توحید کا دفاع
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اسلام تلوار کا دین ہے، لیکن اس کی تلوار ہمیشہ مسلمانوں کی جان، یا اُن کے مال، یااُن کی سرزمین، یااگر توحید خطرے میں پڑ جائے تواسکے دفاع کے لئے تیار رہتی ہے۔ علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ نے اس (توحید کے دفاع) کے بارے میں تفسیر المیزان میں سورۂ بقرہ کی قتال سے متعلق آیا ت میں بھی اورآیت لااَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَی۔ کے ذیل میں بھی گفتگو کی ہے۔
جی ہاں، اسلام ایک بات کو انسانیت کا حق سمجھتا ہے، جس مقام پر بھی توحید کو خطرہ لاحق ہو، وہاں اسلام توحید کو اس خطرے سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ توحید گرانقدر ترین انسانی حقیقت ہے۔ وہ حضرات جوآزادی کے بارے میں گفتگوکرتے ہیں، انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ توحید اگرآزادی سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم اس کی حد میں تو ہے اور یقیناًاس سے بڑھ کر ہی ہے۔ اس بات کو ہم نے بارہا مجالس میں بیان کیا ہے کہ: اگر کوئی اپنی جان کا دفاع کرتا ہے، تو کیا آپ اس دفاع کو درست مانتے ہیں یا غلط؟ اگرآپ کی جان پر حملہ کیا جائے، تو کیاآپ یہ کہیں گے کہ چھوڑو جو کرتا ہے کرنے دو، مجھے طاقت کا سہارا نہیں لینا چاہئے، چھوڑ واسے مجھے قتل کرنے دو؟ نہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کی عزت کو خطرہ لاحق ہو، تو اسے دفاع کرنا چاہئے، اگر کسی کا مال و دولت حملے کی زد پر ہو، تو اسے دفاع کرنا چاہئے، اگر کچھ لوگوں کی سرزمین پر حملہ ہوجائے، تو انہیں دفاع کرنا چاہئے۔
یہاں تک کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی مظلوم کی جان، یا مال، یا سرزمین پر کسی ظالم کی جانب سے حملہ ہوجائے، تو کیا ایسی صورت میں مظلوم کے دفاع میں کسی تیسرے شخص کی شرکت درست ہے یا نہیں؟ نہ صرف درست ہے بلکہ اپنی ذات کے دفاع سے بڑھ کر ہے، کیونکہ اگر انسان اپنی آزادی کا دفاع کرتاہے، تو اس نے اپنا دفاع کیا ہے، لیکن اگر وہ دوسرے کی آزادی کا دفاع کرے، تو اُس نے آزادی کا دفاع کیا ہے، جو کہیں زیادہ مقدس عمل ہے۔
مثلاً اگر ایک شخص یورپ سے نکلے اور ویت نامیوں کے دفاع لئے جائے اور امریکیوں سے جنگ کرے، توآپ اسے ایک ویتنامی سے ہزار درجہ زیادہ عزت دیں گے، اور کہیں گے کہ دیکھئے یہ کتنا عظیم انسان ہے! باوجودیہ کہ خود اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ اپنے ملک سے نکل کر دوسروں کی آزادی، دوسروں کی جان، دوسروں کے مال، دوسروں کی سرزمین کا دفاع کرنے کے لئے وہاں جا رہا ہے۔ یہ ہزار درجہ عظیم تر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ آزادی مقدس چیزہے۔
اگر کوئی علم کے دفاع کے لئے لڑے، توکیسا ہے؟ اُسی طرح ہے۔ (کسی مقام پر علم خطرے میں پڑ جائے، کوئی انسان اس لئے علم کو نجات دلانے کے لئے جنگ کرے کہ علم جو انسانیت کے لئے ایک مقدس چیز ہے وہ خطرے سے دوچار ہے)
صلح کی حفاظت کے لئے جنگ کرنا کیسا ہے؟ وہ بھی اسی طرح ہے۔
توحید ایک ایسی حقیقت ہے جو میری یاآپ کی نہیں، بلکہ انسانیت کی ملکیت ہے۔ اگر کسی جگہ توحید کو خطرہ لاحق ہو(کیونکہ توحید انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسانی فکر کبھی بھی اسے توحید کے خلاف نہیں لے جاتی، بلکہ ایسے موقع پر کوئی اور عامل کارفرما ہوتا ہے) تو اسلام توحید کی نجات کے لئے اقدام کا حکم دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ توحید کو طاقت کے زور پر لوگوں کے دلوں میں داخل کرنا چاہتا ہے، بلکہ وہ عوامل جو توحید کے خاتمے کا سبب بنے ہیں، انہیں ختم کرنا چاہتا ہے ۔ جب وہ عوامل دور ہوجائیں گے، تو انسانی فطرت توحید کی جانب مائل ہوجائے گی ۔ مثلاً جب تقلیدیں، تلقینیں، بت خانے، بت کدے اور ایسی چیزیں جن کی وجہ سے انسان توحید کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا دور کردی جائیں، تو لوگوں کی فکرآزاد ہوجاتی ہے۔وہ تعبیرجو قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ہے، اُس میں قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جس دن لوگ شہر سے نکل گئے اور شہر کو خالی کر گئے اور بت کدہ بھی خالی تھا، تو ابراہیم گئے اور بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑی کوسب سے بڑے بت کی گردن میں ڈال دیا۔ لوگ جب رات کو لوٹے اور دعائیں مانگنے اور اظہارِ اخلاص کے لئے بتوں کے پاس آئے، تو دیکھا کہ وہاں کوئی بھی بت نہیں، سب ٹکڑے ٹکڑے، چورہ چورہ ہوچکے ہیں، صرف بڑا بت ایک کلہاڑی کے ساتھ موجود ہے ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو مار پیٹ کر ختم کردیا ہے۔ لیکن انسانی فطرت اس بات کوقبول نہیں کرتی۔ یہ سب کس نے کیا ہے؟ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرَاہِیْم۔ وہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آتے ہیں۔ ءَاَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰالِہَتِنَا یٰٓاِبْرَاہِیْمُ ہمارے ان محبوب بتوں کے ساتھ تم نے یہ سلوک کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا فَاسْءَلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْن۔ یہ اس بڑے بت کی حرکت ہے، اُسی سے پوچھو۔ وہ کہنے لگے : وہ تو بول نہیں سکتا۔حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: اگروہ بول نہیں سکتا تو پھر تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو؟ قرآنِ مجید کہتا ہے: فَرَجَعُوْآ اِلآی اَنْفُسِہِمْ(۱) یہ جواب سن کر انہوں نے اپنے دلوں کی طرف رجوع کیا ۔
۱۔سورۂ انبیا۲۱۔آیات ۶۰ اور ۶۲ تا ۶۴