بلاغِ مبین
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مجیددوسرے انبیاکی زبانی اور رسولِ اکرم کی زبانِ مبارک سے کچھ باتوں کا ذکر کرتا ہے، یعنی طریقۂ کارmethod) (بیان کرتا ہے کہ دعوت دینے کی کیا شرائط ہیں۔ پہلی شرط وہی ہے جوہم نے عرض کی کہ قرآنِ مجید نے بہت سی آیات میں ”کلامِ بلاغ“ کا ذکر کیا ہے، ”بلاغ“ یعنی پیغام پہنچانا۔
یہ بات بھی عرض کرتے چلیں کہ بعض الفاظ کی قسمت خراب ہوتی ہے اور بعض الفاظ خوش قسمت ہوتے ہیں۔ہمارے زمانے میں تبلیغ کا لفظ(البتہ جدت پسندوں کی اصطلاح میں) بدقسمت بن گیا ہے۔آج جدت پسند(modern) لوگوں کے یہاں ”تبلیغ“ کے معنی ہیں ایک ایسی چیزجس کی حقیقت نہ ہو، جسے ہم جھوٹ بول کر لوگوں کو باور کرانا چاہتے ہوں۔ لیکن یہ موجودہ دور کی ایک غلط اصطلاح ہے۔ہم نے ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ اگر ہمارے پاس قرآن و سنت میں ایک صحیح اصطلاح موجودہو اور وہ اصطلاح آج بدل گئی ہواوراُس نے ایک دوسرے معنی اختیار کر لئے ہوں، توہمیں اپنی اُس اصطلاح کوچھوڑ نہیں دینا چاہئے۔ کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب ”تبلیغ“ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آج کے معاشرے میں جب ہم کہتے ہیں ”تبلیغ“ تو اس کے معنی ہوتے ہیں سفید جھوٹ۔ مثلاً بناسپتی گھی کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ اس کی معمولی مقدار کھا کر ہرن کی طرح دوڑ سکتے ہیں، آپ ہاتھی سے بھی زیادہ طاقتور ہو جائیں گے ۔
} لہٰذا{جہاں بھی ”تبلیغ“کہا جائے گا، اسکے معنی جھوٹ لئے جائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم اپنی دینی اصطلاحات میں لفظ تبلیغ استعمال نہ کریں!ہم نے پوچھا کیوں؟ تبلیغ ایک ایسی اصطلاح ہے جو قرآن میں آئی ہے، بلاغ کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ جب ایک اصطلاح ایک صحیح اور درست معنی کی حامل ہو، تو ہمیں صرف اس لئے اُس کے استعمال کو ترک نہیں کردینا چاہئے کہ آج معاشرے میں اس کا استعمال بدل گیا ہے اور اس کے کچھ اور معنی لئے جاتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے معنی کو استعمال کریں اور بتانا چاہئے کہ قرآنِ مجید میں اور بنیادی طور پر لغت میں تبلیغ کے اصل معنی کیا ہیں۔ تبلیغ یعنی پیغام رسانی۔
پس قرآنِ مجید نے بلاغ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے اور بلاغِ مبین، }یعنی {واضح اور واضح کرنے والا بھی کہا ہے۔ وہ داعی اور وہ مبلغ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتاہے جس کا بلاغ مبین ہو، جس کا بیان حقائق کی بلندیوں پر ہونے کے باوجود سادہ ہو، واضح ہو، عام فہم ہو، لوگ اُسکی بات سمجھتے اور درک کرتے ہوں۔ جو شخص پیچیدہ اور دشوار باتیں کرتا ہو اور لوگ بھی آخرمیں واہ واہ کرتے ہوں (اُسکی بلاغت، بلاغِ مبین نہیں ہے)۔ کہتے ہیں (ایک شخص ایک مقرر کی تقریر سننے کے بعد) زور شور کے ساتھ واہ واہ کر رہا تھا، گویا کہہ رہا ہو کہ آپ کو پتا نہیں کیسی زبردست تقریرکی تھی! لوگوں نے اُس سے پوچھا، ٹھیک ہے زبردست تقریر تھی، لیکن ذرا بتاؤ تومقرر نے کہا کیا تھا؟ اس پر وہ کہتا ہے کہ : میری سمجھ میں نہیں آئی ۔پس پھر اس میں اچھی بات کیا تھی؟
تقریر میں بنیادی بات یہ ہے کہ جب اُسے سننے والا اٹھے، تو کچھ سمجھ کے اٹھے۔ داعی اور مبلغ کی شرائط میں سے سب سے بڑی، یا ایک شرط یہ ہے کہ اُس کی بات سننے والا جب اٹھے، توبھرا ہوادامن لے کر اٹھے، حقیقتاً اُس نے کوئی بات سمجھی ہو، اور یہ مبلغ اور داعی کی ایک خوبی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی باتیں کرتا ہو جو سمجھ میں نہ آتی ہوں، تو اس کی باتیں (بہت عمدہ ہیں)۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب کسی جگہ بات کرتے تھے، تو ایسی عالی بات کرتے تھے کہ چودہ سو سال بعد بھی لوگ اُس کے ایسے معانی حاصل کرتے ہیں جو پہلے والوں نے اس سے نہیں سمجھے تھے، لیکن اُس دور میں بھی مجلسِ پیغمبر ؐمیں بیٹھنے والے تمام لوگ اس بات کواپنی حد تک سمجھتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کے خطبات اپنی تمام تر عظمت کے باوجود ایسے ہوا کرتے تھے کہ جو لوگ اس مجلس میں موجود ہوتے تھے، وہ اپنی صلاحیت کے مطابق ان خطبوں سے مستفید ہوتے تھے اورانہیں سمجھتے تھے۔