اسلامی موج
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ب:اسلامی موج
دنیائے طبیعت (nature)، چاہے وہ بے جان طبیعت ہو یا جاندار طبیعت، اُس میں پیش آنے والا ہر حادثہ، ایک تحرک اور جنبش پیدا کرتا ہے اور اپنے اردگرد ایک موج وجود میں لاتا ہے۔ بلکہ ہر حادثہ بذاتِ خود ایک موج اور ایک تحرک ہے جو اس بے کراں سمندر میں نمودار ہوتا ہے۔
یہ سمندر جسے ہم ”کائنات، طبیعت، گیتی“ وغیرہ کہتے ہیں اور اس کے طول و عرض اور گہرائی سے صرف خدا ہی واقف ہے، یہ ہمیشہ موجوں کواپنے اندر سے باہرکی جانب پھینکتا ہے اور تحریکیں پیدا کرتا ہے۔ اس سمندر سے جو چیز ہمارے سامنے نمودار ہوتی ہے، ہمارے حواس کے دائرے میں آتی ہے اور ہماری عقل اس کی حقیقت اور ماہیت جاننے پرآمادہ ہوتی ہے(ایک اعتبار سے) یہی امواج اور نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم ”حادثہ“ کہتے ہیں اور اس کے مختلف نام رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ موجیں اور نشیب و فراز یا دوسرے الفاظ میں: اگر یہ ”تعیّنات“ نہ ہوتے تو معرفت کی کوئی راہ نہ ہوتی، کیونکہ کوئی نشانی نہ ہوتی، بلکہ طبیعت اور کائنات کاکوئی ذکر ہی نہ ہوتا۔ کیونکہ طبیعت کی جنبش اور تموُّج سے جدائی کا امکان ہی نہیں ہے۔
یہی نشانیاں، علامات، پیچ و خم اورنشیب و فراز ہیں جو ہمارے حواس کے لئے چیزوں کی تصویر کشی کوممکن بناتے ہیں اور یہ تصاویر عقل کے قاضی کے سپرد کردی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ طبیعت میں موجود ہرچیز جب تک ہے متموّج ہے، حرکت وجنبش میں ہے۔ اور جب تک متموّج اورحرکت و جنبش میں ہے، اُس وقت تک موجود ہے۔ موجزن اورحرکت میں نہ ہونا، نیستی اورنابودی کے مترادف ہے۔
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسی زیستم
آہ نہ معلوم شد ہیچ کہ من چیستم
موجِ ز خود رفتہ ای تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم، گر نروم نیستم(۱)
امواج، اپنی ذاتی خصوصیت کے مطابق، اپنی پیدائش کے ساتھ ہی پھیلتی اور وسعت اختیار کرتی رہتی ہیں، مسلسل اپنا دائرہ بڑھا تی رہتی ہیں، محیط اورمرکز کے فاصلے میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ اور دوسری طرف جتنا اپنے دائرے کووسیع کرتی ہیں، اتنا ہی اُن کی قوت، شدت اور طول میں کمی آتی جاتی ہے، بتدریج کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہیں اور اُن کا طول کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ (کم از کم ہماری نظر میں) نیستی و نابودی کی طرف بڑھتی جاتی ہیں اور دنیائے عدم سے جاملتی ہیں۔
موجوں کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ، ان میں موجود کمزور موج کے بے اثر ہونے کا سبب بنتا ہے ۔ طاقتور موجیں کمزور موجوں کے پھیلاؤ کو روک دیتی ہیں اور انہیں ملکِ عدم روانہ کردیتی ہیں۔لہٰذارکاوٹوں اور زیادہ طاقتورعوامل سے ٹکراؤامواج، حوادث اورمظاہرِ کائنات کو نابودکر دینے والے عوامل میں سے ایک اور عامل(factor) ہے۔ حکمااس قسم کی نیستی اور نابودی کو جو رکاوٹوں
سے ٹکراؤ کی وجہ سے واقع ہوتی ہے ”موتِ اخترامی“ کہتے ہیں اور پہلی قسم کی نابودی کو جس کی وجہ بقا کی قوت کا خاتمہ ہوتی ہے ”موتِ طبیعی“ کہتے ہیں۔
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلااًا وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ۔
وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور پھر ایک مدت کا تعین کیا ہے اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس بھی ہے۔(سورۂ انعام۶۔آیت۲)
انسانی معاشرہ بھی اپنے اندر پیش آنے والے چھوٹے بڑے اور مفید یا مضر واقعات کے مجموعے کے ساتھ موج، جنبش، طوفان اور لرزش سے بھرپور ایک سمندر ہے۔ اس سمندر کی موجیں بھی بتدریج وسعت اختیار کرتی ہیں اورباہم ٹکراکر ایک دوسرے کو مغلوب کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ان موجوں کے برعکس جن کی وسعت بڑھتی ہے تو ان کی طاقت و قوت کم ہو جاتی ہے اور وہ نابود ہو جاتی ہیں اس وسیع و عریض سمندر کی بعض موجیں ایسی ہیں کہ جتنا جتنا ان کے دائرے کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کی طاقت و قدرت اور طول بڑھتا جاتاہے اور مخالف امواج کے ساتھ ان کے مقابلے کی قوت بڑھتی رہتی ہے۔ گویاان میں حیات کی ایک خاص خاصیت پائی جاتی ہے اور ان کے اندر ”نمو“ اور رشد کی ایک پراسرارقوت پوشیدہ ہے ۔
جی ہاں! بعض اجتماعی موجیں زندہ ہیں۔ زندہ موجیں وہی ہیں جن کا سرچشمہ جوہرِ حیات ہے، ان کا راستہ زندگی کا راستہ اور ان کا رُخ ترقی و تکامل کا رُخ ہے۔ بعض فکری، علمی، اخلاقی اور ہنری (artistic)تحریکیں اس لئے زندۂ جاوید رہ جاتی ہیں کہ خود زندہ ہیں اور زندگی کی پراسرار طاقت کی حامل ہیں۔
زندہ ترین اجتماعی امواج، دینی امواج اوردینی تحریکیں ہیں۔ان امواج اور ان تحریکوں کا جوہرِ حیات اور فطرتِ زندگی کے ساتھ بندھن دوسری تمام چیزوں کی نسبت زیادہ حقیقی ہے۔ کسی بھی دوسری حرکت اور کسی بھی دوسری موج میں زندگی کی اس قدر توانائی اور رشد و نمو کی اس قدر طاقت نہیں پائی جاتی۔
تاریخِ اسلام، اس اعتبار سے انتہائی سبق آموز اورجھنجوڑ دینے دینے والی ہے۔ اسلام ابتدا میں ایک بہت معمولی موج کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ جس دِن حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہِ ”حرا“ سے نیچے تشریف لائے، اس حال میں کہ ان کی اندرونی دنیا دگرگوں ہوچکی تھی اور وہ غیب کے سمندر اور ملکوتِ اعلیٰ سے متصل اور فیوضاتِ الٰہی سے لبریز ہوچکے تھے، اورآپ نے یہ صدا دی کہ: قُولُوالاٰاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوا۔ (لاالہ الا اللہ کہہ دو، تم کامیاب ہوجاؤ گے)، اُسی دن سے اس موج کاآغاز ہوگیا۔
دنیا میں شور و غل اور شان و شوکت کے ساتھ وجود میں آنے والی ہزاروں امواج کے برخلاف، یہ موج اوّلین ایام میں ایک ایسے گھر کی چار دیواری تک محدود تھی جس میں صرف تین افراد محمدؐ، خدیجہ ؑ اور علی ؑ کے سوا کوئی اورنہ تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ موج مکہ کے تمام گھروں میں داخل ہوگئی۔ تقریباً دس سال بعد مکہ سے باہر خصوصاً مدینہ میں پہنچ گئی اور کچھ ہی عرصے بعدجزیرۃ العرب کے تمام مقامات پر چھا گئی، اور پھر نصف صدی سے بھی کم مدت میں اس کا دامن اُس زمانے کی پوری متمدن دنیا تک پھیل گیا اور اس کی آواز ہرگوشِ شنوا نے سنی ۔
اس موج نے، جیسا کہ زندہ موجوں کی خاصیت ہوتی ہے، اپنی وسعت اور پھیلاؤکے ساتھ ساتھ اپنی قوت و طاقت اور طول کو بھی بڑھایا۔ ان چودہ صدیوں میں کوئی دین، کوئی آئین، کوئی مسلک اور کوئی تحریک ایسی نہیں مل سکتی جس نے اسلام کااثرقبول نہ کیا ہو اور کوئی ایسا متمدن مقام نہیں پایا جاتا جہاں اسلام نے نفوذ نہ کیا ہو۔آج بھی، چودہ صدیاں بعد اور بعثت کی پندرہویں صدی کے آغاز میں، انسان اسلام کی تدریجی وسعت اور اسکی دن بدن بڑھتی ہوئی قوت وقدرت کا نظارہ کر رہاہے۔
