہیں اور فرماتے ہیں: یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کیسی فضول بات کر رہے ہو؟ تمہاری نظر میں وہ بڑی چیزیں ہیں، اور تم یہ سمجھتے ہو کہ میرے پاس وہ چیزیں نہیں ہیں تو یہ میرے لئے کوئی محرومی ہے؟ اور یہ سمجھ رہے ہو کہ وہ چیزیں اُن کے لئے نعمت ہیں؟ خدا کی قسم یہ تمام چیزیں مسلمانوں کونصیب ہوں گی، لیکن یہ کسی کے لئے وجہ افتخار نہیں ہیں۔

دیکھئے پیغمبر کی زندگی کیسی تھی۔ جب آپ نے وفات پائی توکیا چھوڑ کر گئے؟ جب علی ؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو کیا چھوڑ گئے؟ جب پیغمبرؐاس دنیا سے گئے تو آپ کی ایک ہی بیٹی تھی، معمول کے مطابق، ہر انسان انسانی جذبات کے تحت اور اگر ان معیارات کی پیروی کرے، آخرکار اُن کی بیٹی ہیں، اُن کا دل چاہتا ہوگا کہ اُن کے لئے کچھ سرمایہ مثلاًمکان اور سامانِ زندگی فراہم کریں۔ لیکن اِس کے برعکس، }ہوتا کیا ہے کہ{ ایک دن آپ فاطمہؑ کے گھر میں آتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ فاطمہؑ کے ہاتھ میں چاندی کا ایک کڑا ہے اور ایک رنگین پردہ بھی لٹکا ہوا ہے۔ حضرت فاطمہؑ سے غیر معمولی محبت کے باوجود، آنحضرتؐ آپ سے کوئی بات کئے بغیر چلے جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہؑ نے محسوس کرلیا کہ بابا اس حد تک چیزوں کو بھی ان کے لئے پسند نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ وہ دور ہے جس میں اہلِ صُفّہ موجود ہیں۔ زہرا ؑ جوہمیشہ ایثار کی عادی رہی ہیں، اوراپنے پاس موجود تمام مالِ دنیادوسروں کو بخش دیا کرتی ہیں، پیغمبرؐ کے واپس گھر پہنچنے سے پہلے ہی فوری طور پرہاتھ سے چاندی کاوہ کڑااور وہ رنگین پردہ اتار کر کسی کے ہاتھ رسولِ اکرم کی خدمت میں بھیج دیتی ہیں۔ اے اللہ کے رسولؐ! یہ چیزیں آپ کی بیٹی نے بھیجی ہیں اور عرض کیاہے کہ جس کام کو بھی آپ خیر سمجھتے ہوں ان چیزوں کو اُس میں استعمال کر لیجئے۔ اس موقع پر نبی اکرم کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور اس طرح کا جملہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اس کا بابااس پر قربان ہو۔

حضرت فاطمہؑ کی شادی کی رات ہے۔ فاطمہؑ کے لئے شبِ زفاف کے پیراہن کے طور پر صرف ایک نیا لباس خریدا گیا ہے، ایک لباس اُن کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ شبِ زفاف ایک سائل آپ کے دروازے پرآتا ہے اورصدا لگاتا ہے: میں بے لباس ہوں، ، کوئی ہے جو میرے لئے لباس کا انتظام کرے؟ وہاں موجود دوسرے لوگ اس سائل کو کچھ دینے کے لئے اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔ فاطمہؑ جو اس گھر کی دلہن ہیں اورجو دلہن بنی بیٹھی ہیں، وہ دیکھتی ہیں کہ کسی نے سائل کو جواب نہیں دیا، فوراً اکیلے ہی اٹھ کرتنہائی میں جاتی ہیں اور وہ نیا لباس اتارکر اپنا پرانا لباس پہن لیتی ہیں اور وہ نیا لباس سائل کو دے دیتی ہیں۔ جب آپ واپس آتی ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کا نیا لباس کہاں گیا؟ (فرماتی ہیں) میں نے اسے راہِ خدا میں دے دیا۔

یہ چیزیں فاطمہؑ کے لئے کوئی عظمت اور اہمیت نہیں رکھتیں؟ لباس کیا ہوتا ہے؟ تکلفات اور دبدبہ کیا چیز ہے؟

