میرزا حسین نورؒ ی کاکلام
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
مرحوم حاج میرزا حسین نوری اعلی اللہ مقامہ کا شمار چوٹی کے شیعہ محدثین میں ہوتا ہے اور اُن کی وفات کوتقریباً بہتّر سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزراہے، کیونکہ ان کا انتقال سن ۱۳۲۱ ھ ق میں ہوا ہے۔ میرے مرحوم والد قَدَّس اللہ سِرَّہ جو سن ۲۱ میں تعلیم کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ اس سال (جو ان کی تعلیم کا پہلا سال تھا) میں نے ایک بار مرحوم حاجی کودیکھا کہ وہ منبر پر گئے (وہ عظیم محدث بھی تھے اورمنبر سے خطاب بھی فرماتے تھے) اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اس آیت کو عنوان قرار دیا: وَ لااَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّاآ اَنْ یَّّشَآءَ اﷲُ۔(۱) اسکے کچھ ہی عرصے بعد وہ بیمار ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ مرحوم حاج شیخ عباس قمی رضوان اللہ علیہ کے استاد تھے۔ مرحوم حاج میرزا حسین نوریؒ واقعتا ایک بلند پایہ محدث تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے (جسے میں نے اوّل سے آخر تک پڑھا ہے اور اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا ہوں، اور میں نے متعدد بار اس کتاب کی ترویج و تبلیغ کی ہے) }یہ کتاب {صاحبانِ منبر کے متعلق احکام کے بارے میں ہے اوراس میں ایسے صاحبانِ منبر پر تنقید کی گئی ہے جو تبلیغِ دین کی شرائط کا خیال نہیں رکھتے۔ کتاب کا نام ”لولو و مرجان“ ہے، جو فارسی زبان میں ہے۔(۲)
مرحوم حاج میرزا حسین نوریؒ نے محسوس کیا کہ بعض صاحبانِ منبر دو چیزوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ایک سچائی کا، اور وہ بھی اس بہانے سے کہ ہمارا مقصد نیک ہے اور نیک مقصد کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگرہم نے کوئی ضعیف حدیث بیان کربھی دی، توکوئی بات نہیں۔ (ایمان کی جانب دعوت کے علاوہ ) ہمارا دوسرا مقصد امام حسین علیہ السلام پر رُلانا ہے، اور یہ بھی ایک نیک مقصد ہے، یہ بھی ایمان کی طرف دعوت ہے اور ایمان کا معاملہ ہے۔ انہوں نے اپنی نصف کتاب میں سچ اور جھوٹ کے بارے میں بحث کی ہے اوراس مسئلے پر گفتگو کی ہے کہ اسلام کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دین کی تبلیغ کے لئے حتیٰ ضعیف روایات کابھی سہارا لیں، چہ جائیکہ ایسی کسی چیز کا جس کے بارے میں ہم جانتے ہوں کہ وہ جھوٹی ہے۔
اپنی کتاب کے دوسرے نصف حصے کو انہوں نے اخلاص کے مسئلے کے لئے مخصوص کیا ہے، یعنی دین کی تبلیغ میں اور امام حسین علیہ السلام پر رُلانے میں خلوصِ نیت شرط ہے ( سیرتِ نبویؐ کے طور پرجن موضوعات کوہم بیان کرنا چاہتے ہیں، اُن میں سے ایک یہی موضوع ہے) اسکے بعد انہوں نے اجر اور اُجرت کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اس بات کی بہت تاکید کی ہے۔ آج یہ نکتہ ہمارے ذہن میں آیاکہ وہی بات جوہم نے ذریعے کے استعمال کے عنوان کے تحت بیان کی ہے، اسے انہوں نے ایک دوسرے عنوان کے تحت بیان کیاہے اوروہ کبھی کبھی کوئی دلچسپ اور مزیدار بات بھی بیان کر دیتے ہیں۔