تاریخ اور اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ اس مقدس دین نے صدی بہ صدی ترقی کی ہے اور اپنے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور یہ ترقی تدریجی اور طبیعی رہی ہے اور اگر اندلس جیسی سرزمین طاقت کے زور پراسلام کے مقدس اور عظیم الشان پرچم کے سائے سے محروم کی گئی، تو زیادہ بڑے اور زیادہ آبادی رکھنے والے علاقے جیسے انڈونیشیا اور چین وغیرہ نے پوری رغبت اور فخر کے ساتھ اس کی پیروی کو قبول کیا ہے۔
قرآنِ مجید اسلامی تحریک کی نشوونما کی خاصیت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
….انجیل میں ان کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جس میں پہلے پہل نازک سبزہ زمین سے نمودار ہوتا ہے، اسکے بعد خدا اسے طاقتور بناتا ہے، پھر اسے موٹا کرتا ہے، اسکے بعد وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوجاتا ہے ۔تیزی کے ساتھ اس کا نشوونما پانااور اس کی سبزی اور تروتازگی کسانوں کی خوشی ومسرت کا باعث ہوتی ہے، تاکہ اس طرح خداکافروں اور بدخواہوں کوجلائے ۔
….مَثَلُہُمْ فِی التَّوْراٰۃِ وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْءَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ۔ (سورۂ فتح۴۸۔ آیت ۲۹)
اسلامی تحریک نے اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں اپنی مخالف خطرناک امواج جیسے قومی، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی امواج کا سامنا کیا ہے۔ ان دیواروں اور رکاوٹوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو متعصب اور ضدی جاہل عربوں نے ابتدائے اسلام میں اس مقدس موج کے سامنے کھڑی کی تھیں اور جو یکے بعد دیگرے گرتی چلی گئیں۔ تاریخِ اسلام، بالخصوص اس کے ابتدائی دو سو سال مخالف مذہبی، قومی اور سیاسی امواج سے بھرے پڑے ہیں، جن میں سے کوئی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکی اور نیست و نابود ہوگئی اوراب تاریخ میں ان کے نام کے سوا کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ صرف اسی ایک صدی کو لے لیجئے، اس میں مغربی استعماریوں نے اسلام کے خلاف ہر کمزور تنکے کا سہارا لیاہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
ان سے بڑھ کر ان چودہ صدیوں میں اٹھنے والی فکری، فلسفی، علمی اور پھر ثقافتی تحریکیں اور موجیں ہیں۔ ثقافتی تحریکیں کسی شئے اور کسی ہستی کے خلاف مزاحمت نہیں کرتیں، لیکن وہ ہر رکاوٹ کو اپنے سامنے سے ہٹا دیتی ہیں اوراپنی راہ میں حائل ہونے والے ہر قدیم درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔
اسلام نے اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں نہ صرف یہ کہ کسی ثقافتی تحریک سے ضرب نہیں کھائی، بلکہ خود عظیم ثقافتی تحریکوں کا موجد رہا ہے۔ اس نے تمدن اور ثقافت سے استفادہ کیا، اس کی رہنمائی کی اور اس کو زندگی اور ایمان عطا کیا اور اسے قوت و استحکام بخشا۔
آج جبکہ بیسویں صدی کا دوسرا نصف ہے اور نظریات اور عقائد کی جنگ کا دور ہے، آج بھی اسلام ان کا سخت رقیب سمجھا جاتا ہے۔ وہ خود ان سے استفادہ کرتا ہے یا پھر کامیابی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا ہے۔ جاندار ہونے اور جاودانی ہونے کی اس سے بہتر اور کیا علامت ہوسکتی ہے؟
