اندازِ تبلیغ
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ساتویں نشست ۔ اندازِ تبلیغ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین۔والصلٰوۃ والسلام علیٰ عبداللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ ومبلّغ رسالاتہ سیّدناونبیّنا ومولاناابی القاسم محمدوآلہ الطیّبین الطاہرین المعصومین۔
اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم
نِالَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لااَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَ وَ کَفٰی بِاﷲِ حَسِیْبًا۔
وہ لوگ اﷲ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں، اسکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور اﷲ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۳۹
سیرت النبی ؐمیں ہماری گفتگو دعوت اور تبلیغِ اسلام کے بارے میں تھی۔ سب سے پہلے ہم نے اس فریضے اور ذمے داری کی اہمیت اور سنگینی کے بارے میں گفتگو کی، اسکے بعد پیغمبر اکرمؐ یا دوسرے انبیا ؑ کی سیرت کی بعض خصوصیات کے بارے میں عرائض پیش کئے۔ شرحِ صدر کا مسئلہ جو قرآنِ کریم نے پیش کیا ہے، وہ ان ضروریات کا ایک حصہ ہے اور اس نکتے کی اہمیت کوعیاں کرتا ہے۔ پھر بلاغِ مبین کا مسئلہ، نُصح اور خیر خواہی کا مسئلہ اور عدمِ تکلف کا مسئلہ} زیر گفتگو رہا{۔ اب خدا کی مدد اور اس کی نصرت سے دوسرے مسائل عرض کریں گے۔
جس آیت کی ہم نے پہلے تلاوت کی تھی، اُس میں قرآنِ کریم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنکَاٰا شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اﷲِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔
اے نبی! ہم نے آپ کو بشیر اور نوید دینے والا، نذیر اور خطرے کی نشاندہی کرنے والا (اور خدا کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور نورانی چراغ بنا کر ) بھیجاہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۴۵ اور ۴۶
ہم تبشیر اور انذار کے متعلق ایک مختصر وضاحت کے بعد پیغمبر اکرؐم کی بعض نصیحتوں کے حوالے سے عرائض پیش کریں گے۔
تبشیراور انذار
”تبشیر“یعنی بشارت دینا، یہ تشویق کے مفہوم سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگرآپ اپنے بچے کو کسی کام پر آمادہ کرناچاہتے ہیں، تو اس مقصد کے لئے ان دو میں سے کوئی ایک یاایک ہی وقت میںیہ دونوں راستے اختیار کرتے ہیں۔}ان میں سے {ایک تشویق اور نوید کا راستہ ہے۔ مثلاً جب آپ اپنے بچے کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں، تواُس کے سامنے اسکول جانے کے فوائد، آثار اور نتائج کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ اس کام کے لئے اس میں رغبت پیدا ہو اور اس کی طبیعت اور اس کی روح اس کام کو پسند کرنے لگے اوروہ اس کی جانب مائل ہو اور اس کی طرف کھنچنے لگے۔
}اس سلسلے میں{ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسکے سامنے اسکول نہ جانے کا خطرناک انجام بیان کریں، اسے بتائیں کہ اگر انسان اسکول نہ جائے اور جاہل رہ جائے، توایسا، ایسا اور ایسا ہوگا اور بچہ اس انجام سے بچنے کے لئے پڑھائی کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔
یعنی آپ کے دو کاموں میں سے ایک کام تشویق اور تبشیر بچے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ دعوت، تشویق، تحریک، اسے آگے بڑھنے پر راغب کرنا ہے، اورآپ کا دوسرا کام، یعنی انذار اور ڈرانا (البتہ انہی معنی میں جوہم نے عرض کئے: خطرے کا اعلان کرنا) اسے پیچھے سے آگے کی طرف دھکیلنا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تبشیر قائدہے اور انذار سائق۔ ”قائد“ یعنی آگے سے کھینچنے والا۔ ایساشخص جو مثلاً کسی گھوڑے یا اونٹ کی لگام تھام کراسکے آگے چلتا ہے اور جانور اس کے پیچھے ہوتا ہے، اُسے قائد کہتے ہیں۔ اور ”سائق“ اسے کہتے ہیں، جو جانورکو پیچھے سے ہانکتا ہے۔ تبشیر قائد کے حکم میں ہے، یعنی آگے سے کھینچتی ہے اور انذار سائق کے حکم میں ہے، یعنی پیچھے سے ہانکتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک ہی کام انجام دیتے ہیں۔ اب اگر یہ دونوں ایک ساتھ ہوں، قائد بھی ہو اور سائق بھی ہو، ایک آگے سے جانور کو کھینچے اور دوسرا پیچھے سے اُسے ہانکے، تو دونوں عامل ایک ہی وقت میں کار فرماہوں گے۔ اور یہ دونوں ہی انسان کے لئے ضروری ہیں۔ یعنی تبشیر اور انذار میں سے کوئی بھی اکیلا کافی نہیں ہے۔ تبشیر ”شرطِ لازم“ ہے لیکن ”شرطِ کافی“ نہیں ہے، انذار بھی ”شرطِ لازم“ ہے لیکن ”شرطِ کافی“ نہیں ہے۔
یہ جو قرآنِ کریم کو سبع المثانی کہا جاتا ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ قرآن میں ہمیشہ تبشیر اور انذار ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ یعنی ایک طرف سے بشارت اور نوید ہے، اور دوسری طرف سے انذار اور خطرے کا اعلان۔
دعوت کے دوران، یہ دونوں ہی رکن ہمراہ ہونے چاہئیں۔ داعی اور مبلغ کا صرف تبشیر یا صرف انذارسے کام لیناغلط ہوگا۔ بلکہ تبشیر کا پلڑہ کچھ بھاری ہونا چاہئے۔ شاید اسی وجہ سے قرآنِ کریم تبشیر کو مقدم رکھتا ہے: بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرًٌ، مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