جیسے کہ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے ایک عالم نے مجھے خط لکھا ہے کہ یہاں لوگ آکرانتہائی جھوٹی باتیں کرتے ہیں اور ضعیف اور باطل حدیثیں بیان کرتے ہیں، آپ جو مرکز میں تشریف فرما ہیں، کچھ کیجئے، کوئی کتاب لکھئے تاکہ ان کو روکا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں لکھا کہ یہ جھوٹ کہیں اور نہیں اسی مرکز میں گھڑے جاتے ہیں۔اسکے بعد وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ دیکھئے معاملہ کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ یزد کے ایک عالم نے مجھ سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ میں یزد سے صحرا کے راستے امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہدجارہا تھا۔ ایامِ محرم شروع ہوگئے۔ شبِ عاشور ہم ایک گاؤں میں پہنچے۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ ایامِ عاشور میں ہم مشہد، یا کم از کم کسی ایسے شہر نہیں پہنچ سکے جہاں عزاداری ہوتی ہو۔ دل میں کہا کہ بالآخر اس گاؤں میں بھی لازماً کہیں نہ کہیں عزاداری ہوتی ہی ہوگی ۔ پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ مثلاً ایک امام بارگاہ ہے جہاں لوگ عزاداری کرتے ہیں۔ وہاں گئے توہم نے دیکھا کہ ایک دیہاتی ذاکرمنبر پر بیٹھ رہا ہے ۔ جب وہ منبر پر بیٹھ گیا تو میں نے دیکھا کہ مسجد کا خادم گیا اور اپنے دامن میں پتھر بھر کر لایا اور ذاکر یا مداحِ اہلِ بیت ؑ کے دامن میں ڈال دیئے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کس لئے ہے؟ اُس ذاکر نے کچھ مصائب پڑھے لیکن کسی نے گریہ نہیں کیا۔ وہ بولا: چراغ گُل کردو۔ چراغ گُل کر دیئے گئے۔ جیسے ہی چراغ گُل کئے گئے، اُس نے لوگوں کے سروں پر سنگ باری شروع کردی۔لوگوں کی آہ وبکابلند ہونے لگی، لوگ چیخ پکار مچانے لگے اور آخرکار لوگوں نے گریہ کرلیا۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا تھا؟ یہ ایک گناہ ہے اور اس کی دِیَت ہوتی ہے، تم نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا: یہ لوگ امام حسین ؑ کی خاطر اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے گریہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ بہرصورت لوگوں کے آنسوتو نکلوانے ہیں، جو ذریعہ بھی ممکن ہو اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔
وہ کہتے ہیں یہ بات غلط ہے، یہ کیاہوا کہ ”جس طریقے سے بھی ہوسکے“؟
کیا امام حسین علیہ السلام پر اتنے جانسوز مصائب نہیں گزرے؟
اگر اُس کے سینے میں دل ہے، اگر اسے امام حسین ؑ سے محبت ہے، اگروہ واقعاًامام حسین ؑ کا شیعہ ہے، تو اگر تم سچے مصائب بھی بیان کرو گے تو بھی وہ گریہ کرے گا، اور اگر اس کے سینے میں دل ہی نہیں ہے، اگراسے امام حسین ؑ سے محبت ہی نہیں ہے، اگروہ امام حسین ؑ کی معرفت ہی نہیں رکھتا، تو وہ سو سال بھی گریہ نہ کرے، ہمیں کیا۔ یہ کیا طریقہ ہے جو تم اختیار کر رہے ہو؟