اسلام نے ایک طرف تو عقل کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کیاہوا ہے، عقل کو دین کے ایک بنیادی رکن کے طور پر قبول کیا ہواہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اسے باطنی پیغمبرکہا ہے۔ دوسری طرف اس نے مُلک و ملکوت، دنیا وآخرت، جسم و روح، ظاہر و باطن، مادہ و معنی کو ایک ساتھ مدنظر رکھا ہے اور ہر طرف نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی افراط و تفریط سے اپنا دامن محفوظ رکھا ہے۔
اس سے بڑھ کر اپنے ”مکمل پروگرام“کواہل قیادت اور لائق نفاذ کرنے والوں کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس لئے عجیب نہیں ہے کہ آج جب پورے چودہ سو سال بعد ہم اس مقدس دین کے شاندار کارنامے کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اسے افتخارات سے لبریز پاتے ہیں۔
اس مفادپرست اور جاہل گروہ کو چھوڑیئے، جو ایسے اسباب کی بنا پر جوکسی پر مخفی نہیں ہیں، گاہ بگاہ اسلام کے بارے میں ناگواراظہارِ رائے کرتا ہے، عالمی ضمیر عدلِ الٰہی کا میزان ہے، حقیقت ہمیشہ کے لئے چھپی نہیں رہتی، تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ حقیقت دشمن کے ضمیر کو جھنجوڑتی ہے اور اسے انصاف کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
ا ن چودہ صدیوں میں عیسائی اسلام کے طاقتورترین اور منظم ترین مخالف رہے ہیں۔جب ہم اس طاقتور رقیب کے فیصلوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر دور میں سچائی اور انصاف کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ یہ بجائے خودایک طرف عالمی ضمیر کی ایک نشانی اور دوسری طرف اسلام کی حقانیت کی علامت ہے۔
ایسی زندہ موج جس نے دنیا کی ثقافتوں کو اپنے اندر جذب کیا ہو، مفکرین، فلاسفہ اور دانشوروں کی زبردست عقلوں کو اپنے سامنے جھکنے اور دشمن کومنصفانہ فیصلے پر مجبور کیاہو اورجو مسلسل رشد و نمو کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ جس نے ستر کروڑ انسانوں سے(۲) اپنے آپ کو منوایا ہو، وہ صرف اور صرف ایسی ہی چیز ہو سکتی ہے جس کا سرچشمہ ”وحی“ ہو، جو بشر کے لئے خدا کا پیغام ہو اور جسے انسان کی نجات کے لئے بھیجا گیا ہو۔ایک ایسی موج جو ایک انسان کے ذہن سے اٹھی ہو وہ کسی صورت اس قدر خاصیت اور اثر کی حامل نہیں ہوسکتی ۔
سچ، کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک ”اُمّی“ انسان ا، ایک ایسا شخص جس نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو، اورجو جاہلوں ”اُمّیّوں“ کے درمیان ا، ایک یسی سرزمین پر رہتا ہو جہاں جہالت، فساد، خودغرضی اور خودپرستی کے سوا کچھ نہ ہو، وہ اٹھے اور ایسی بابرکت اور مفید تحریک ایجاد کرے؟
جی ہاں:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآءً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثاُا فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اﷲُ الْاَمْثَال۔
پھوک اور بیکار جھاگ تو ختم ہوجاتا ہے، لیکن جو چیز لوگوں کے لئے سودمند ہوتی ہے وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔(سورۂ رعد۱۳۔آیت۱۷)
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ۔
۱۔ایک طرف ساکت پڑے ہوئے ساحل نے کہا کہ میں نے طویل زندگی بسر کی ہے لیکن میں یہ معلوم نہ کرسکا کہ میں کون ہوں۔از خود رفتہ موج نے تیز تیز چلتے ہوئے کہا، اگر میں موجزن رہوں تو ہوں اور اگر ساکت ہوجاؤں تو نہیں ہوں۔
۲۔اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق۔