فاطمہؑ اگر فدک کے حصول کی کوشش کرتی ہیں، تو وہ اس لئے کہ اسلام حق کے مطالبے کو واجب سمجھتا ہے، وگرنہ فدک کی کیا اہمیت ہے؟ کیونکہ اگر آپ فدک کے لئے نہ گئی ہوتیں، تو یہ ظلم قبول کرنا ہوتا، ظلم کے آگے جھکنا ہوتا، وگرنہ فدک جیسے سیکڑوں انہوں نے راہِ خدا میں دے دیئے تھے۔ کیونکہ ظلم قبول نہیں کرنا چاہئے، اس لئے فاطمہؑ اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں، یعنی فاطمہؑ کے لئے فدک کی اہمیت اس اعتبار سے تھی کہ وہ ان کا حق تھا، نہ کہ اقتصادی اور مادّی اعتبار سے۔ اقتصادی اور مادّی اعتبار سے اس کی اہمیت صرف اتنی تھی کہ اگر فدک ہمارے پاس ہو توہم دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں۔

جی ہاں، یہ تھی فاطمہؑ کی شبِ عروسی۔ لیکن فاطمہؑ نے اپنی وفات سے پہلے خصوصی طو رپر صاف ستھرا لباس زیبِ تن کیا، تا کہ ان کا احتضار اس حالت میں ہو۔ اسماء بنت عمیس کہتی ہیں: ایک دِن( اب یا وفاتِ رسول کے پچھتر دن بعد یا پچانوے دِن بعدہو) میں نے دیکھا کہ گویا آج بی بی کی حالت کچھ بہتر ہے، آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور بیٹھ گئیں، پھر اٹھیں اور غسل کیا اور اسکے بعد فرمایا: اسماء! میرا وہ صاف ستھرا لباس لے آؤ۔(۱) اسماء کہتی ہیں کہ میں بہت خوش ہوئی کہ الحمدللہ گویا بی بی کا حال کچھ بہتر ہے۔ لیکن بی بی نے ایک جملہ فرمایاجس سے اسماء کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں۔ فرمایا: اسماء! میں ابھی رو بہ قبلہ لیٹ جاؤں گی، تم کچھ دیر، کچھ لمحے، کچھ لحظے میرے ساتھ بات نہ کرنا، جب کچھ دیر گزر جائے تو مجھے آواز دینا، اگرتم دیکھو کہ میں نے جواب نہیں دیا، تو سمجھ لینا کہ وہ میری موت کا لمحہ ہے۔ یہ وہ مقام تھاجہاں اسماء کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اسماء نے چیخ بلند کی اورحضرت علی ؑ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں، آواز دے کرعلی ؑ کو مسجد سے بلایا اور حسنین ؑ بھی آگئے۔

ولا حول و لا قوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم و صلی اللّٰہ علی محمد و آلہ الطاہرین۔

باسمک العظیم الاعظم الاجلّ الاکرم یا اللّٰہ ۔۔

بارِ الٰہا! ہمیں اسلام او رقرآن کا قدردان بنا۔ ہم سب کو عمل کی توفیق اور خلوصِ نیت عطا فرما، اپنی محبت اور معرفت کا نور ہمارے دلوں میں روشن فرما۔ ہمارے دلوں کو اپنے نبی اورآلِ نبی کی محبت اور معرفت سے منور فرما۔ ہمارے مرحومین کواپنی عنایت اور رحمت میں شامل فرما۔

و عجّل فی فرج مولانا صاحب الزمان۔

۱۔ اسماء خادمہ و غیرہ نہیں تھیں۔ وہ پہلے آپ کی چچی تھیں، یعنی پہلے حضرت جعفر} طیار{ کی زوجہ تھیں، اور اس وقت حضرت زہرا کی چچی ہوتی ہیں۔ حضرت جعفر کے بعد وہ حضرت ابوبکر کی زوجہ ہوئیں۔ محمد بن ابی بکر جو انتہائی جلیل القدر انسان ہیں، انہی اسماء کے بیٹے ہیں۔ حضرت ابوبکر کے بعد حضرت علی نے اسماء سے شادی کرلی، اوراس طرح محمد بن ابی بکر امیر المومنین کے منہ بولے بیٹے بن گئے اور ان کی تربیت امیر المومنین نے کی۔ وہ ولائے امیر المومنین رکھتے تھے ۔ غرض یہ کہ اسماء ایک عظیم خاتون ہیں۔ جب وہ حضرت ابوبکر کی بیوی تھیں، اس وقت بھی وہ ولائے علی رکھتی تھیں، محبِ علی تھیں اور خاندانِ علی کی عقیدت مند تھیں نہ کہ اپنے شوہر کے خاندان کی۔