لہٰذا یہ بات جو ہم نے عرض کی کہ} حق و{حقیقت کے لئے ہر وسیلے سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا، اس سے ہماری مراد ایمان ہے اور اُن کا مقصد بھی یہی ہے۔ یعنی حق و حقیقت کی جانب دعوت کے راستے میں، لوگوں کو بے ایمانی سے ایمان کی طرف لے جانے کی راہ میں تو اہم اور زیادہ اہم کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ اہم اور زیادہ اہم (اہم اور مہم) کا مسئلہ کسی اور جگہ کے لئے ہے۔ یعنی اجتماعی مصلحت میں اور حتیٰ انفرادی اور ذاتی عبادات کے معاملے میں جیسے نماز پڑھنا یا غصبی زمین وغیرہ کے مسئلے میں۔ لیکن تبلیغ اور اسلام کا پیغام پہنچانے کے معاملے میں انسان کو ذرّہ برابر حق و حقیقت سے (تجاوز نہیں کرنا چاہئے)۔ انسان ایک حدیث بیان کرنا چاہتا ہے، پھر سوچتا ہے کہ اگر اس حدیث کو اس طرح سے بیان کروں تو اس کا اثر بہتر ہوگا۔ یہ گناہ ہے، بلکہ اسے دخل در معقولات کہنا چاہئے، تمہیں ان باتوں کا حق نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ قرآنی آیات پیش کرتے ہیں کہ خدا نے ضمانت دی ہے: اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا۔(۳) ہم تبلیغ کے راستے میں اپنے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں۔ اے میرے پیغمبرو! تم حق و حقیقت کی راہ پر چلو، تاثیر پیدا کرنا ہمارا کام ہے، ہم ضمانت دیتے ہیں۔ انبیا نے بھی وہی راستہ اختیار کیا اور جس نتیجے تک پہنچنا چاہتے تھے اس تک پہنچ گئے۔
پس لوگوں کو دین و ایمان کی طرف دعوت دیتے ہوئے ذرائع کے استعمال میں ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم ہر ممکنہ ذریعے کو کام میں لائیں۔ اس طرح ہم غلط کرتے ہیں، اس کا الٹانتیجہ نکلتا ہے۔ ہم ذرائع (کتابوں) کے معاملے میں محتاج نہیں ہیں، چھوڑ دو ان لوگوں کوجو کتابوں کے اعتبار سے محتاج ہیں، وہ جائیں اورجعلی چیزیں گھڑیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم کیوں ایسا کریں؟ ہم کتب کے اعتبار سے اتنے ثروتمند ہیں کہ اس کی ضرورت کا احساس بھی غلط ہے۔آپ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام پر رلانا چاہتے ہیں، عاشورکا منظر اس قدرولولہ انگیز ہے، اس قدر جذباتی ہے، اس قدر رقت آمیز ہے، اس میں اس قدر عظیم، دل سوز اورجاذب مناظر ہیں کہ اگر ہمارے دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان ہو توصرف امام حسین ؑ کا نام سنتے ہی ہماری آنکھوں سے اشک جاری ہوجائیں گے۔ اِنَّ لِلْحُسَیْنِ مَحَبَّۃً مَکْنُوْنَۃً فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ امام حسین ؑ سے ایک پوشیدہ محبت ہر مومن کے دل میں ہے۔ اَنَا قَتِیْلُ الْعَبْرَۃ۔(۴) میں مقتول اشک ہوں۔
عربی زبان میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کے اشعار ہیں، انتہائی عجیب شعرہیں۔ شاید اپنی طالبِ علمی کے ابتدائی دورمیں جبکہ میں مشہد میں ہوتا تھا ابھی قم نہیں گیا تھا، میں نے ان اشعار کو محدث قمی کی کتاب ”نفثۃ المصدور“ سے حفظ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابو ہارون مکفوف (جو بظاہر نابینا تھے اور انہیں مکفوف کہا جاتا تھا) ایک ماہر شاعر تھے اور کبھی کبھی امام حسین علیہ السلام کے بارے میں مرثیہ کہا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا: جو مرثیہ تم نے میرے جد کے بارے میں کہا ہے وہ پڑھو۔ میں نے عرض کیا ضرور۔ فرمایا: عورتوں کو بھی کہو کہ پردے کے پیچھے آجائیں تاکہ وہ بھی سُن سکیں۔ عورتیں اندرونی سے آکر اس کمرے میں پردے کے پیچھے نزدیک آکربیٹھ گئیں۔
اس نے اشعار پڑھنا شروع کئے جو بظاہر اس نے نئے ہی کہے تھے۔ لیکن آپ ذراان کا مضمون دیکھئے، اور ان میں موجود سبق کوملاحظہ کیجئے۔ جب ان اشعار کو (جو باوجود یکہ پانچ مصرعوں سے زیادہ نہ تھے) پڑھا تو امام صادق علیہ السلام کے گھرمیں کہرام مچ گیا۔ امام صادقؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ان کے شانے لرزرہے تھے۔ امام ؑ کے درِ دولت سے گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ بعد میں بظاہر خود امام ؑ نے فرمایا کہ بس کرو۔ اتنے مرثیے کہے گئے ہیں لیکن میں نے اس جیسا مرثیہ کوئی نہیں دیکھا، یا بہت کم دیکھاہے۔ کہتا ہے:
اُمْرُرْ عَلیٰ جَدَثِ الْحُسَیْنِ
فَقُلْ لِاَعْظُمِہِ الزَّکِیَّۃِ
أَ اَعْظُماً لا زِلْتَ مِنْ
وَطْفاءَ سَاکِبَۃٍ رَوِیَّۃٍ
وَ اِذا مَرَرْتَ بِقَبْرِہِ
فَاَطِلْ بِہِ وَقْفَ الْمَطِیَّۃ
وَ ابْکِ الْمُطَہَّرَ لِلْمُطَھَّرِ
وَ ا لْمُطَہَّرَۃِ النَّقِیَّۃ
کَبُکَاءِ مُعْوِلَۃٍ اَتَتْ
یَوْماً لِوَاحِدِھَا الْمَنِیَّۃ (۵)
ان اشعار کا مضمون یہ ہے: کہتا ہے اے رہ گزر، اے بادِ صبا! حسین ابن علی ؑ کی قبر سے گزر، اور ان کے محبوں کا پیغام انہیں پہنچا دے، ان کے عاشقوں کا پیام انہیں دیدے۔ اے بادِ صبا، ہمارا پیغام حسین ؑ کی پاکیزہ ہڈیوں تک پہنچا دے، کہہ دے، اے ہڈیو! تم ہمیشہ حسین ؑ کے دوستوں کے آنسوؤں سے سیراب ہو۔ یہ اشک بہتے ہیں اور تمہیں سیراب کرتے ہیں۔اگر ایک دن تمہیں پانی سے دور رکھا گیا تھا، اگر حسین ؑ کو تشنہ لب شہید کیا گیا تھا، تو ان کے یہ محب اور شیعہ ہمیشہ اپنے اشک تم پر نچھاور کرتے ہیں۔اے بادِ صبا اگر وہاں سے گزر ہو، تو صرف یہ پیغام پہنچانے پر اکتفا نہ کرنا۔ وہاں اپنی سواری کو روک لینا، بہت دیر تک روکے رکھنا، ٹھہر جانا اور حسین ؑ کے مصائب کو یاد کرنا اور آنسو بہانا، آنسو بہانا اورآنسو بہانا، ایک عام آدمی کی طرح نہیں بلکہ اس عورت کی طرح جس کاصرف ایک ہی بچہ ہو، وہ کس طرح اپنے بچے کی موت پراشک بہاتی ہے، اس طرح سے اشک بہانا، اس پاکیزہ انسان، پاکیزہ باپ کے بیٹے، پاکیزہ ماں کے فرزند پر گریہ کرنا۔
وَ لَاحَولَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلا باللّٰہ العلیِّ العظیم،
وَ صلّی اللّٰہُ علی محمد و آلہ الطاہرین ۔
۱۔سورۂ کہف ۱۸۔آیت ۲۳ اور ۲۴
۲۔یہ کتاب اردو زبان میں آدابِ اہلِ منبر کے نام سے دستیاب ہے۔
۳۔سورۂ مومن ۴۰۔آیت ۵۱
۴۔بحار الانوار۔طبع جدید۔ ج۴۴ ۔ص ۲۷۹ اور ۲۸۰
۵۔نفثۃ المصدور ۔ص ۴۶، الاغانی ۔ج ۱۔ جزء ۷